Skip to content

میں ہوش میں نہیں رہا تھا اور بٙک گیا

میں ہوش میں نہیں رہا تھا اور بٙک گیا
تُجھ کو تو پورا ہوش تھا تُو کیوں بہک گیا
سانسوں میں ساری رات ہی خوشبو بھری رہی
کس کا خیال آیا کہ کمرہ مہک گیا
یہ بھی تو اِک طرح سے ہے توہین عشق کی
اُجڑا تو ایک مرتبہ تُجھ پر بھی شک گیا
اِس شہر میں تو کوئی مجھے جانتا نہیں
یہ پھول کون کیوں مری کھڑکی میں رکھ گیا
وہ کر رہا تھا فون پہ لہجہ بدل کے بات
پھر ایک دم سے ضبط کا دریا چھلک گیا
پچھلی محبتوں پہ بہت دیر تک ہنسا
میں اپنے ساتھ آج بڑی دُور تک گیا
وہ جس کو بھول بھال کے دُنیا کے ہو گئے
دیکھا اُسےتو آج بھی یہ دل دھڑک گیا
تُو نے تو مُڑ کے دفعتاً دیکھا تھا اِک نظر
پھر اُس کے بعد ہر کوئی رستہ بھٹک گیا
بستر سمیٹ لو پری زُلفوں کو باندھ لو
سورج طلوعِ صبح کی کوشش میں تھک گیا
میثم علی آغا

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: