Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

زہر آلود ہے ہر سانس، نہیں لے سکتے

زہر آلود ہے ہر سانس، نہیں لے سکتے
مر چکے ہیں یہ شجر، سانس نہیں لے سکتے

نیند کی گولیاں لے لیتے ہیں ورنہ ہم لوگ
رات کے پچھلے پہر سانس نہیں لے سکتے

اِتنی وسعت میں گھٹن، ِاس کو خلا کہتے ہیں
کہ کھلا گھر ہے مگر سانس نہیں لے سکتے

کیسے لے لیں ترا احسان کسی ڈر کے بغیر؟
ہم تو بے خوف و خطرسانس نہیں لے سکتے

تنگ بازار میں فہرست لیے سوچتے ہیں
اور کیا لیں گے اگر سانس نہیں لے سکتے؟

دل وہ گھر ہے کہ جو خالی ہے، ہوادار نہیں
آپ رہ سکتے ہیں پر سانس نہیں لے سکتے

بس اسی ڈر سے کہ دھندلائے نہ وہ آئنہ رُخ
جب تک اُس پر ہو نظر، سانس نہیں لے سکتے

ٹھوڑی، خنجر کی طرح چبھتی ہے سینے میں، عمیر
اس قدر خم ہے کمر، سانس نہیں لے سکتے

عمیر نجمی

Leave a Comment

کچھ اس طرح سے کسی نے کہا خدا حافظ

کچھ اس طرح سے کسی نے کہا خدا حافظ
کہ جیسے بول رہا ھو خدا، خدا حافظ

میں ایک بار پریشان ھوا تھا اپنے لیے
جب اس نے روتے ہوئے بولا تھا خدا حافظ

تُو جس کہ پاس بھی جا، جا تجھے اجازت ھے
تجھے خدا کے حوالے کیا خدا حافظ

مجھے تو کیسے خدا کہ سپرد کر رھا ھے
میں تیرے زمہ ھوں تُو کہہ رھا خدا حافظ؟؟

میں دھاڑیں مار کہ رویا کسی کی یاد آئی
جہاں کہیں بھی سنا یا پڑھا خدا حافظ

پھر ایک روز مقدر سے ھار مانی گئی
جبیں چوم کر بولا گیا خدا حافظ

میں اُس سے مل کر اسے دُکھ سنانے والا تھا
سلام کرتے ھی جس نے کہا خدا حافظ

افکار علوی

Leave a Comment

محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا

محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا
بہت آساں نہیں ہوتا جدائی مانگتے رہنا

ذرا سا عشق کر لینا،ذرا سی آنکھ بھر لینا
عوض اِس کے مگر ساری خدائی مانگتے رہنا

کبھی محروم ہونٹوں پر دعا کا حرف رکھ دینا
کبھی وحشت میں اس کی نا رسائی مانگتے رہنا

وفاؤں کے تسلسل سے محبت روٹھ جاتی ہے
کہانی میں ذرا سی بے وفائی مانگتے رہنا

عجب ہے وحشت ِ جاں بھی کہ عادت ہو گئی دل کی
سکوتِ شام ِ غم سے ہم نوائی مانگتے رہنا

کبھی بچے کا ننھے ہاتھ پر تتلی کے پر رکھنا
کبھی پھر اُس کے رنگوں سے رہائی مانگتے رہنا

نوشی گیلانی

Leave a Comment

گرد ہے چاروں طرف

گرد ہے چاروں طرف ، قافلہ کوئی نہیں
فاصلوں کا شہر ہے ، راستہ کوئی نہیں

ہر مکیں ہے اجنبی ، ہر نظر نا آشنا
ہم سفر ہیں ہر قدم ، ہم نوا کوئی نہیں

دوست جس نے کہہ دیا ، کر لیا ہم نے یقیں
کیا کسی کے دل میں ہے ، جانتا کوئی نہیں

درد سب کا ایک ہے ، دوریاں, تنہائیاں
سائے اپنے سے یہاں ، واسطہ کوئی نہیں

اپنا اپنا ہے مرض ، اپنے اپنے گھاؤ ہیں
آپ کہئے شوق سے, سن رہا کوئی نہیں

سوچئے کیا لوگ ہیں ، کیا تعلق ہیں یہ اب
ہے مسلسل گفتگو ، رابطہ کوئی نہیں

مار دیتے جیتے جی ، چھوڑتے کچھ بھی نہیں
پھر بھی اپنوں سا حسیں عارضہ کوئی نہیں

ہر کوئی خود میں مگن ہر کوئی خود پر فدا
اپنے اپنے طور ہیں ضابطہ کوئی نہیں

اک تجسس رہ گیا ، بیچ میں رشتہ فقط
لاکھ دیواریں مگر ، تخلیہ کوئی نہیں

جانے میرے دور سے ، کیا ہوا ہے سانحہ
پیرہن تن پر نہیں ، برہنہ کوئی نہیں

ہے لگی کیسی نظر ، سوچئے اس شہر کو
ہر کوئی ہے سوگ میں ، حادثہ کوئی نہیں

لاکھ کچھ کر لیجئے ، بس میں لیکن کچھ نہیں
وقت جیسا آخری ، قہقہہ کوئی نہیں

آپ بھی ابرک ہوئے ، شہر جیسے اب مرے
آپ کو بھی زعم ہے ، آپ سا کوئی نہیں

اتباف ابرک

Leave a Comment

خیال جس کا تھا مجھے ،خیال میں ملا مجھے

خیال جس کا تھا مجھے ،خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی ،سوال میں ملا مجھے

گیا تو اِس طرح گیا کہ مُدتوں نہیں مِلا
مِلا جو پھر تو یُوں کہ وُہ ملال میں ملا مجھے

تمام علم زیست کا گزشتگاں سے ہی ہوا
عمل گزشتہ دور کا ، مثال میں ملا مجھے

ہر ایک سخت وقت کے بعد اور وقت ہے
نشاں کمال فکر کا ، زوال میں ملا مجھے

نہال سبز رنگ میں جمال جس کا ہے منیرؔ
کسی قدیم خواب کے محال میں ملا مجھے

منیر نیازی

Leave a Comment

یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے

یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موج صبا ہو جیسے

لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
تو مجھے بھول گیا ہو جیسے

عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا
یوں نہ مل ہم سے خدا ہو جیسے

موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ
مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے

ایسے انجان بنے بیٹھے ہو
تم کو کچھ بھی نہ پتا ہو جیسے

ہچکیاں رات کو آتی ہی رہیں
تو نے پھر یاد کیا ہو جیسے

زندگی بیت رہی ہے دانشؔ
ایک بے جرم سزا ہو جیسے

احسان دانش

Leave a Comment

لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا

لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا
ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا

اپنے دل کو بھی بتاؤں نہ ٹھکانا تیرا
سب نے جانا جو پتا ایک نے جانا تیرا

تو جو اے زلف پریشان رہا کرتی ہے
کس کے اجڑے ہوئے دل میں ہے ٹھکانا تیرا

آرزو ہی نہ رہی صبح وطن کی مجھ کو
شام غربت ہے عجب وقت سہانا تیرا

یہ سمجھ کر تجھے اے موت لگا رکھا ہے
کام آتا ہے برے وقت میں آنا تیرا

اے دل شیفتہ میں آگ لگانے والے
رنگ لایا ہے یہ لاکھے کا جمانا تیرا

تو خدا تو نہیں اے ناصح ناداں میرا
کیا خطا کی جو کہا میں نے نہ مانا تیرا

رنج کیا وصل عدو کا جو تعلق ہی نہیں
مجھ کو واللہ ہنساتا ہے رلانا تیرا

کعبہ و دیر میں یا چشم و دل عاشق میں
انہیں دو چار گھروں میں ہے ٹھکانا تیرا

ترک عادت سے مجھے نیند نہیں آنے کی
کہیں نیچا نہ ہو اے گور سرہانا تیرا

میں جو کہتا ہوں اٹھائے ہیں بہت رنج فراق
وہ یہ کہتے ہیں بڑا دل ہے توانا تیرا

بزم دشمن سے تجھے کون اٹھا سکتا ہے
اک قیامت کا اٹھانا ہے اٹھانا تیرا

اپنی آنکھوں میں ابھی کوند گئی بجلی سی
ہم نہ سمجھے کہ یہ آنا ہے کہ جانا تیرا

یوں تو کیا آئے گا تو فرط نزاکت سے یہاں
سخت دشوار ہے دھوکے میں بھی آنا تیرا

داغؔ کو یوں وہ مٹاتے ہیں یہ فرماتے ہیں
تو بدل ڈال ہوا نام پرانا تیرا

داغ دہلوی

Leave a Comment

پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا

پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا
میں بھیگ جاؤں گا ، چھتری نہیں بناؤں گا

اگر خدا نے بنانے کا اختیار دیا
علم بناؤں گا ، برچھی نہیں بناؤں گا

فریب دے کے ترا جسم جیت لوں لیکن
میں پیڑ کاٹ کے کشتی نہیں بناؤں گا

گلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوں
نئے مکان میں کھڑکی نہیں بناؤں گا

میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی جاؤں
تو اُن کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا

تمہیں پتا تو چلے بے زبان چیز کا دکھ
میں اب چراغ کی لو ہی نہیں بناؤں گا

میں ایک فلم بناؤں گا اپنے ثروت پر
اور اُس میں ریل کی پٹری نہیں بناؤں گا

تہذیب حافی

Leave a Comment

دعا کرو گے تو حرفِ دعا نہیں ملنا

دعا کرو گے تو حرفِ دعا نہیں ملنا
محبتوں کا اگر سلسلہ نہیں ملنا

تمھیں دِکھانے ہیں کچھ زخم جو نہیں بھرنے
یقیں کرو کہ ہمیں بے وجہ نہیں ملنا

یہ اب جو تم بڑے بے خوف ہو کے پھرتے ہو
جو ہم نہ ہوں گے، تمھیں حوصلہ نہیں ملنا

میں چل رہا ہوں تمھارے بغیر بھی دیکھو
مجھے لگا تھا کہ اب راستہ نہیں ملنا

میں بانجھ پیڑ ہوں، مجھ پر ثمر نہیں آتے
بہت کہا تھا تجھے بھی صلہ نہیں ملنا

جہاں بچھڑتے ہوئے نم ہوئیں تری آنکھیں
کبھی دوبارہ تجھے اُس جگہ نہیں ملنا

مرے نصیب میں یہ بھی لکھا ہے آخر پر
“تجھے نصیب کا کچھ بھی لکھا نہیں ملنا”

بہت کٹھن ہے، مگر میں نے سوچ رکھا ہے
کسی بھی طور تجھے بے گلہ نہیں ملنا

وہ کس یقین سے کہتا تھا، زین! میرے بعد
تجھے بھی مجھ سا کوئی دوسرا نہیں ملنا

زین شکیل

Leave a Comment

شیشہ ہو یا دل ہو آخر، ٹوٹ جاتا ہے

شیشہ ہو یا دل ہو آخر، ٹوٹ جاتا ہے
لب تک آتے آتے ہاتھوں سے ساغر چھوٹ جاتا ہے

کافی بس ارمان نہیں، کچھ ملنا آسان نہیں
دنیا کی مجبوری ہے، پھر تقدیر ضروری ہے
یہ جو دشمن ہیں ایسے، دونوں راضی ہوں کیسے
ایک کو مناؤں تو دوجا، روٹھ جاتا ہے

بیٹھے تھے کنارے پہ موجوں کے اشارے پہ
ہم کھیلے طوفانوں سے، اس دل کے ارمانوں سے
ہم کو یہ معلوم نہ تھا کوئی ساتھ نہیں دیتا
ماجھی چھوڑ جاتا ہے ساحل چھوٹ جاتا ہے

دنیا ایک تماشا ہے، آشا اور نراشا ہے
تھوڑے پھول ہیں کانٹے ہیں جو تقدیر نے بانٹے ہیں
اپنا اپنا حصہ ہے، اپنا اپنا قصہ ہے
کوئی لُٹ جاتا ہے، کوئی لوٹ جاتا ہے

کیفی اعظمی

Leave a Comment
%d bloggers like this: