Skip to content

Month: May 2020

ڈوب کر دیکھ لے کبھوٗ مجھ میں

ڈوب کر دیکھ لے کبھوٗ مجھ میں
کس کی خوشبوٗ ہے کوٗ بہ کوٗ مجھ میں

ہر گھڑی محوِ گفتگوٗ مجھ میں
کون در آیا خوش گلوٗ مجھ میں

کتنی سمٹی ہوئی مری ہستی
کتنا پھیلا ہوا ہے توٗ مجھ میں

اُن کو تیرے سراغ سے ہے غرَض
اور دیکھیں گے کیا عدوٗ مجھ میں

گھُٹنے لگتا ہے دَم مسرّت کا
درد ہوتا ہے سرخ روٗ مجھ میں

اب کہاں وہ زبانِ خلق میں بات
کیجیے میری جستجوٗ مجھ میں

کب نہ تھا چاک دامنِ احوال
کب نہ تھی حاجتِ رفوٗ مجھ میں

خوب صورت حیات لگنے لگی
بس گیا جب وہ خوب روٗ مجھ میں

آسماں میں رواں دواں خورشید
تجھ سے ملنے کی آرزوٗ مجھ میں

سہمے سہمے خرَد کے بال و پر
چل رہی ہے جنوٗں کی لوٗ مجھ میں

کس کی چاہت کی فاختہ راغبؔ
اڑتی رہتی ہے چار سوٗ مجھ میں

افتخار راغبؔ

Leave a Comment

تُو کبھی بیٹھ مرے پَاس، مری بَات سمجھ

تُو کبھی بیٹھ مرے پَاس، مری بَات سمجھ
دیکھ یہ ہاتھ کَبھی خاک کی اوقات سمجھ

ہے محبت مرے گَاؤں میں بَغاوت کی طرح
تُو کبھی شہر سے بَاہر کے بھی حَالا ت سمجھ

اس محبت کو اگر مَان مُثلث کوئی
اور مجھے ڈَھاک کے پَاتوں سے کوئی پات سمجھ

تو سکھا ئے گا مجھے عِشق کے اِسرار و رَموز
میں ہوں مَنصور صفَت عشق مری ذَات سمجھ

جِسم کی چاہ میں شہزادی یہ بَاندی نہ بنا
جیت کے جشن میں پِنہاں ہے کوئی مات سمجھ

قِہقہوں میں چھپا رکھی ہے کہانی غم کی
ہجر کے مارے ہوئے لوگوں کے جذبات سمجھ

کَچی پنسل سے خدوخال تو کاغذ پہ اتار
پہلے اس جسم کی حُرمت کی روایات سمجھ

Leave a Comment

گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں

گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں

شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں

بچ نکلتے ہیں اگر آتش سیال سے ہم
شعلۂ عارض گلفام سے جل جاتے ہیں

خود نمائی تو نہیں شیوۂ ارباب وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں

ربط باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں

جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

قتیل شفائی

Leave a Comment
%d bloggers like this: