سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
یہاں کس نے ہمیں بشر جانا
ہم کہ چپ کو تھے اک ہنر جانے
سب نے کم عقل ، بے خبر جانا
اک سفر ہے یہ زندگی لیکن
کون سمجھا مگر کدھر جانا
راہ ملتے ہی اپنی راہ گیا
یہاں جس جس کو ہمسفر جانا
کیا خرابی ہے میرا ہونے میں
تم کو آتا تو ہے مکر جانا
آنکھ اندھی ہو، کان بہرے ہوں
اس کو کہتے ہیں دل کا بھر جانا
ایسا سیلاب یہ محبت ہے
جس نے سیکھا نہیں اتر جانا
گل ہو، خوشبو ہو یا محبت ہو
سب کا انجام ہے، بکھر جانا
درد، وحشت ، اندھیرا ، دشت، خزاں
میرے دل کو سبھی نے گھر جانا
شبِ غم سے ہر ایک شب نے کہا
آج آئے بنا گزر جانا
ہر تعلق سراب ہے ابرک
جو نہ بھٹکا وہ کب مگر جانا
اتباف ابرک
Leave a Comment