Skip to content

یہاں نفس نفس ملول ہے یہ فضول ہے

یہاں نفس نفس ملول ہے یہ فضول ہے
یہ جو زندگی کا اصول ہے یہ فضول ہے

میں نہیں ہوں قابلِ آرزو ، مرے مبتلا
ترے ہاتھ سرخ جو پھول ہے یہ فضول ہے

یہ جو تیرے جسم کی راکھ ہے سوا لاکھ ہے
یہ جو میرے ملبے کی دھول ہے یہ فضول ہے

جو بصارتوں کا وصال ہو تو کمال ہو
جو سماعتوں کا حصول ہے یہ فضول ہے

یہی بات کہتا رہوں گا پورے وثوق سے
کہ جو بغضِ آل رسول ہے یہ فضول ہے

مجھے اپنے آپ سے نفی کرنے کا سوچ مت
یہ فضول ہے ، یہ فضول ہے ، یہ فضول ہے

Published inUncategorized

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: