Skip to content

Category: Sufi Poetry

Sufi Poetry

میں مست الست کا بھید ہوں میں مستوں میں نروان

میں مست الست کا بھید ہوں میں مستوں میں نروان
میں پہلا نقطہ ب کا ہوں میں الف کا ہوں استھان
۔
میرے رخ پر گونگھٹ میم کا میں آپ ہوں جیم جمال
میرا ماتھا فقر کا جھومر ہے میں ولیوں کا پردھان
۔
میرے من میں شور حقیقت کا میرے لب پر چپ کی سکھ
میرے جسم کے ٹکڑے ٹوٹ کے کریں ہُو ہُو کی گردان
۔
لے جکڑ یہ گردش دہر کی۔۔۔۔۔۔ لے پکڑ سمے کی چھاپ
میرے سامنے وجد میں رقص ہے اور رقص میں ہے وجدان
۔
میرے اندر ساگر پریم کے میرے اندر ہاڑ اُہاڑ
میرے اندر عشق کی آگ ہے میرے اندر دیپک تان
۔
میں ناچوں تا تھک تھیا میں گائوں میگھ ملہار
میرے گھنگھرو کرتے چھن چھن نئی ہستی کا نرمان
۔
میرے بِھیت بسے پرماتما میرے بھیتر گوتم بدھ
مجھے سجدہ کرنے آتے ہیں کئی مندر کئی بھگوان
۔
میری بات نہ میری بات ہے میری بات ماہی کی بات
میرے شعر حدیثیں یار کی میرے لفظ ہیں پاک قرآن
۔
مجھے کون ڈرائے دار سے میرا کلمہ نعرہء حیدری
میں عشق اویس ہوں قرن کا میں میثم کا اعلان
۔
میں نعرہ ہوں منصور کا میں بلھے شاہ کا رقص
میرا نغمہ نحنُ اقرب ہے میری کون کرے پہچان
۔
میرا در ہے کعبہ عشق کا میرے فیض سے پاپ دھلیں
میں نظر کرم ہوں پیر کی میں گنگا کا اشنان
۔
میں کوئی شرک شریک نہیں میں وحدت کا ہوں بھید
میں اس کے نور کا مظہر ہوں میں آدم، میں انسان
۔
اس جا پر میں ہوں، میں نہیں، اس جا پر میں ہوں تم
میں دیکھ کے شیشہ حال کا خود ہو گیا ہوں حیران
۔
یہاں کوئی نہ الف، امیر ہے میرا ایک ہے نام نجیب
میں آپ قلندر، غوث ہوں میں آپ سخی سلطان

1 Comment

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا
سکُوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا

گزر گیا اب وہ دَور ساقی کہ چھُپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے‌خانہ ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

کبھی جو آوارۂ جُنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہو گا

سُنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر اُستوار ہو گا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سُنا ہے یہ قُدسیوں سے مَیں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

کِیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیرِ میخانہ سُن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے، خوار ہو گا

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا

سفینۂ برگِ گُل بنا لے گا قافلہ مُورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا

چمن میں لالہ دِکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دِکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا

جو ایک تھا اے نگاہ تُو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا

کہا جو قُمری سے مَیں نے اک دن، یہاں کے آزاد پا بہ گِل ہیں
تو غُنچے کہنے لگے، ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھِرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

یہ رسمِ بزمِ فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبشِ نظر بھی
رہے گی کیا آبرُو ہماری جو تُو یہاں بے قرار ہو گا

میں ظُلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدّعا تیری زندگی کا
تو اک نفَس میں جہاں سے مِٹنا تجھے مثالِ شرار ہو گا

نہ پُوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اُس کی
کہیں سرِ رہ گزار بیٹھا ستم کشِ انتظار ہو گا

Leave a Comment

کالی مٹی نُور دے قصے

کالی مٹی نُور دے قصے
رب نال یاری ھُور دے قصے

سُن کے مریا دُکھ نال پُکھا
من و سلوی طُور دے قصے

رج کے روٹی دے تُو ربا
جنت تیری دُور دے قصے

ڈاھڈے ونڈ لیندے نے حصے
رہ جاندے نیں مجبور دے قصے

کوٹھی اندر سُکھ دی بولی
ویہڑے وچ مزدور دے قصے

Leave a Comment

تسبیح دے اِک اِک دانے تے

تسبیح دے اِک اِک دانے تے
تُوں یار دا وِرد پکؤندا رو
او رُسیاء آپّے مَن جائے گا
تُوں اپنا فرض نِبہوندا رو

تُوں دِل دے شیشے وِچ رکھ لے
تصویراں اپنے یار دیاں
تُوں مار کے چاتی اپنے وِچ
نِت یار دا درشن پاؤندا رو

چھڈ چُھوٹے وِرد وظیفے نُوں
اودے عِشق دا قاعدہ پڑھیا کر
جگ پانویں کافر کیندا رئے
تُوں ایہو سبق پکؤندا رو

او بولے پانویں نہ بولے
اے مرضی اودے دِل دی اے
سِر رکھ کے یار دے قدماں تے
تُوں سجناں سِیس نوؤندا رو

جئے بندیا تُوں کُج کھٹنا اے
بس اِک دا ہو جا چُپ کر کے
تُوں لگ کے آکھے لوکاں دے
ناں ایویں وقت گواؤندا رو

جئے تک لیا سوھنے اِک واری
تینوں منزل مِل جائے گی
تُوں اَتھرو اودیاں یاداں دے
نِت اکھیاں وِچ سجؤندا رو

Leave a Comment

بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​

بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​
آ دِل میں تُجھے رکھ لُوں اے جلوہ جَانَانَہ​

کِیوں آنکھ مِلائی تِھی کیوں آگ لگائی تِھی​
اب رُخ کو چُھپا بیٹھے کر کے مُجھے دِیوانہ​

اِتنا تو کرم کرنا اے چِشمِ کریمانہ​
جب جان لبوں پر ہو تُم سامنے آ جانا​

اب موت کی سختِی تو برداشت نہیں ہوتِی​
تُم سامنے آ بیٹھو دم نِکلے گا آسانہ​

دُنیا میں مُجھے اپنا جو تُم نے بنایا ہے​
محشر میں بِھِی کہہ دینا یہ ہے مرا دیوانہ​

جاناں تُجھے مِلنے کی تدبِیر یہ سوچِی ہے​
ہم دِل میں بنا لیں گے چھوٹا سا صنم خانہ​

میں ہوش حواس اپنے اِس بات پہ کھو بیٹھا​
تُو نے جو کہا ہنس کے یہ ہے میرا دیوانہ​

پینے کو تو پِی لُوں گا پر عَرض ذرا سی ہے​
اجمیر کا ساقِی ہو بغداد کا میخانہ​

کیا لُطف ہو محشر میں شِکوے میں کیے جاوں​
وہ ہنس کے یہ فرمائیں دیوانہ ہے دیوانہ​

جِی چاہتا ہے تحفے میں بھِیجُوں اُنہیں آنکھیں​
درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانَہ​

بیدمؔ میری قِسمت میں سجدے ہیں اُسِی دّر کے​
چُھوٹا ہے نہ چُھوٹے گا سنگِ درِّ جَانَانَہ

Leave a Comment

پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن

پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن

پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے ، نیلے نیلے ، پیلے پیلے پیرہن

برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن

حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن

من کی دنیا ! من کی دنیا سوز و مستی ، جذب و شوق
تن کی دنیا! تن کی دنیا سود و سودا ، مکروفن

من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے ، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن

من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے ، نہ من تیرا نہ تن

Leave a Comment

یُوں جمالِ روئے جاناں شمعِ خلوت خانہ تھا

یُوں جمالِ روئے جاناں شمعِ خلوت خانہ تھا
دل ہمارا غرقِ آتش صورتِ پروانہ تھا

اک جمالِ بے تکیُف جلوہء جانانہ تھا
آنکھ جس جانب اٹھی ، ہر ذرّہ حیرت خانہ تھا

سوز سے خالی جگر تھا،غم سے دل بیگانہ تھا
عشق میں ہم نے وہ دیکھا جو کبھی دیکھا نہ تھا

جب حقیقت سے اٹھا پردہ تو یہ عُقدہ کُھلا
خواب تھا، وہمِ دوئی زخمِ خودی ،افسانہ تھا

وصل میں گنجائشِ اغیار اِتنی بھی نہ تھی
چشم و گوش و ہوش ہر اپنا وہاں بیگانہ تھا

لے کے ہم سے دین و دل ،عقل و خِرد بولا کوئی
یہ تو راہ و رسمِ اُلفت کا فقط بیعانا تھا

خانہء لیلیٰ میں تھے جنّت کے اسبابِ نِشاط
قیس کے حصّے میں تاحدِ نظر ویرانہ تھا

زندگی کے ہمسفر تھے نزع میں بھی دل کے پاس
بے کسی تھی ، یاس تھی ،ارمان تھے ، کیا کیا نہ تھا

وہ بھی کیا دن تھے کہ پیرِ میکدہ کے عِشق میں
یہ جبینِ شوق تھی، سنگِ درِ میخانہ تھا

فیصلہ دیتے ہوئے وہ بڑھ گئے حد سے نصؔیر
میں سزاوارِ سزا تو تھا ، مگر اتنا نہ تھا

پیر سید نصیر الدین نصیر

Leave a Comment

عشق میں صبر کارگر نہ ہوا

عشق میں صبر کارگر نہ ہوا
آہ کی ، آہ میں اثر نہ ہُوا

نخلِ اُمّید باروٙر نہ ہوا
جو نہ ہونا تھا، عمر بھر نہ ہُوا

اِتنا آساں نہیں کسی پہ کرم
آپ شرمائیں گے، اگر نہ ہُوا

ہم ہوئے لاکھ سب سے بیگانے
وہ نہ اپنا ہوا، مگر نہ ہُوا

جس طرف انتظار میں ہم تھے
اُس طرف آپ کا گزر نہ ہُوا

غیر گھر کر گیا تیرے دل میں
اک میرا تیرے دل میں گھر نہ ہُوا

ہم وفا کر کے بےوفا ٹھہرے
کوئی الزام تیرے سٙر نہ ہُوا

میرے حالات سے نصیرؔ اب تک
باخبر، حُسنِ بے خبر نہ ہُوا

پِیر نصیر الدّین نصیرؔ

Leave a Comment

خالقِ حرف و صدا ہے تیری ذات

خالقِ حرف و صدا ہے تیری ذات
مرکزِ حمد و ثنا ہے تیری ذات

ساری دنیا کا ہے پالن ہار تُو
محورِ ارض و سما ہے تیری ذات

تیرے ہی رحم و کرم کی آس ہے
مالکِ یومِ جزا ہے تیری ذات

ہاتھ پھیلائے کوئی کس کے حضور
رب ہے تُو حاجت روا ہے تیری ذات

تُو ہی واقف ہے دلوں کے حال سے
منبعِ نورِ ہدیٰ ہے تیری ذات

ہے اگر کچھ تو ہے بس تیری عطا
کچھ نہیں تو آسرا ہے تیری ذات

کار سازی تیری ہر ذرّے میں ہے
ہر جگہ جلوہ نما ہے تیری ذات

مشکلیں راغبؔ کی بھی آسان کر
اے خدا! مشکل کشا ہے تیری ذات

Leave a Comment

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر

احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز و تب و تاب اول سوز و تب و تاب آخر

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر

مے خانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر

کیا دبدبۂ نادر کیا شوکت تیموری
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق مے ناب آخر

خلوت کی گھڑی گزری جلوت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر

تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر

علامہ اقبال

Leave a Comment
%d bloggers like this: