Skip to content

Month: February 2020

تو بھی الفت میں گرفتار رہا

تو بھی الفت میں گرفتار رہا۔۔جھوٹ کہا
محبتوں میں بے قرار رہا۔۔۔۔ جھوٹ کہا
بڑے سکوں سے مجھے چھوڑ دیا توڑ دیا
پھر مرے بعد سوگوار رہا۔۔۔جھوٹ کہا
کٸی رتوں سے مرا حال تک نہیں پوچھا
تو رابطے کا طلبگار رہا۔۔۔ جھوٹ کہا
مجھے صلیبِ انتظار پر تو ٹانگ دیا
تجھے بھی میرا انتظار رہا۔۔جھوٹ کہا
قسم خدا کی تواتر سے جھوٹ بولتےہو
مرے فراق میں بیمار رہا۔۔۔ جھوٹ کہا
ملال وحزن کا سایہ ہی نہیں چہرے پر
!…تو فسردہ و اشکبار رہا۔۔۔۔جھوٹ کہا

Leave a Comment

کوئی مشکل پڑے تعویذ بنا سکتے ہو

کوئی مشکل پڑے تعویذ بنا سکتے ہو
تم مرے نام پہ ہر داو لگا سکتے ہو

جب جہاں چاہو مجھے چھوڑ کے جا سکتے ہو
اُس گھڑی تک مجھے کیا اپنا بنا سکتے ہو !

کب تقاضا ہے نبھانے کا مگر جاتے ہوئے
میرے اندر سے بھی کیا خود کو مٹا سکتے ہو

تم کو معلوم ہے یہ آخری نیندیں ہیں مری
وسعتِ خواب ذرا اور بڑھا سکتے ہو

آسماں تھام کے رکھا ہے جو تم نے سر پے
تھک گئے ہو تو اسے مجھ پہ گرا سکتے ہو

جب کبھی شہر سے گزرو مرے، ملنا لازم
اک تمہی ہو جو مجھے مجھ سے ملا سکتے ہو

مجھ سے ملنے میں بھلا اب ہے تردد کیسا
اس سے بڑھ کر تو نہیں مجھ کو گنوا سکتے ہو

یاد کرنے کا سلیقہ ہے مری نس نس کو
تم مجھے کیسے بھلاتے ہیں، سکھا سکتے ہو !

میں تو مارا ہوں مروت کا، کہاں بولوں گا
تم مجھے آئینہ جب چاہے دکھا سکتے ہو

بات سیدھی ہے مگر دل بھلا سمجھا ہے کبھی
تم گیا وقت ہو ، کب لوٹ کے آ سکتے ہو

یونہی بے کار گئے شعر تمہارے ابرک
تم تو کہتے تھے کہ پتھر بھی رُلا سکتے ہو

اتباف ابرک

Leave a Comment

ٹوٹ جائیں گے بچا لے کوئی

ٹوٹ جائیں گے بچا لے کوئی
خواب نیندوں سے چرا لے کوئی

ابھی روشن ہیں ان آنکھوں کے دیے
اپنی راہوں میں جلا لے کوئی

وقت نے چھوڑ دیا ہے پیچھے
قافلہ ساتھ ملا لے کوئی

ہم ہیں سامان سمیٹے بیٹھے
دے کے آواز بلا لے کوئی

کورے کاغذ کی طرح آئیں گے
جو بھی من چاہے لکھا لے کوئی

مہ کشی کفر سمجھتا ہوں میں
اور چاہے جو پلا لے کوئی

میرے اپنے تو نہیں مانیں گے
چلو اب غیر منا لے کوئی

مجھ کو تعمیر نہیں کر سکتا
میرا ملبہ ہی اٹھا لے کوئی

اپنی نیندوں سے تو ڈر لگتا ہے
اپنی نیندوں میں سلا لے کوئی

یونہی بے کار بکے جاتا ہوں
آج اپنی ہی سنا لے کوئی

پھر اسی ڈر سے کسی کا نہ ہوا
مجھے پھر سے نہ گنوا لے کوئی

گھپ اندھیروں میں نباہوں ابرک
اپنا سایہ جو بنا لے کوئی

اتباف ابرک

Leave a Comment

کٹ ہی گئی جدائی بھی یہ کب ہوا کہ مر گئے

کٹ ہی گئی جدائی بھی یہ کب ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے

تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے

وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہو گیا
دل میں تیرے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے

ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
صحرا امڈ امڈ پڑے دریا بپھر بپھر گئے

وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے

کوئی کنارِ آب جو بیٹھا ہوا ہے سر نگوں
کشتی کدھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے

آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا
ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے

بارشِ وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے

آبِ محیطِ عشق کا بحر عجیب بحر ہے
تَیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے

اتنے قریب ہو گئے اپنے رقیب ہو گئے
وہ بھی عدؔیم ڈر گیا ہم بھی عدؔیم ڈر گئے

اس کے سلوک پر عدؔیم اپنی حیات و موت ہے
وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ جو ملا تو مرگے

Leave a Comment

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے
جو ربِ دوعالم کا محبوب یگانہ ہے

کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے
زہرہ کا وہ بابا ہے ، سبطین کا نانا ہے

اس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں
جو حسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے

عزت سے نہ مر جائیں کیوں نام محمد پر
ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے

آؤ درِ زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن
ہے نسل کریموں کی، لجپال گھرانا ہے

ہوں شاہِ مدینہ کی میں پشت پناہی میں
کیا اس کی مجھے پروا دشمن جو زمانہ ہے

یہ کہہ کر درِ حق سے لی موت میں کچھ مُہلت
میلاد کی آمد ہے، محفل کو سجانا ہے

قربان اُس آقا پر کل حشر کے دن جس نے
اِس امت آسی کو کملی میں چھپانا ہے

سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو کیا حیرت
بخشش کی روایت میں توبہ تو بہانہ ہے

پُر نور سی راہیں بھی گنبد پہ نگاہیں بھی
جلوے بھی انوکھے ہیں منظر بھی سہانا ہے

ہم کیوں نہ کہیں اُن سے رودادِ الم اپنی
جب اُن کا کہا خود بھی اللہ نے مانا ہے

محرومِ کرم اس کو رکھئے نہ سرِ محشر
جیسا ہے “نصیر” آخر سائل تو پرانا ہے

Leave a Comment

”مرشد”

”مرشد”
پہلا حصہ
مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجئے
مرشد میں آج آپ کو دکھڑے سناؤں گا
مرشد ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا
مرشد ہمارے دیس میں اک جنگ چھڑ گئی
مرشد سبھی شریف شرافت سے مر گئے
مرشد ہمارے زہن گرفتار ہو گئے
مرشد ہماری سوچ بھی بازاری ہو گئی
مرشد ہماری فوج کیا لڑتی حریف سے
مرشد اسے تو ہم سے ہی فرصت نہیں ملی
مرشد بہت سے مار کے ہم خود بھی مر گئے
مرشد ہمیں زرہ نہیں تلوار دی گئی
مرشد ہماری ذات پہ بہتان چڑھ گئے
مرشد ہماری ذات پلندوں میں دب گئی
مرشد ہمارے واسطے بس ایک شخص تھا
مرشد وہ ایک شخص بھی تقدیر لے اڑی
مرشد خدا کی ذات پہ اندھا یقین تھا
افسوس اب یقین بھی اندھا نہیں رہا
مرشد محبتوں کے نتائج کہاں گئے
مرشد مری تو زندگی برباد ہو گئی
مرشد ہمارے گاؤں کے بچوں نے بھی کہا
مرشد کوں آکھیں آ کے ساڈا حال ڈیکھ ونج
مرشد ہمارا کوئی نہیں ، ایک آپ ہیں
یہ میں بھی جانتا ہوں کہ اچھا نہیں ہوا
مرشد ! میں جل رہا ہوں ، ہوائیں نہ دیجیے
مرشد ! ازالہ کیجے ، دعائیں نہ دیجیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا حصہ
مرشد میں رونا روتے ہوئے اندھا ہو گیا
اور آپ ہیں کہ آپ کو احساس تک نہیں
ھہہ ، صبر کیجے صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے
مرشد میں بھونکدا ہاں جو کئی شئے وی نئیں بچی
مرشد وہاں یزیدیت آگے نکل گئی
اور پارسا نماز کے پیچھے پڑے رہے
مرشد کسی کے ہاتھ میں سب کچھ تو ہے ، مگر
مرشد کسی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا
مرشد میں لڑ نہیں سکا ، پر چیختا رہا
خاموش رہ کے ظلم کا حامی نہیں بنا
مرشد ! جو میرے یار ۔۔ بَھلا چھوڑیں، رہنے دیں
اچھے تھے جیسے بھی تھے خدا مغفرت کرے
مرشد ! ہماری رونقیں دوری نگل گئی
مرشد ! ہماری دوستی شبہات کھا گئے
مرشد ! اے فوٹو پچھلے مہینے چھکایا ہم
ہنڑ میکوں ڈیکھ ! لگدئے جو اے فوٹو میڈا ھ ؟
یہ کس نے کھیل کھیل میں سب کچھ الٹ دیا
مرشد یہ کیا کہ مر کے ہمیں زندگی ملے
مرشد ! ہمارے ورثے میں کچھ بھی نہیں ، سو ہم
بے موسمی وفات کا دکھ چھوڑ جائینگے
مرشد کسی کی ذات سے کوئی گلہ نہیں
اپنا نصیب اپنی خرابی سے مر گیا
مرشد وہ جس کے ہاتھ میں ہر ایک چیز ہے
شاید ہمارے ساتھ وہی ہاتھ کر گیا
———————
تیسرا حصہ
مرشد ! دعائیں چھوڑ ، ترا پول کھل گیا
تو بھی مری طرح ہے ، ترے بس میں کچھ نہیں
انسان میرا درد سمجھ سکتے ہی نہیں
میں اپنے سارے زخم خدا کو دکھاؤں گا
اے ربِ کائنات ! ادھر دیکھ ، میں فقیر
جو تیری سر پرستی میں برباد ہو گیا
پروردگار ! بول ، کہاں جائیں تیرے لوگ
تجھ تک پہنچنے کو بھی وسیلہ ضروری ہے
پروردگار ! کچھ بھی صحیح نہیں رہا
یہ کس کو تیرے دین کے ٹھیکے دیے گئے
پروردگار ! ظلم پہ پرچم نِگوں کیا
ہر سانحے پہ صرف ترانے لکھے گئے
ہر شخص اپنے باپ کے فرقے میں بند ہے
پروردگار ! تیرے صحیفے نہیں کھلے
کچھ اور بھیج ! تیرے گزشتہ صحیفوں سے
مقصد ہی حل ہوئے ہیں ، مسائل نہیں ہوئے
جو ہو گیا سو ہو گیا ، اب مختیاری چھین
پرودگار ! اپنے خلیفے کو رسی ڈال
جو تیرے پاس وقت سے پہلے پہنچ گئے
پروردگار ! انکے مسائل کا حل نکال
پروردگار ! صرف بنا دینا کافی نئیں
تخلیق کر کے بھیج تو پھر دیکھ بھال کر
ہم لوگ تیری کن کا بھرم رکھنے آئے ہیں
پروردگار ! یار ، ہمارا خیال کر
افکارعلوی

Leave a Comment

ازل سے ایک ہجر کا اسیر ھے،اخیر ھے

ازل سے ایک ہجر کا اسیر ھے،اخیر ھے
یہ دل بھی کیا لکیر کا فقیر ھے،اخیر ھے

ہمارے ساتھ حادثہ بھی دفعتا” نہیں ہوا
جو ہاتھ میں نصیب کی لکیر ھے،اخیر ھے

ہمارے قتل پر ہمیں ہی دوش دے رہے ہیں آپ
جناب من جو آپ کا ضمیر ھے،اخیر ھے

اسی طرف بھڑک رہی ھے آگ زور شور سے
اسی طرف ہی روشنی کثیر ھے، اخیر ھے

اسی لیے اسیر ہوں میں سر زمینِ جھنگ کا
سنا ھے میں نے جھنگ کی جو ہیر ھے،اخیر ھے

ہرا رھے گا عمر بھر جو زخم آپ سے ملا
جناب کی کمان میں جو تیر ھے،اخیر ھے

بہار نے کیا بھی تو خزاؤں کا بھلا کیا
یہ زندگی بھی موت کی سفیر ھے،اخیر ھے

Leave a Comment

بہشت میں بھی پہنچ کر مجھے قرار نہیں

بہشت میں بھی پہنچ کر مجھے قرار نہیں
یہ کوئی اور جگہ ہے مقامِ یار نہیں

یہ کہہ کہ مجھکو لیے جا رہا ہے شوقِ وُجود
کہ آج سر نہیں یا آستانِ یار نہیں

گھٹا ہے ، برق ہے ، ساقی ، مے ہے ، یار نہیں
بہار تو ہے مگر ، حاصل ِ بہار نہیں

کبھی خیال کی حد میں تھا یار کا جلوہ
کہ اب ہے جلوہ ہی جلوہ ، خیالِ یار نہیں

کوئی بھی دیکھنے والوں میں ہوشیار نہیں
نگاہ ایک ہے جلوں کا کچھ شمار نہیں

وہ کوہِ طُور ہو یا سر زمین ِ دل بیدم
جمالِ یار سے خالی کوئی دیار نہیں

بیدمشاہوارثی

 

Leave a Comment

کوئی سلسلہ نہیں جاوداں

کوئی سلسلہ نہیں جاوداں
تیرے ساتھ بھی تیرے بعد بھی
میں تو ہر طرح سے ہوں رائیگاں
تیرے ساتھ بھی تیرے بعد بھی

میرے ہم نفس تو چراغ تھا
تجھے کیا خبر میرے حال کی
کہ جی میں کیسے دھواں دھواں
تیرے ساتھ بھی تیرے بعد بھی

نہ تیرا وصال وصال تھا،
نہ تیری جدائی جدائی ہے
وہی حالت دل بدگماں تیرے
ساتھ بھی تیرے بعد بھی

میں یے چاھتی ہوں عمر بھر رہے
تشنگی میرے عشق میں
کوئی جستجو رہے درمیاں
تیرے ساتھ بھی تیرے بعد بھی

میرے نقش پا تجھے دیکھ کر
یے جو چل رہے ہیں انہیں بتا
یہ میرا سراغ میرا نشاں تیرے
ساتھ بھی تیرے بعد بھی

Leave a Comment

ازل سے ایک ہجر کا اسیر ھے،اخیر ھے

ازل سے ایک ہجر کا اسیر ھے،اخیر ھے
یہ دل بھی کیا لکیر کا فقیر ھے،اخیر ھے

ہمارے ساتھ حادثہ بھی دفعتا” نہیں ہوا
جو ہاتھ میں نصیب کی لکیر ھے،اخیر ھے

ہمارے قتل پر ہمیں ہی دوش دے رہے ہیں آپ
جناب من جو آپ کا ضمیر ھے،اخیر ھے

اسی طرف بھڑک رہی ھے آگ زور شور سے
اسی طرف ہی روشنی کثیر ھے، اخیر ھے

اسی لیے اسیر ہوں میں سر زمینِ جھنگ کا
سنا ھے میں نے جھنگ کی جو ہیر ھے،اخیر ھے

ہرا رھے گا عمر بھر جو زخم آپ سے ملا
جناب کی کمان میں جو تیر ھے،اخیر ھے

بہار نے کیا بھی تو خزاؤں کا بھلا کیا
یہ زندگی بھی موت کی سفیر ھے،اخیر ھے

Leave a Comment
%d bloggers like this: