تم افسانہِ قیس کیا پوچھتے ہو؟
اِدھر آؤ ، ہم تم کو لیلیٰ بنادیں
اختر شیرانی
Leave a CommentThis Category will contain all sad poetry
جاری تھی کب سے “کُن” کی صدا ،روک دی گئی
لیکھک کا دل بھرا تو کتھا روک دی گئی
اس نے تو صرف مجھ کو اشارہ کیا کہ رک
ہر چیز اپنی اپنی جگہ روک دی گئی
ہر شب ہوا سے بجتی تھیں سب بند کھڑکیاں
اک شب وہ کھول دیں تو ہوا روک دی گئی
جانے ہیں کتنی چوکیاں، عرشِ بریں تلک.؟
جانے کہاں ہماری دعا روک دی گئی؟
میں لاعلاج ہو گیا ہوں، یوں پتہ چلا
اک دن، بنا بتائے، دوا روک دی گئی
گریے کو ترک کر کے میں خوش باش ہو گیا
غم مر گیا جب اس کی غذا روک دی گئی
میری سزائے موت پہ سب غمزدہ تھے، اور
میں خوش کہ زندگی کی سزا روک دی گئی
عمیر نجمی
خود کو بھی میں نہیں موافق ہوں
توبہ میں کس قدر منافق ہوں
اک یہی عیب مجھ میں کافی ہے
میں نہیں آپ کے مطابق ہوں
اس جہاں میں جہاں برائی ہے
میں ہی ناچیز اس کا خالق ہوں
آپ ناحق بھی ہیں تو ہیں حق پر
اور میں حق پہ ہو کے ناحق ہوں
وقت اب یوں نظر چراتا ہے
جیسے اس کا پرانا عاشق ہوں
اک طرف عشق اک حماقت ہے
اک طرف میں ازل سے احمق ہوں
اس مرض کی ہو کیا دوا ابرک
جس میں خود،خود کو خود ہی لاحق ہوں
دیواروں کا بننا نہ بننا تو بعد کی بات
گھر میں خاک بناؤں گا جب نقشہ نہیں بنتا
جب بھی کسی سے کوئی بچھڑے میں رو پڑتا ہوں
ویسے ان باتوں پر میرا رونا نہیں بنت
ﮐﯿﺠﯿﮯ ﺟﻮ ﺳﺘﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﺎﻥ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﻮ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﻦ ﮐﮯ ﺗﺼﻮﯾﺮِ ﻏﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮭﻮﺋﮯﮐﮭﻮﺋﮯﺳﮯﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯﮨﯿﮟ
ﺩﻭ ﻗﺪﻡ ﭼﻞ ﮐﮯ ﺭﮦ ﻭﻓﺎ ﻣﯿﮟ
ﺗﮭﮏ ﮔﺌﮯ ﺗﻢ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﺎﻧﭧ ﻟﯽ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟﺧﻮﺷﯿﺎﮞ
ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﻏﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﺏ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﻨﺎ ﺳﺮﮨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﮔﻨﺘﯽ ﮐﮯ ﺩﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﻗﺎﻓﻠﮧ ﭼﻞ ﮐﮯ ﻣﻨﺰﻝ ﭘﮧ ﭘﮩﻨﭽﺎ
ﭨﮭﮩﺮﻭﭨﮭﮩﺮﻭ ! ﮐﮧ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯﻣﻨﮕﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﻏﯿﺮﺕ
ﺩﻧﮓ ﺍﮨﻞِ ﮐﺮﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺳﺘﺎﺭﯾﺎﮞ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﻮ
ﻋﺎﺻﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﺮﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﮮ ﺻﺒﺎ ! ﺍﯾﮏ ﺯﺣﻤﺖ ﺫﺭﺍ ﭘﮭﺮ
ءﺍُﻥ ﮐﯽ ﺯﻟﻔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺎﺋﻨﺎﺕِ ﺟﻔﺎ ﻭ ﻭﻓﺎ ﻣﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﺗﻢ ﺍﯾﮏ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺁﺝ ﺳﺎﻗﯽ ﭘﻼ ﺷﯿﺦ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ
ﺍﯾﮏ ﯾﮧ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﮔﻠﯽ ﮐﺲ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻠﮧ
ﺍﭨﮭﺘﮯ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﻗﺪﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺗﻮ ﺁ ﮐﺮ ﮔﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮯ
ﺩﻝ ﭘﮧ ﻧﻘﺶ ﻗﺪﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺩﻝ ﻧﺼﯿﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ،ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﻭﮦ
ﮨﻢ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺩﻭﺭِ ﻣﺎﺿﯽ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮِ ﺁﺧﺮ
ﺍﮮ ﻧﺼﯿﺮ ! ﺍﯾﮏ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
۔۔۔۔۔۔۔۔
ﭘﯿﺮ ﺳﯿﺪ ﻧﺼﯿﺮ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻧﺼﯿﺮ ﮔﻮﻟﮍﻭﯼ
اس اک ڈر سے خواب دیکھتا نہیں
میں جو بھی دیکھتا ہوں بھولتا نہیں
کسی منڈیر پر کوئی دیا جلا
پھر اس کے بعد کیا ہوا پتا نہیں
ابھی سے ہاتھ کانپنے لگے میرے
ابھی تو میں نے وہ بدن چھوا نہیں
میں آرہا تھا راستے میں پھول تھے
میں جا رہا ہوں کوئی روکتا نہیں
تیری طرف چلے تو عمر کٹ گئی
یہ اور بات راستہ کٹا نہیں
میں راہ سے بھٹک گیا تو کیا ہوا
چراغ میرے ہاتھ میں تو تھا نہیں
میں ان دنوں ہوں خود سے اتنا بےخبر
میں مر چکا ہوں اور مجھے پتا نہیں
اس اژدھے کی آنکھ پوچھتی رہی
کسی کو خوف آرہا ہے یا نہیں
یہ عشق بھی عجیب کہ اک شخص سے
مجھے لگا کہ ہوگیا ہوا نہیں
خدا کرے وہ پیڑ خیریت سے ہو
کئی دنوں سے اس کا رابطہ نہیں۔
تہذیب حافی
Leave a Commentہمارے دور کو برباد کر گئے افکار
یہ کون آئے کہ گھر گھر سے در گئے افکار
تمام لوگ بہت خوش ہیں , اپنی مستی میں ہیں
میں کس سے بولوں مرے لوگ مر گئے افکار
وہ مجھ پہ غور کرے گا تو مجھ سے پوچھے گا
کہ آدھے آدھے ہو , آدھے کدھر گئے افکار
اساڈا ڈکھ , چھڑا ساڈا ھ .. کُئ کِنجے سمجھے
سو جگ ہنسائی ہوئی , ہم جدھر گئے افکار
ہماری آنکھ کھلی , تم نہیں تھے , خامشی تھی
لگا کہ بستی سے دریا گزر گئے افکار
تمہارے بعد ہمیں وسوسوں نے گھیر لیا
کسی نے ہنس کے بلایا تو ڈر گئے افکار
خدا بچائے کہ شہرت فریبی کتیا ہے
یہ صرف بھونکی , مرے بال و پر گئے افکار
افکار علوی
Leave a Commentاس سے پہلے کہ تجھے اور سہارا نہ ملے
میں ترے ساتھ ہوں جب تک مرے جیسا نہ ملے
کم سے کم بدلے میں جنت اسے دے دی جائے
جس محبت کے گرفتار کو صحرا نہ ملے
مجھ کو اک رنگ عطا کر تا کہ پہچان رہے
کل کلاں یہ نہ ہو تجھ کو مرا چہرہ نہ ملے
لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ برے آدمی ہیں
لوگ بھی ایسے جنہوں نے ہمیں دیکھا ، نہ ملے
بس یہی کہہ کے اسے میں نے خدا کو سونپا
اتفاقاً کہیں مل جائے تو روتا نہ ملے
تم دعا کرتے رہو میرا سفر اچھا رہے
کوئی مل جائے مگر عقل کا اندھا نہ ملے
مجھ کو دیکھا تو مجھے ایسے لپٹ کر روئی
جیسے اک ماں کو کوئی گمشدہ بچہ نہ ملے
بددعا ہے کہ وہاں آئیں جہاں بیٹھتے تھے
اور افکار وہاں آپ کو بیٹھا نہ ملے
افکار علوی
Leave a Commentتُو کبھی بیٹھ مرے پَاس، مری بَات سمجھ
دیکھ یہ ہاتھ کَبھی خاک کی اوقات سمجھ
ہے محبت مرے گَاؤں میں بَغاوت کی طرح
تُو کبھی شہر سے بَاہر کے بھی حَالا ت سمجھ
اس محبت کو اگر مَان مُثلث کوئی
اور مجھے ڈَھاک کے پَاتوں سے کوئی پات سمجھ
تو سکھا ئے گا مجھے عِشق کے اِسرار و رَموز
میں ہوں مَنصور صفَت عشق مری ذَات سمجھ
جِسم کی چاہ میں شہزادی یہ بَاندی نہ بنا
جیت کے جشن میں پِنہاں ہے کوئی مات سمجھ
قِہقہوں میں چھپا رکھی ہے کہانی غم کی
ہجر کے مارے ہوئے لوگوں کے جذبات سمجھ
کَچی پنسل سے خدوخال تو کاغذ پہ اتار
پہلے اس جسم کی حُرمت کی روایات سمجھ
گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
بچ نکلتے ہیں اگر آتش سیال سے ہم
شعلۂ عارض گلفام سے جل جاتے ہیں
خود نمائی تو نہیں شیوۂ ارباب وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں
ربط باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
قتیل شفائی
Leave a Comment