Skip to content

کٹ ہی گئی جدائی بھی یہ کب ہوا کہ مر گئے

کٹ ہی گئی جدائی بھی یہ کب ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے

تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے

وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہو گیا
دل میں تیرے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے

ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
صحرا امڈ امڈ پڑے دریا بپھر بپھر گئے

وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے

کوئی کنارِ آب جو بیٹھا ہوا ہے سر نگوں
کشتی کدھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے

آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا
ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے

بارشِ وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے

آبِ محیطِ عشق کا بحر عجیب بحر ہے
تَیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے

اتنے قریب ہو گئے اپنے رقیب ہو گئے
وہ بھی عدؔیم ڈر گیا ہم بھی عدؔیم ڈر گئے

اس کے سلوک پر عدؔیم اپنی حیات و موت ہے
وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ جو ملا تو مرگے

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: