میں تو ہوں صرف قصہ خواں اس میں
دنیا تیری ہے داستاں اس میں
چاہے کوئی بھی دل ٹٹولو تم
کوئی رہتا ہے نیم جاں اس میں
کٹ رہا ہے شجر شجر یہ چمن
کیسا غافل ہے باغباں اس میں
کبھی محفل تھی غم گساروں کی
آج رہتے ہیں بدگماں اس میں
خود جہاں دے گا آندھیوں کو خبر
تم بناﺅ تو آشیاں اس میں
ہر تعلق ہے ناو کاغذ کی
اور محبت ہے بادباں اس میں
گھر بناو تو احتیاط کرو
رہ نہ جائے فقط مکاں اس میں
تھے فسانے کی آنکھ میں آنسو
ذکر آیا مرا جہاں اس میں
مل گئی تو گذار لی ہم نے
یوں جیا جاتا ہے کہاں اس میں
گو کہ ساکت ہے زندگی میری
درد رکھّا گیا رواں اس میں
شکوہ ہے تو حیات سے اتنا
جا رہا ہوں میں رایگاں اس میں
یہ زمانہ ہے آئنہ ، ابرک
ڈھونڈتا کیا ہے خوبیاں اس میں