Skip to content

Month: February 2020

ہم نے غزلوں میں تمہیں ایسے پکارا محسن

ہم نے غزلوں میں تمہیں ایسے پکارا محسن
جیسے تم ہو کوئی قسمت کا ستارا محسن
اب تو خود کو بھی نکھارا نہیں جاتا ہم سے
وہ بھی کیا دن تھے کہ تجھ کو بھی سنوارا محسن
اپنے خوابوں کو اندھیروں کے حوالے کر کے
ہم نے صدقہ تیری آنکھوں کا اتارا محسن
ہم کو معلوم ہے اب لوٹ کے آنا تیرا
نہیں ممکن یہ مگر پھر بھی خدارا محسن
ہم تو رخصت کی گھڑی کو بھی نہ سمجھے محسن
سانس دیتی رہی ہجرت کا اشارہ محسن
اس نے جب جب بھی مجھے دل سے پکارا محسن
میں نے تب تب یہ بتایا کے تمہارا محسن
لوگ صدیوں کے خطائوں پہ بھی خوش بستے ہیں
ہم کو لمحوں کی وفاؤں نے اجاڑا محسن
ہو گیا جب یہ یقین اب وہ نہیں آئے گا
آنسو اور غم نے دیا دل کو سہارا محسن
وہ تھا جب پاس تو جینے کو بھی دل کرتا تھا
اب تو پل بھر بھی نہیں ہوتا گزارا محسن
اسکو پانا تو مقدر کی لکیروں میں نہیں
اسکو کھونا بھی کریں کیسے گوارہ محسن

محسن نقوی

Leave a Comment

خوشبوؤں کے کنول جلاؤں گا

خوشبوؤں کے کنول جلاؤں گا
سیج تو چاند پر سجاؤں گا

تُو شریکِ حیات بن جائے
پیار کی مملکت بناؤں گا

تھام لے ہاتھ میرا وعدہ ہے
تیری پازیب تک دَباؤں گا

تُو کرم ماں کے بھول جائے گی
میں ترے اِتنے ناز اُٹھاؤں گا

تیرے گُل رُخ کی تازگی کے لیے
شبنمی گیت گنگناؤں گا

خانقاہوں کے بعد تیرے لیے
مندروں میں دِئیے جلاؤں گا

مانگ تیری دَرخشاں رَکھنے کو
کہکشائیں بھی توڑ لاؤں گا

دِل کی رانی ہے ، نوکرانی نہیں
اَپنے گھر والوں کو بتاؤں گا

تیرے گھر والے روز آئیں گے
اُن سے یوں رابطہ بڑھاؤں گا

گھر سے میں سیدھا جاؤں گا دَفتر
اور دَفتر سے گھر ہی آؤں گا

یاروں کے طعنے بے اَثر ہوں گے
میں ترے ساتھ کھانا کھاؤں گا

چاندنی شب میں من پسند غذا
لقمہ لقمہ تجھے کھِلاؤں گا

کاسۂ آب پہلے دُوں گا تجھے
پیاس میں بعد میں بجھاؤں گا

بھول جائے گی گھر کی اُکتاہٹ
شب تجھے اِس قَدَر گھماؤں گا

ویسے بھر آئے دِل تو رو لینا
سوچ بھی نہ کہ میں ستاؤں گا

گر خطا تجھ سے کوئی ہو بھی گئی
دیکھ کر صرف مسکراؤں گا

چند لمحے خفا ہُوئے بھی اَگر
وعدہ ہے پہلے میں مناؤں گا

رات بارہ بجے تُو سوئے اَگر
دِن کے بارہ بجے جگاؤں گا

Leave a Comment

غموں کی دُھول میں شاید بکھر گیا ہو گا

غموں کی دُھول میں شاید بکھر گیا ہو گا
بچھڑ کے مجھ سے وہ جانے کدھر گیا ہو گا

وہاں وہاں مری خشبو بکھر گئی ہو گی
جہاں جہاں بھی مرا ہم سفر گیا ہو گا

میں اُس کے ہجر میں کتنا اُداس رہتا ہوں
یہ سن کے اُس کا بھی چہرہ اُتر گیا ہو گا

یہ کس نے خواب میں آکر جگا دیا مجھ کو
مجھے یقیں ہے وہ سوتے میں ڈر گیا ہو گا

خوشی کی دھوپ نے سنولا دیا تھا رنگ اُس کا
اُداس ہو کے وہ کتنا نکھر گیا ہو گا

نکل پڑا تھا سرِ شام چاند کی صورت
مری تلاش میں وہ تا سحر گیا ہو گا

جو مرے دل کو قفس میں بدل گیا جرارؔ
وہ اپنے گھر کو بھی ویران کر گیا ہو گا

Leave a Comment

آیاتِ ہجر کی بیاں تفسیر کی نہیں

آیاتِ ہجر کی بیاں تفسیر کی نہیں
دل پر گزرتی جو بھی وہ تحریر کی نہیں

کوئی تو بھید ہو گا خموشی کے آس پاس
جلتی ہوئی نگاہ نے تقریر کی نہیں

دستک ترے جمال نے جب بھی ذہن پہ دی
اٹھ کر گلے لگا لیا تاخیر کی نہیں

تجھ کو رکھا سنبھال کے پتلی کے درمیاں
اوجھل کبھی نگاہ سے تصویر کی نہیں

میں تو تمھاری قید میں جیتا ہوں رات دن
ڈھیلی کبھی خیال نے زنجیر کی نہیں

دل میں رکھا تجھے جو تو پوجا ہے اپنا آپ
پھر میں نے اپنی ذات کی تحقیر کی نہیں

تیری جفا کی بخشی نشانی سنبھال لی
مٹتے ہوئے وجود کی تعمیر کی نہیں

دیکھا جو پورا خواب ادھورا ہی رہ گیا
میں نے بھی پھر عیاں کبھی تعبیر کی نہیں

واحد وجود تیرے سے روشن ہے میرا دل
تجھ بن کسی کو چاہوں یہ تقصیر کی نہیں

Leave a Comment
%d bloggers like this: