Skip to content

The Poet Place Posts

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

بے فائدہ الم نہیں بے کار غم نہیں
توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں

میری زباں پہ شکوۂ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں

یا رب ہجوم درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں

شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتاً
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں

اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں کوئی نقش قدم نہیں

ملتا ہے کیوں مزہ ستم روزگار میں
تیرا کرم بھی خود جو شریک ستم نہیں

مرگ جگرؔ پہ کیوں تری آنکھیں ہیں اشک ریز
اک سانحہ سہی مگر اتنا اہم نہیں

Leave a Comment

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا
گئے ہوئے کے لیے دل میں کچھ جگہ رکھنا

ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے
زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا

نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگ ربط بن جائے
وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا

اتار پھینک دے خوش فہمیوں کے سارے غلاف
جو شخص بھول گیا اس کو یاد کیا رکھنا

ابھی نہ علم ہو اس کو لہو کی لذت کا
یہ راز اس سے بہت دیر تک چھپا رکھنا

کبھی نہ لانا مسائل گھروں کے دفتر میں
یہ دونوں پہلو ہمیشہ جدا جدا رکھنا


اڑا دیا ہے جسے چوم کر ہوا میں نسیمؔ
اسے ہمیشہ حفاظت میں اے خدا رکھنا

Leave a Comment

اول اول کی دوستی ہے ابھی

اول اول کی دوستی ہے ابھی
اک غزل ہے کہ ہو رہی ہے ابھی

میں بھی شہر وفا میں نو وارد
وہ بھی رک رک کے چل رہی ہے ابھی

میں بھی ایسا کہاں کا زود شناس
وہ بھی لگتا ہے سوچتی ہے ابھی

دل کی وارفتگی ہے اپنی جگہ
پھر بھی کچھ احتیاط سی ہے ابھی

گرچہ پہلا سا اجتناب نہیں
پھر بھی کم کم سپردگی ہے ابھی

کیسا موسم ہے کچھ نہیں کھلتا
بوندا باندی بھی دھوپ بھی ہے ابھی

خود کلامی میں کب یہ نشہ تھا
جس طرح روبرو کوئی ہے ابھی

قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں
دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی

فصل گل میں بہار پہلا گلاب
کس کی زلفوں میں ٹانکتی ہے ابھی

مدتیں ہو گئیں فرازؔ مگر
وہ جو دیوانگی کہ تھی ہے ابھی

احمد فراز

Leave a Comment

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو

ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو

کیا جانے پھر ستم بھی میسر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو

اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو

میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو
میرے سوا کسی کی تمنا نہ کر سکو

کیوں چاہتا ہوں تم کو تبسّم یہ ہے وہ راز
چاہو بھی تم اگر، کبھی افشا نہ کر سکو

Leave a Comment

چپکے چپکے یہ مری گھات میں کون آتا ھے

چپکے چپکے یہ مری گھات میں کون آتا ھے
تم نہیں ہو تو،کہو رات میں کون آتا ھے

ہم نہ آئیں تو خرابات میں کون آتا ھے
اور پھر ایسی گھنی رات میں کون آتا ھے

یہ مری سادہ دلی ھے کہ مٹا ہُوں تجھ پر
اے ستم پیشہ تری بات میں کون آتا ھے

چشمِ دیدار طلب،جانچ،پرکھ،دیکھ،سمجھ
سامنے تیرے حجابات میں کون آتا ھے

کُنجِ وحشت میں کہاں پرسشِ احوال کی بات
دن میں آیا نہ کوئی رات میں کون آتا ھے

سانس کی سینے میں آمد ھے کہ اُن کی آہٹ
دیکھنا دل کے مضافات میں کون آتا ھے

مل گیا اُن کو نہ آنے کا یہ حیلہ آچھا
گھر سے باہر بھری برسات میں کون آتا ھے

کون مانے گا کہ جنت تری جاگیر ہُوی
چھوڑ واعظ تری اس بات میں کون آتا ھے

دل میں تُو،،ذہن میں تُو،فکر تری،ذکر ترا
جُز ترے اور خیالات میں کون آتا ھے

مٹ گیا نقشِ دوئی عکسِ تجلی سے نصیرؔ
اب نظر آہینہء ذات میں کون آتا ھے

پیر نصیر الدین نصیر

Leave a Comment

آپ جن کو، ہدف تیرِ نظر کرتے ہیں

آپ جن کو، ہدف تیرِ نظر کرتے ہیں
رات دن، ہائے جگر ، ہائے جگر کرتے ہیں

اور کیا ” داغ ” کے “اشعار ” اثر کرتے ہیں
گدگدی، دل میں حسینوں کےمگر کرتے ہیں

غیر کے سامنے یوں ہوتے ہیں، شکوے مجھ سے
دیکھتے ہیں وہ ادھر ، بات اُدھر کرتے ہیں

دیکھ کر دور سے، ” درباں ” نے مجھے للکارا
نہ کہا یہ، ٹھہر جاؤ ، خبر کرتے ہیں

تھک گئے، ” نامہ اعمال ” کو لکھتے لکھتے
کیا فرشتوں کا برا حال بشر کرتے ہیں

ابھی غیروں سے اشاروں میں ہوئی ہیں باتیں
دیکھتے دیکھتے آپ آنکھوں میں گھر کرتے ہیں

در و دیوار سے، بھی رشک مجھے آتا ھے
غور سے، جب کسی جانب وہ نظر کرتے ہیں

ان سے پوچھے جو کوئی خاک میں ملتے ہیں کہاں
وہ اشارہ، ” طرفِ راہ گزر کرتے ہیں

ایک تو نشہ مے ، اس پہ نشیلی آنکھیں
ہوش اڑتے ہیں ، جدھر کو وہ، نظر کرتے ہیں

عشق میں صبر و تحمل ” ہی کیا کرتے ہم
یہ بھی کم بخت کسی وقت ضرر کرتے ہیں

” غیر ” کے قتل پہ باندھیں یہ بہانہ ھے فقط
کھینچ کر اور بھی پتلی وہ کمر کرتے ہیں

داغ دھلوی

Leave a Comment

میں ھُوں رات کا ایک بجا ھے

میں ھُوں رات کا ایک بجا ھے
خالی رستہ بول رھا ھے

آج تو یوں خاموش ھے دُنیا
جیسے کچھ ھونے والا ھے

کیسی اندھیری رات ھے دیکھو
اپنے آپ سے ڈر لگتا ھے

آج تو شہر کی رَوش رَوش پر
پتوں کا میلہ سا لگا ھے

آو گھاس پہ سَبھا جمائیں
میخانہ تو بند پڑا ھے

پُھول تو سارے جھڑ گئے لیکن
تیری یاد کا زخم ھرا ھے

تُو نے جتنا پیار کیا تھا
دُکھ بھی مجھے اتنا ھی دیا ھے

یہ بھی ھے ایک طرح کی محبت
میں تُجھ سے تُو مُجھ سے جُدا ھے

یہ تیری منزل ، وہ میرا رستہ
تیرا میرا ساتھ ھی کیا ھے

میں نے تو اِک بات کہی تھی
کیا تُو سَچ مُچ رُوٹھ گیا ھے

ایسا گاھک کون ھے جِس نے
سُکھ دے کر دُکھ مول لیا ھے

تیرا رستہ تکتے تکتے
کھیت گگن کا سُوکھ چلا ھے

کِھڑکی کھول کے دیکھ تو باھر
دیر سے کوئی شخص کھڑا ھے

ساری بستی سو گئی ناصر
تُو اب تک کیوں جاگ رھا ھے

Leave a Comment

خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں

خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں
ملا تھا غم کو بھی اک غم گسار یعنی میں
محبتیں نہ لُٹاتا تو اور کیا کرتا
وفورِ شوق کا آئینہ دار یعنی میں
عظیم چاک پہ تھی انکسار کی مٹّی
بنا تھا کوزہ کوئی شاہکار یعنی میں
چمک رہا تھا موافق تری توجّہ کے
خلوص و مہر و وفا کا دیار یعنی میں
مرے خدا نہیں تھمتا یہ ظلم کا طوفان
اور اس کے سامنے مشتِ غبار یعنی میں
ہوئی تھی جب بھی ترے التفات کی بارش
لہک اُٹھا تھا ترا لالہ زار یعنی میں
زہے نصیب! حوادث میں بھی نہیں ٹوٹا
ترا غرور، ترا افتخار یعنی میں
ہے مستقل مرے سینے میں درد یعنی توٗ
نہ رہ سکا ترے دل میں قرار یعنی میں
ہر ایک بات مری کر رہا تھا رد راغبؔ
مرے سخن پہ تھا کوئی سوار یعنی میں
افتخار راغبؔ

Leave a Comment

مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے میرے آقا ﷺ کرنا

مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے میرے آقا ﷺ کرنا
حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضا کرنا

تو کسی کو بھی اُٹھاتا نہیں اپنےدَر سے
کہ تیری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا

میں کہ ذرہ ہوں مجھے وُسعتِ صحرا دے دے
کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا

یہ تیرا کام ہے اے آمِنہ کے دُرِّ یتیم
ساری اُمَّت کی شفاعت تنِ تنہا کرنا

میں ہُوں بے کس تیرا شَیوا ہے سہارا دینا
میں ہوں بیمار تیرا کام ہے اچھا کرنا

چاند کی طرح تیرے گِرد وہ تاروں کا ہجوم
وہ تیرا حلقہ ٕ اصحاب میں بیٹھا کرنا

اُن صحابہ کی پُر اطوار نِگاہوں کو سلام
جنکا مسلک تھا طوافِ رُخِ زَیبا کرنا

کوٸی فاوق سے پوچھے کہ کسے آتا ہے
دِل کی دُنیاکو نظر سے تہ و بالا کرنا

مجھ پہ محشر میں نصیر اُنکی نظر پڑ ہی گٸی
کہنے والے اِسے کہتے ہیں خُدا کا کرنا

پیر نصیرُ الدین نصیر

Leave a Comment

اُجڑے ہوۓ ہڑپہ کے آثار کی طرح

اُجڑے ہوۓ ہڑپہ کے آثار کی طرح
زندہ ہیں لوگ وقت کی رفتار کی طرح

کیا رہنا ایسے شہر میں مجبوریوں کے ساتھ
بِکتے ہیں لوگ شام کے اخبار کی طرح

بچوں کا رزق موت کے جھولے میں رکھ دیا
سرکس میں ُکودتے ہوۓ فنکار کی طرح

قاتل براجمان ہوئے منصف کے ساۓ میں
مقتول پھر رہا ھے عزادار کی طرح

وعدے ضرورتوں کی نظر کر دئیے گئے
رشتے ہیں سارے ریت کی دیوار کی طرح

حسن میرے وجود کو سنسار کرتے وقت
شامل تھا سارا شہر اِک تہوار کی طرح


محسن نقوی

Leave a Comment
%d bloggers like this: