Skip to content

”مرشد”

Last updated on April 13, 2020

”مرشد”
پہلا حصہ
مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجئے
مرشد میں آج آپ کو دکھڑے سناؤں گا
مرشد ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا
مرشد ہمارے دیس میں اک جنگ چھڑ گئی
مرشد سبھی شریف شرافت سے مر گئے
مرشد ہمارے زہن گرفتار ہو گئے
مرشد ہماری سوچ بھی بازاری ہو گئی
مرشد ہماری فوج کیا لڑتی حریف سے
مرشد اسے تو ہم سے ہی فرصت نہیں ملی
مرشد بہت سے مار کے ہم خود بھی مر گئے
مرشد ہمیں زرہ نہیں تلوار دی گئی
مرشد ہماری ذات پہ بہتان چڑھ گئے
مرشد ہماری ذات پلندوں میں دب گئی
مرشد ہمارے واسطے بس ایک شخص تھا
مرشد وہ ایک شخص بھی تقدیر لے اڑی
مرشد خدا کی ذات پہ اندھا یقین تھا
افسوس اب یقین بھی اندھا نہیں رہا
مرشد محبتوں کے نتائج کہاں گئے
مرشد مری تو زندگی برباد ہو گئی
مرشد ہمارے گاؤں کے بچوں نے بھی کہا
مرشد کوں آکھیں آ کے ساڈا حال ڈیکھ ونج
مرشد ہمارا کوئی نہیں ، ایک آپ ہیں
یہ میں بھی جانتا ہوں کہ اچھا نہیں ہوا
مرشد ! میں جل رہا ہوں ، ہوائیں نہ دیجیے
مرشد ! ازالہ کیجے ، دعائیں نہ دیجیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا حصہ
مرشد میں رونا روتے ہوئے اندھا ہو گیا
اور آپ ہیں کہ آپ کو احساس تک نہیں
ھہہ ، صبر کیجے صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے
مرشد میں بھونکدا ہاں جو کئی شئے وی نئیں بچی
مرشد وہاں یزیدیت آگے نکل گئی
اور پارسا نماز کے پیچھے پڑے رہے
مرشد کسی کے ہاتھ میں سب کچھ تو ہے ، مگر
مرشد کسی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا
مرشد میں لڑ نہیں سکا ، پر چیختا رہا
خاموش رہ کے ظلم کا حامی نہیں بنا
مرشد ! جو میرے یار ۔۔ بَھلا چھوڑیں، رہنے دیں
اچھے تھے جیسے بھی تھے خدا مغفرت کرے
مرشد ! ہماری رونقیں دوری نگل گئی
مرشد ! ہماری دوستی شبہات کھا گئے
مرشد ! اے فوٹو پچھلے مہینے چھکایا ہم
ہنڑ میکوں ڈیکھ ! لگدئے جو اے فوٹو میڈا ھ ؟
یہ کس نے کھیل کھیل میں سب کچھ الٹ دیا
مرشد یہ کیا کہ مر کے ہمیں زندگی ملے
مرشد ! ہمارے ورثے میں کچھ بھی نہیں ، سو ہم
بے موسمی وفات کا دکھ چھوڑ جائینگے
مرشد کسی کی ذات سے کوئی گلہ نہیں
اپنا نصیب اپنی خرابی سے مر گیا
مرشد وہ جس کے ہاتھ میں ہر ایک چیز ہے
شاید ہمارے ساتھ وہی ہاتھ کر گیا
———————
تیسرا حصہ
مرشد ! دعائیں چھوڑ ، ترا پول کھل گیا
تو بھی مری طرح ہے ، ترے بس میں کچھ نہیں
انسان میرا درد سمجھ سکتے ہی نہیں
میں اپنے سارے زخم خدا کو دکھاؤں گا
اے ربِ کائنات ! ادھر دیکھ ، میں فقیر
جو تیری سر پرستی میں برباد ہو گیا
پروردگار ! بول ، کہاں جائیں تیرے لوگ
تجھ تک پہنچنے کو بھی وسیلہ ضروری ہے
پروردگار ! کچھ بھی صحیح نہیں رہا
یہ کس کو تیرے دین کے ٹھیکے دیے گئے
پروردگار ! ظلم پہ پرچم نِگوں کیا
ہر سانحے پہ صرف ترانے لکھے گئے
ہر شخص اپنے باپ کے فرقے میں بند ہے
پروردگار ! تیرے صحیفے نہیں کھلے
کچھ اور بھیج ! تیرے گزشتہ صحیفوں سے
مقصد ہی حل ہوئے ہیں ، مسائل نہیں ہوئے
جو ہو گیا سو ہو گیا ، اب مختیاری چھین
پرودگار ! اپنے خلیفے کو رسی ڈال
جو تیرے پاس وقت سے پہلے پہنچ گئے
پروردگار ! انکے مسائل کا حل نکال
پروردگار ! صرف بنا دینا کافی نئیں
تخلیق کر کے بھیج تو پھر دیکھ بھال کر
ہم لوگ تیری کن کا بھرم رکھنے آئے ہیں
پروردگار ! یار ، ہمارا خیال کر
افکارعلوی

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: