Skip to content

Tag: Ifkar Alvi

Ifkar Alvi

اس سے پہلے کہ تجھے اور سہارا نہ ملے

اس سے پہلے کہ تجھے اور سہارا نہ ملے
میں تیرے ساتھ ہوں جب تک مرے جیسا نہ ملے

کم سے کم بدلے میں جنت اسے دے دی جاۓ
جس محبت کے گرفتار کو صحرا نہ ملے

مجھ کو اک رنگ عطا کر تا کہ پہچان رہے
کل کلاں یہ نہ ہو تجھے میرا چہرا نہ ملے

لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ بُرے آدمی ہیں
لوگ بھی ایسے جنہوں نے نہ کبھی دیکھا نہ ملے

بس یہی کہہ کہ اسے ہم نے خدا کو سونپا
اتفاقاََ کہیں مل جاۓ بھی تو روتا نہ ملے

تم لوگ دعا کرتے رہو کہ میرا سفر اچھا رہے
کوٸی مل جاۓ مگر عقل کا اندھا نہ ملے

مجھ کو دیکھا تو اچانک لپٹ کہ یوں روۓ
جیسے ماں کو کہیں سے گمشدہ بچہ نہ ملے

بددعا ہے کہ وہاں آٸیں جہاں بیٹھتے تھے
اور افکار وہاں آپ کو کہیں بیٹھا نہ ملے

Leave a Comment

ہمارے دور کو برباد کر گئے افکار

ہمارے دور کو برباد کر گئے افکار
یہ کون آئے کہ گھر گھر سے در گئے افکار

تمام لوگ بہت خوش ہیں , اپنی مستی میں ہیں
میں کس سے بولوں مرے لوگ مر گئے افکار

وہ مجھ پہ غور کرے گا تو مجھ سے پوچھے گا
کہ آدھے آدھے ہو , آدھے کدھر گئے افکار

اساڈا ڈکھ , چھڑا ساڈا ھ .. کُئ کِنجے سمجھے
سو جگ ہنسائی ہوئی , ہم جدھر گئے افکار

ہماری آنکھ کھلی , تم نہیں تھے , خامشی تھی
لگا کہ بستی سے دریا گزر گئے افکار

تمہارے بعد ہمیں وسوسوں نے گھیر لیا
کسی نے ہنس کے بلایا تو ڈر گئے افکار

خدا بچائے کہ شہرت فریبی کتیا ہے
یہ صرف بھونکی , مرے بال و پر گئے افکار

افکار علوی

Leave a Comment

اس سے پہلے کہ تجھے اور سہارا نہ ملے

اس سے پہلے کہ تجھے اور سہارا نہ ملے
میں ترے ساتھ ہوں جب تک مرے جیسا نہ ملے

کم سے کم بدلے میں جنت اسے دے دی جائے
جس محبت کے گرفتار کو صحرا نہ ملے

مجھ کو اک رنگ عطا کر تا کہ پہچان رہے
کل کلاں یہ نہ ہو تجھ کو مرا چہرہ نہ ملے

لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ برے آدمی ہیں
لوگ بھی ایسے جنہوں نے ہمیں دیکھا ، نہ ملے

بس یہی کہہ کے اسے میں نے خدا کو سونپا
اتفاقاً کہیں مل جائے تو روتا نہ ملے

تم دعا کرتے رہو میرا سفر اچھا رہے
کوئی مل جائے مگر عقل کا اندھا نہ ملے

مجھ کو دیکھا تو مجھے ایسے لپٹ کر روئی
جیسے اک ماں کو کوئی گمشدہ بچہ نہ ملے

بددعا ہے کہ وہاں آئیں جہاں بیٹھتے تھے
اور افکار وہاں آپ کو بیٹھا نہ ملے

افکار علوی

Leave a Comment

وہاں وکیل قطاروں میں جب قطارے گئے

وہاں وکیل قطاروں میں جب قطارے گئے
مری طرف سے علم اور تیس پارے گئے

ترا بچھڑنا بھی میرے لیے مفید رہا
کہ اس خسارے کے باعث کئی خسارے گئے

بجا کہ تیری ہنسی کا کوئی قصور نہیں
مگر جو لوگ غلط فہمیوں میں مارے گئے

میں اب یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا کروں ترے ساتھ
جنہیں تو ساتھ لے آیا تھا وہ تو سارے ، گئے

میں جنگ جیت کے بھی خوش نہیں ہوں ، رو رہا ہوں
کہ اس طرف سے بھی جتنے گئے ، ہمارے گئے

اب اپنا نام کمائیں کہ ایک نام کے ساتھ
بہت ہے جتنا پکارے گئے ، پکارے گئے

ذرا سی پھونک ملی اور ہوا میں اڑنے لگے
ہمارے دوست غبارے تھے اور غبارے ، گئے

افکار علوی

Leave a Comment

کچھ اس طرح سے کسی نے کہا خدا حافظ

کچھ اس طرح سے کسی نے کہا خدا حافظ
کہ جیسے بول رہا ھو خدا، خدا حافظ

میں ایک بار پریشان ھوا تھا اپنے لیے
جب اس نے روتے ہوئے بولا تھا خدا حافظ

تُو جس کہ پاس بھی جا، جا تجھے اجازت ھے
تجھے خدا کے حوالے کیا خدا حافظ

مجھے تو کیسے خدا کہ سپرد کر رھا ھے
میں تیرے زمہ ھوں تُو کہہ رھا خدا حافظ؟؟

میں دھاڑیں مار کہ رویا کسی کی یاد آئی
جہاں کہیں بھی سنا یا پڑھا خدا حافظ

پھر ایک روز مقدر سے ھار مانی گئی
جبیں چوم کر بولا گیا خدا حافظ

میں اُس سے مل کر اسے دُکھ سنانے والا تھا
سلام کرتے ھی جس نے کہا خدا حافظ

افکار علوی

Leave a Comment

”مرشد”

”مرشد”
پہلا حصہ
مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجئے
مرشد میں آج آپ کو دکھڑے سناؤں گا
مرشد ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا
مرشد ہمارے دیس میں اک جنگ چھڑ گئی
مرشد سبھی شریف شرافت سے مر گئے
مرشد ہمارے زہن گرفتار ہو گئے
مرشد ہماری سوچ بھی بازاری ہو گئی
مرشد ہماری فوج کیا لڑتی حریف سے
مرشد اسے تو ہم سے ہی فرصت نہیں ملی
مرشد بہت سے مار کے ہم خود بھی مر گئے
مرشد ہمیں زرہ نہیں تلوار دی گئی
مرشد ہماری ذات پہ بہتان چڑھ گئے
مرشد ہماری ذات پلندوں میں دب گئی
مرشد ہمارے واسطے بس ایک شخص تھا
مرشد وہ ایک شخص بھی تقدیر لے اڑی
مرشد خدا کی ذات پہ اندھا یقین تھا
افسوس اب یقین بھی اندھا نہیں رہا
مرشد محبتوں کے نتائج کہاں گئے
مرشد مری تو زندگی برباد ہو گئی
مرشد ہمارے گاؤں کے بچوں نے بھی کہا
مرشد کوں آکھیں آ کے ساڈا حال ڈیکھ ونج
مرشد ہمارا کوئی نہیں ، ایک آپ ہیں
یہ میں بھی جانتا ہوں کہ اچھا نہیں ہوا
مرشد ! میں جل رہا ہوں ، ہوائیں نہ دیجیے
مرشد ! ازالہ کیجے ، دعائیں نہ دیجیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا حصہ
مرشد میں رونا روتے ہوئے اندھا ہو گیا
اور آپ ہیں کہ آپ کو احساس تک نہیں
ھہہ ، صبر کیجے صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے
مرشد میں بھونکدا ہاں جو کئی شئے وی نئیں بچی
مرشد وہاں یزیدیت آگے نکل گئی
اور پارسا نماز کے پیچھے پڑے رہے
مرشد کسی کے ہاتھ میں سب کچھ تو ہے ، مگر
مرشد کسی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا
مرشد میں لڑ نہیں سکا ، پر چیختا رہا
خاموش رہ کے ظلم کا حامی نہیں بنا
مرشد ! جو میرے یار ۔۔ بَھلا چھوڑیں، رہنے دیں
اچھے تھے جیسے بھی تھے خدا مغفرت کرے
مرشد ! ہماری رونقیں دوری نگل گئی
مرشد ! ہماری دوستی شبہات کھا گئے
مرشد ! اے فوٹو پچھلے مہینے چھکایا ہم
ہنڑ میکوں ڈیکھ ! لگدئے جو اے فوٹو میڈا ھ ؟
یہ کس نے کھیل کھیل میں سب کچھ الٹ دیا
مرشد یہ کیا کہ مر کے ہمیں زندگی ملے
مرشد ! ہمارے ورثے میں کچھ بھی نہیں ، سو ہم
بے موسمی وفات کا دکھ چھوڑ جائینگے
مرشد کسی کی ذات سے کوئی گلہ نہیں
اپنا نصیب اپنی خرابی سے مر گیا
مرشد وہ جس کے ہاتھ میں ہر ایک چیز ہے
شاید ہمارے ساتھ وہی ہاتھ کر گیا
———————
تیسرا حصہ
مرشد ! دعائیں چھوڑ ، ترا پول کھل گیا
تو بھی مری طرح ہے ، ترے بس میں کچھ نہیں
انسان میرا درد سمجھ سکتے ہی نہیں
میں اپنے سارے زخم خدا کو دکھاؤں گا
اے ربِ کائنات ! ادھر دیکھ ، میں فقیر
جو تیری سر پرستی میں برباد ہو گیا
پروردگار ! بول ، کہاں جائیں تیرے لوگ
تجھ تک پہنچنے کو بھی وسیلہ ضروری ہے
پروردگار ! کچھ بھی صحیح نہیں رہا
یہ کس کو تیرے دین کے ٹھیکے دیے گئے
پروردگار ! ظلم پہ پرچم نِگوں کیا
ہر سانحے پہ صرف ترانے لکھے گئے
ہر شخص اپنے باپ کے فرقے میں بند ہے
پروردگار ! تیرے صحیفے نہیں کھلے
کچھ اور بھیج ! تیرے گزشتہ صحیفوں سے
مقصد ہی حل ہوئے ہیں ، مسائل نہیں ہوئے
جو ہو گیا سو ہو گیا ، اب مختیاری چھین
پرودگار ! اپنے خلیفے کو رسی ڈال
جو تیرے پاس وقت سے پہلے پہنچ گئے
پروردگار ! انکے مسائل کا حل نکال
پروردگار ! صرف بنا دینا کافی نئیں
تخلیق کر کے بھیج تو پھر دیکھ بھال کر
ہم لوگ تیری کن کا بھرم رکھنے آئے ہیں
پروردگار ! یار ، ہمارا خیال کر
افکارعلوی

Leave a Comment
%d bloggers like this: