Skip to content

Category: Uncategorized

یہ کیا کہ سب سے بیاں , دل کی حالتیں کرنی

یہ کیا کہ سب سے بیاں , دل کی حالتیں کرنی
فراز !! تجھ کو نہ آئیں , محبتیں کرنی

یہ قرب کیا ھے ، کہ تُو سامنے ھے اور ھمیں ؟؟
شمار ابھی سے جدائی کی ، ساعتیں کرنی

کوئی خدا ھو کے پتھر ، جسے بھی ھم چاھیں
تمام عمر اُسی کی عبادتیں کرنی

سب اپنے اپنے قرینے سے ھیں منتظر اُس کے
کسی کو شکر ، کسی کو شکائتیں کرنی

ھم اپنے دل سے ھیں مجبُور ، اور لوگوں کو
ذرا سی بات پہ برپا قیامتیں کرنی

ملیں جب اُن سے تو ، مبہم سی گفتگو کرنی
پھر اپنے آپ سے سو سو وضاحتیں کرنی

یہ لوگ کیسے مگر دشمنی نباھتے ھیں ؟؟
ھمیں تو راس نہ آئیں ، محبتیں کرنی

کبھی فراز ، نئے موسموں میں رو دینا
کبھی تلاش پرانی رفاقتیں کرنی

احمد فراز

Leave a Comment

جینے کے حق میں آخری تاویل دی گئی

جینے کے حق میں آخری تاویل دی گئی
کٹنے لگی پتنگ تو پھر ڈھیل دی گئی

ساری رگوں نے آپسیں گٹھ جوڑ کر لیا
مشکل سے دل کو خون کی ترسیل دی گئی

بے فیض سا جو زخم تھا وہ بھر دیا گیا
اک محترم سی چوٹ تھی وہ چھیل دی گئی

پہلے بکھیر دی گئی ترتیب عمر کی
پھر لمحہ لمحہ جوڑ کے تشکیل دی گئی

موقع ء واردات پہ الٹے تھے سب ثبوت
لوگوں کو حادثے کی جو تفصیل دی گئی

کومل خریدنے چلے تھے وصل کی خوشی
ہم کو دکھائی اور تھی ، تبدیل دی گئی

Leave a Comment

کھیل دونوں کا چلے تین کا دانہ نہ پڑے

کھیل دونوں کا چلے تین کا دانہ نہ پڑے
سیڑھیاں آتی رہیں سانپ کا خانہ نہ پڑے

دیکھ معمار پرندے بھی رہیں گھر بھی بنے
نقشہ ایسا ہو کوئی پیڑ گرانا نہ پڑے

اس تعلق سے نکلنے کا کوئی راستہ دے
اس پہاڑی پہ بھی بارود لگانا نہ پڑے

نم کی ترسیل سے آنکھوں کی حرارت کم ہو
سرد خانوں میں کوئی خواب پرانا نہ پڑے

ربط کی خیر ہے بس تیری انا بچ جائے
اس طرح جا کہ تجھے لوٹ کے آنا نہ پڑے

ہجر ایسا ہو کہ چہرے پہ نظر آ جائے
زخم ایسا ہو کہ دِکھ جائے دکھانا نہ پڑے

Leave a Comment

وحشت میں نکل آیا ہوں ادراک سے آگے

وحشت میں نکل آیا ہوں ادراک سے آگے
اب ڈھونڈ مُجھے مجمعِ عُشاق سے آگے

اک سُرخ سمندر میں ترا ذکر بہت ہے
اے شخص گُزر ! دیدۂ نمناک سے آگے

اُس پار سے آتا کوئی دیکھوں تو یہ پُوچھوں
افلاک سے پیچھے ہوں کہ افلاک سے آگے

دم توڑ نہ دے اب کہیں خواہش کی ہوا بھی
یہ خاک تو اُڑتی نہیں خاشاک سے آگے

جو نقش اُبھارے تھے مٹانے بھی ہیں اُسنے
در پیش پھر اک چاک ہےاس چاک سے آگے

ہم زاد کی صُورت ہے مرے یار کی صُورت
مَیں کیسے نکل سکتا ہوں چالاک سے آگ

Leave a Comment

کوئی بہلائے باتوں سے مگر یہ ڈرتا رہتا ہے

کوئی بہلائے باتوں سے مگر یہ ڈرتا رہتا ہے
دلِ برباد کی ہائے پریشانی نہیں جاتی

کسی بھی آشنا دستک پہ اب کھلتا نہیں ہے یہ
ترے جانے پہ دروازے کی حیرانی نہیں جاتی

قفس میں قید ہوتے ہیں کئی ارماں اڑانوں کے
رہا کر کے پرندے بھی پشیمانی نہیں جاتی

بدل جاتے ہیں سب چہرے سبھی اپنے پرایوں کے
حقیقی شکل بھی اب ہم سے پہچانی نہیں جاتی

بہت مجبور کرتا ہے ہمیں تیرے حوالے سے
کہ اب کچھ دل کے آگے عقل کی مانی نہیں جاتی

کسی آہٹ سے میرے خواب اور نیندیں گریزاں ہیں
تبھی تو میری آنکھوں کی یہ ویرانی نہیں جاتی

Leave a Comment

کہ کبھی زمیں سے گزر گئے کبھی آسماں سے گزر گئے

کہ کبھی زمیں سے گزر گئے کبھی آسماں سے گزر گئے
تجھے ڈھونڈتے ہوئے چند لوگ کہاں کہاں سے گزر گئے

جہاں رک گئے تھے ترے قدم ابھی ہم وہاں سے گزر گئے
یہ نشاں بتا رہے ہیں کہ لوگ یہاں یہاں سے گزر گئے

تجھے ان کی کوئی خبر بھی ہے تجھے ان کا کوئی پتہ بھی ہے
جو ترے نشان تک آتے آتے خود اپنی جاں سے گزر گئے

تھے جو روشنی کا سبب وہ سارے دیے ہوا نے بجھا دیے
کہ جو لوگ رونق بزم تھے وہی اس جہاں سے گزر گئے

تری عاشقی کی قسم یہی ترے عاشقوں کی حیات ہے
کبھی ہم فلک پہ ٹھہر گئے کبھی لامکاں سے گزر گئے

ہیں گلی گلی میں عداوتیں ہیں مگر نگر میں رقابتیں
وہی لوگ جو کہ عظیم تر تھے وہی جہاں گزر گئے

کبھی اپنا جلوہ دکھا ہمیں کبھی طور بن کے جلا ہمیں
تری دید کے لیے خطرہ ضررو زیاں سے گزر گئے

جسے ڈھونڈتے ہوئے ہم نے اپنی تمام عمر گزاردی
جو ملا ہمیں وہی آستاں تو اس آستاں سے گزر گئے

Leave a Comment

ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہوگا

ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہوگا
بس اتنی بات ہے جس کے لیے محشر بپا ہوگا

رہے دو دو فرشتے ساتھ اب انصاف کیا ہوگا
کسی نے کچھ لکھا ہوگا کسی نے کچھ لکھا ہوگا

بروزِ حشر حاکم قادرِ مطلق خدا ہوگا
فرشتوں کے لکھے اور شیخ کی باتوں سے کیا ہوگا

تری دنیا میں صبر و شکر سے ہم نے بسر کر لی
تری دنیا سے بڑھ کر بھی ترے دوزخ میں کیا ہوگا

سکونِ مستقل، دل بے تمنا، شیخ کی صحبت
یہ جنت ہے تو اس جنت سے دوزخ کیا برا ہوگا

مرے اشعار پر خاموش ہے جزبز نہیں ہوتا
یہ واعظ واعظوں میں کچھ حقیقت آشنا ہوگ

بھروسہ کس قدر ہے تجھ کو اخترؔ اس کی رحمت پر
اگر وہ شیخ صاحب کا خدا نکلا تو کیا ہوگا

Leave a Comment

ممکن ہو آپ سے تو بھلا دیجئے مجھے

ممکن ہو آپ سے تو بھلا دیجئے مجھے
پتھر پہ ہوں لکیر مٹا دیجئے مجھے

ہر روز مجھ سے تازہ شکایت ہے آپ کو
میں کیا ہوں، ایک بار بتا دیجئے مجھے

میرے سوا بھی ہے کوئی موضوعِ گفتگو
اپنا بھی کوئی رنگ دکھا دیجئے مجھے

میں کیا ہوں کس جگہ ہوں مجھے کچھ خبر نہیں
ہیں آپ کتنی دور صدا دیجئے مجھے

کی میں نے اپنے زخم کی تشہیر جا بجا
میں مانتا ہوں جرم سزا دیجئے مجھے

قائم تو ہو سکے کوئی رشتہ گہر کے ساتھ
گہرے سمندروں میں بہا دیجئے مجھے

شب بھر کرن کرن کو ترسنے سے فائدہ
ہے تیرگی تو آگ لگا دیجئے مجھے

جلتے دنوں میں خود پسِ دیوار بیٹھ کر
سائے کی جستجو میں لگا دیجئے مجھے

شہزادؔ یوں تو شعلۂ جاں سرد ہو چکا
لیکن سُلگ اٹھیں تو ہوا دیجئے مجھے

Leave a Comment

ہر شے کا آغاز محبت اور انجام محبت ہے

ہر شے کا آغاز محبت اور انجام محبت ہے
درد کے مارے لوگوں کا بس اک پیغام ، محبت ہے

یہ جو مجھ سے پوچھ رہے ہو، من مندر کی دیوی کون؟
میرے اچھے لوگو سن لو،اُس کا نام محبت ہے!

شدت کی لُو ہو یا سرد ہوائیں، اِس کو کیا پروا
کانٹوں کے بستر پر بھی محوِ آرام محبت ہے

بِن بولے اک دل سے دوجے دل تک بات پہنچتی ہے
جو ایسے روحوں پر اُترے، وہ الہام محبت ہے

پگلے! دامن بندھ جاتی ہے، جس کے بخت میں لکھی ہو
تم کتنا بھاگو گے، آگے ہر ہر گام محبت ہے

اب تو بس اک یاد سہارے وقت گزرتا رہتا ہے
اور اُس یاد میں ہراک صبح، ہر اک شام محبت ہے

ہم جیسے پاگل دیوانے، سود خسارہ کیا جانیں
نفرت کے اس شہر میں اپنا ایک ہی کام محبت ہے

اک لڑکی آدھے رستے میں ہار گئی اپنا جیون
وہ شاید یہ مان چکی تھی، بدفرجام محبت ہے

کچھ آلودہ روحوں والے، ہوس پجاری ہوتے ہیں
زین انہی لوگوں کے باعث ہی بدنام محبت ہے

تُو پگلی! اب کن سوچوں میں گم صم بیٹھی رہتی ہے
بولا ہے ناں اب یہ ساری تیرے نام محبت ہے

Leave a Comment

ﮨﻢ ﻓﻘﻴﺮﻭﮞ کی ﺳﺐ کے ﺗﺌﻴﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﮨﻢ ﻓﻘﻴﺮﻭﮞ کی ﺳﺐ کے ﺗﺌﻴﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ
ﻣﻌﺬﺭﺕ ! ﺑﺲ ﺩﻡِ ﻭﺍﭘﺴﻴﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﮨﻢ سفر ! ﭘﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﻠﺘﮯ ﻧﮩﻴﮟ
ﮨﻢ ﺳﻔﺮ ! ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﺮ لوں ﻳﮩﻴﮟ ،ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺟﺲ کی ﻗﻴﻤﺖ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺁﭖ ﺁﮰ ﮨﻴﮟ
ﻭﮦ ﮐﻮئی ﺍﻭﺭ ہے! ﻣﻴﮟ ﻧﮩﻴﮟ ! ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﮨﻢ ﺍﻧﺎ ﺯﺍﺩﻭﮞ کی ﺗﺮﺑﻴﺖ ﺍﻭﺭ ہے
ﮨﻢ ﺟﮭﮑﺎﺗﮯ ﻧﮩﻴﮟ ﮨﻴﮟ ﺟﺒﻴﮟ ،ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺟﯽ ﻣﻴﮟ ﺁﺗﺎ ھے ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭﮞ ﺍﻳﮏ ﺷﺐ
ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﻴﮟ ﻟﮑﮫ ﺩﻭﮞ ﮐﮩﻴﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﮨﻢ ﻧﮯ ﺭﮐﻨﺎ ﻧﮩﻴﮟ ﺭﮐﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮ ! ﻣﮕﺮ
ﻋﺎﻓﻴﺖ ! ﺗﮩﻨﻴﺖ ! ﺁﻓﺮﻳﮟ ! ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﻣﻴﮟ ﺗﺮﮮ ﺑﺎﺏ ﻣﻴﮟ کچھ ﻧﮩﻴﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺎ
ﻣﻌﺬﺭﺕ ! ﺍﮮ ﺩﻝِ ﺧﻮش ﻳﻘﻴﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﮨﻢ ﮐﮩﻴﮟ کے ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻧﮩﻴﮟ ﺭﮦ ﺳﮑﮯ
ﺍﮮ ﻓﻠﮏ ﺍﻋﺘﺰﺍﺭ ! ﺍﮮ ﺯﻣﻴﮟ ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﻃﺎﻟﺐِ ﺧﻮﺩ ﻓﺮﻭﺷﯽ کے ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﻴﮟ
ﻣﻴﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﻟﮑﮫ ﺩﻭ ،ﻧﮩﻴﮟ ! ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺩﻋﻮﺗﻴﮟ ﺩﻭ ﮨﻴﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﻳﮏ ہے
ﺍﮨﻞِ ﺩﻝ ﺷﮑﺮﻳﮧ ! ﺍﮨﻞِ ﺩﻳﮟ ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺍﻓﺘﺨﺎﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﺲ ﺍﮎ ﺩﻋﺎﮰ ﺍﺑﺪ
ﺍﻓﺘﺨﺎﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﮎ ﺁﺧﺮﻳﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

Leave a Comment
%d bloggers like this: