Skip to content

Category: Sufi Poetry

Sufi Poetry

نقطۂ نوری کہ نام او خودی است

نقطۂ نوری کہ نام او خودی است
زیر خاک ما شرار زندگی است

از محبت می شود پایندہ تر
زندہ تر سوزندہ تر تابندہ تر

از محبت اشتعال جوہرش
ارتقای ممکنات مضمرش

فطرت او آتش اندوزد ز عشق
عالم افروزی بیاموزد ز عشق

عشق را از تیغ و خنجر باک نیست
اصل عشق از آب و باد و خاک نیست

در جہان ہم صلح و ہم پیکار عشق
آب حیوان تیغ جوہر دار عشق

از نگاہ عشق خارا شق شود
عشق حق آخر سراپا حق شود

عاشقی آموز و محبوبی طلب
چشم نوحی قلب ایوبی طلب

کیمیا پیدا کن از مشت گلی
بوسہ زن بر آستان کاملی

شمع خود را ہمچو رومی بر فروز
روم را در آتش تبریز سوز

Leave a Comment

ہے خرد مندی یہی باہوش دیوانہ رہے

ہے خرد مندی یہی باہوش دیوانہ رہے
ہے وہی اپنا کہ جو اپنے سے بیگانہ رہے

کفر سے یہ التجائیں کر رہا ہوں بار بار
جاؤں تو کعبہ مگر رخ سوئے مے خانہ رہے

شمع سوزاں کچھ خبر بھی ہے تجھے او مست غم
حسن محفل ہے جبھی جب تک کہ پروانہ رہے

زخم دل اے زخم دل ناسور کیوں بنتا نہیں
لطف تو جب ہے کہ افسانے میں افسانہ رہے

ہم کو واعظ کا بھی دل رکھنا ہے ساقی کا بھی دل
ہم تو توبہ کر کے بھی پابند میخانہ رہے

آخرش کب تک رہیں گی حسن کی نادانیاں
حسن سے پوچھو کہ کب تک عشق دیوانہ رہے

فیض راہ عشق ہے یا فیض جذب عشق ہے
ہم تو منزل پا کے بھی منزل سے بیگانہ رہے

مے کدہ میں ہم دعائیں کر رہے ہیں بار بار
اس طرف بھی چشم مست پیر میخانہ رہے

آج تو ساقی سے یہ بہزادؔ نے باندھا ہے عہد
لب پہ توبہ ہو مگر ہاتھوں میں پیمانہ رہے

Leave a Comment

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
 مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

 ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
 کوئی بات صبرآزما چاہتا ہوں

 یہ جنّت مبارک رہے زاہدوں کو
 کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

 ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
 وہی لن ترانی سُنا چاہتا ہوں

 کوئی دَم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
 چراغِ سحَر ہوں، بُجھا چاہتا ہوں

 بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
 بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں

Leave a Comment

جو مُجھ میں بولتا ہے میں نہیں ہوں

جو مُجھ میں بولتا ہے میں نہیں ہوں
یہ جلوہ یار کا ہے میں نہیں ہوں

کہا منصورؒ نے سُولی پہ چڑھ کر
انالحق کی صدا ہے میں نہیں ہوں

عبا پہنے ہوئے مٹی کی مورت
کوئی بہروپیا ہے میں نہیں ہوں

میرے پردے میں آ کر اور کوئی
تماشہ کر رہا ہے میں نہیں ہوں

جو میں ہوتا خطا مُجھ سے بھی ہوتی
مُجھے ڈر کاہے کا ہے میں نہیں ہوں

جو بولے میخانے میں جا کے بیدمؔ
وہاں نقشہ ہے میرا میں نہیں ہوں

حضرت بیدم شاہ وارثیؒ

Leave a Comment

اس سے پہلے کہ یہ دنیا مجھے رسوا کر دے

اس سے پہلے کہ یہ دنیا مجھے رسوا کر دے
تو مرے جسم مری روح کو اچھا کر دے

کس قدر ٹُوٹ رہی ہے مری وحدت مجھ میں
اے مرے وحدتوں والے مجھے یکجا کر دے

یہ جو حالت ہے مری میں نے بنائی ہے مگر
جیسا تو چاہتا ہے اب مجھے ویسا کر دے

میرے ہر فیصلے میں تیری رضا شامل ہو
جو ترا حکم ہو وہ میرا ارادہ کر دے

مجھ کو ہر سمت اندھیرا ہی نظر آتا ہے
کور بینی کو مری دیدۂ بینا کر دے

مجھ کو وہ علم سکھا جس سے اُجالے پھیلیں
مجھ کو وہ اسم پڑھا جو مجھے زندہ کر دے

میرے لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال
میرے بچوں کو مہ و مہر و ستارا کر دے

ضائع ہونے سے بچا لے مرے معبود مجھے
یہ نہ ہو وقت مجھے کھیل تماشا کر دے

میں مسافر ہوں، سو رستے مجھے راس آتے ہیں
میری منزل کو مرے واسطے رستہ کر دے

میری آواز تری حمد سے لبریز رہے
بزمِ کونین میں جاری مرا نغمہ کر دے

(سلیم کوثر)

Leave a Comment

اے رَبِ جہاں، پنجتن پاک کے خالق

اے رَبِ جہاں، پنجتن پاک کے خالق
اِس قوم کا دامن غمِ شبیر سے بھر دے

بچوں کو عطا کر علی اصغرؑ کا تبسم
بوڑھوں کو حبیب ابنِ مظاہر کی نظر دے

کم سِن کو ملے ولولہ عونؑ و محمدؑ
ہر ایک جواں کو علی اکبر کا جگر دے

ماؤں کو سِکھا ثانیءِ زہراؑ کا سلیقہ
بہنوں کو سکینہؑ کی دعاؤں کا اثر دے

یارَب تجھے بیماری عابدؑ کی قسم ہے
بیمار کی راتوں کو شفایاب سحَر دے

مُفلس پہ زَرومال و جواہر کی ہو بارش
مقروض کا ہر قرض ادا غیب سے کر دے

پابندِ رَسن زینبؑ و کلثومؑ کا صدقہ
بے جُرم اسیروں کو رہائی کی خبر دے

جو مائیں بھی رُوتی ہیں بیادِ علی اصغرؑ
اُن ماؤں کی آغوش کو اولاد سے بھر دے

جو حق کے طرافدار ہوں وہ ہاتھ عطا کر
جو مجلسِ شبیرؑ کی خاطر ہو وہ گھر دے

قسمت کو فقط خاکِ شفا بخش دے مولاؑ
مَیں یہ نہیں کہتا کہ مجھے لعل و گُہر دے

آنکھوں کو دِکھا روضہءِ مظلوم کا منظر
قدموں کو نجف تک بھی کبھی اِذنِ سفر دے

جو چادرِ زینبؑ کی عزادار ہیں مولا
محفوظ رہیں ایسی خواتین کے پردے

غم کوئی نہ دے ہم کو سِوائے غمِ شبیرؑ
شبیرؑ کا غم بانٹ رہا ہے تو اِدھر دے

کب تک رہوں دُنیا میں یتیموں کی طرح
وارث مِرا پردے میں ہے، ظاہر اُسے کر دے

منظور ہے خوابوں میں ہی آقا کی زیارت
پرواز کی خواہش ہے نہ جبریل کے”پَر” دے

جس دَر کے سوالی ہیں فرشتے بھی بشر بھی
آوارہء منزل ہوں مجھے بھی وہی دَر دے

جو دین کے کام آئے وہ اَولاد عطا کر
جو کَٹ کے بھی اُونچا ہی نظر آئے وہ سَر دے

خیراتِ دَرِ شاہِؑ نجف چاہیے مجھ کو
سَلمان و ابوذر کی طرح کوئی ہنر دے

صحراؤں میں عابدؑ کی مُسافت کے صِلے میں
بھٹکے ہوئے رَہرو کو ثمردار شجر دے

سَر پر ہو سدا پرچمِ عباسؑ کا سایہ
محسن کی دُعا ختم ہے اَب اِس کا اثر دے

Leave a Comment

توری دید كو موری اكهیاں ترسیں

توری دید كو موری اكهیاں ترسیں
تورے هجر میں یہ چهم چهم برسیں

دو نین سے مورے بهج نہ سكے
مورا تن من دهن آج پیاسا هے
تورے اك درشن كی آس لئے
مورا لوں لوں بنا كاسہ هے

تورے عشق میں اپنی جاں واروں
اك جاں بهی موهے كم لاگے
جی چاهے كہ سارا جہاں واروں
سب جہاں بهی موهے كم لاگے
كجھ سمجھ نہ آوے میں كیا واروں

هر شے تورے حُسن سے كم لاگے
تورا حُسن بیاں میں كیسے كروں
هر بیاں توری شان سے كم لاگے

سِراج كہوں یا منیر كہوں
نزیر كہوں كے كہ بشیر كہوں
توری زُلف كا سب كو اسیر كہوں
تورے حُسن كو حسُنِ كبیر كہوں

یہ چمك دهمك سب توری جهلك
گُل پاوت هے توری هی مہك
تورے اشكوں سے بهیگی جو پلك
چهم چهم برسے ست رنگی دهنك

ولیل زلفوں كی كالی گهٹا
اس كالی گهٹا كا پرده اُٹها
موهے چن بدر سوهنا مُكھ تو دكها
جس مُكھ پہ هے كُل جہاں فدا
مورے سپنے میں هی آ جاؤ
موهے اپنا جلوه دِكها جاؤ

تورے عشق میں جو مجنوں كر دے
موهے ایسا جام پِلا جاؤ

Leave a Comment

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے
جو ربِ دوعالم کا محبوب یگانہ ہے

کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے
زہرہ کا وہ بابا ہے ، سبطین کا نانا ہے

اس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں
جو حسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے

عزت سے نہ مر جائیں کیوں نام محمد پر
ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے

آؤ درِ زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن
ہے نسل کریموں کی، لجپال گھرانا ہے

ہوں شاہِ مدینہ کی میں پشت پناہی میں
کیا اس کی مجھے پروا دشمن جو زمانہ ہے

یہ کہہ کر درِ حق سے لی موت میں کچھ مُہلت
میلاد کی آمد ہے، محفل کو سجانا ہے

قربان اُس آقا پر کل حشر کے دن جس نے
اِس امت آسی کو کملی میں چھپانا ہے

سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو کیا حیرت
بخشش کی روایت میں توبہ تو بہانہ ہے

پُر نور سی راہیں بھی گنبد پہ نگاہیں بھی
جلوے بھی انوکھے ہیں منظر بھی سہانا ہے

ہم کیوں نہ کہیں اُن سے رودادِ الم اپنی
جب اُن کا کہا خود بھی اللہ نے مانا ہے

محرومِ کرم اس کو رکھئے نہ سرِ محشر
جیسا ہے “نصیر” آخر سائل تو پرانا ہے

Leave a Comment

میں نعرۂ مستانہ

میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا

میں طائرِ لاہُوتی، میں جوہرِ ملکُوتی
ناسُوتی نے کب مُجھ کو، اس حال میں پہچانا

میں سوزِ محبت ہوں، میں ایک قیامت ہوں
میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ

کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں
خُود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ

میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ

میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں
میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ

میں واصفِؔ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اِک ٹُوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ

واصف علی واصفؔ

Leave a Comment

یہ شرک ہے تصّورِ حسن وجمال میں

یہ شرک ہے تصّورِ حسن وجمال میں
ہم کیوں ہیں تم اگر ہو ہمارے خیال میں

جب سے مرا خیال تری جلوہ گاہ ہے
آتا نہیں ہوں آپ بھی اپنے خیال میں

اٹھّا ترا حجاب نہ میرے اٹھے بغیر
میں آپ کھوگیا ترے ذوقِ وصال میں

بیداریِ حیات تھی ایک خوابِ بیخودی
نیند آگئی مجھے تری بزمِ جمال میں

اب ہر ادائے عشق میں اندازِ حسن ہے
اب میں ہی میں ہوں آپ کی بزمِ جمال میں

چھائے ہوئے ہیں حسن کے جلوے جہان پر
تم ہو خیال میں ، کہ نہیں کچھ خیال میں

ہاں اے خدا ئے حسن دعائے جنوں قبول
میں تجھ سے مانگتاہوں تجھی کو سوال میں

حد ہوگئی فریبِ تصور کی اے ذہین
میں خود کو پیش کرتا ہوں اس کی مثال میں

حضرت بابا ذہین شاہ تاجی

Leave a Comment
%d bloggers like this: