اُجرتِ قافیہ پیمائی نہیں ملتی تھی
پہلے اِس کام میں اک پائی نہیں ملتی تھی
گروی رکھتے تھے بصیرت کو بصارت کے عوض
اُن دنوں مفت میں بینائی نہیں ملتی تھی
اب تو محفل میں بھی آتا ہے اکیلا ہونا
پہلے خلوت میں بھی تنہائی نہیں ملتی تھی
ایسے سیارے پہ رہتے تھے جہاں سورج سے
نور ملتا تھا، توانائی نہیں ملتی تھی
اگلے وقتوں میں بھی ملتی تھی جہالت کو سند
لیکن اِس درجہ پذیرائی نہیں ملتی تھی
جب کبھی اُس کو سماعت کی فراغت ملتی
تب ہمیں قوتِ گویائی نہیں ملتی تھی
اب تو کچھ نفع بھی دے جاتی ہے یہ جنسِ جنوں
پہلے لاگت بھی، مرے بھائی! نہیں ملتی تھی!
تب ہمیں حکم تماشے کا ملا کرتا تھا
جب کوئی چشمِ تماشائی نہیں ملتی تھی
گنگناتا تھا سدا انترے سے عشق کا گیت
تجھ سے پہلے مجھے استھائی نہیں ملتی تھی
عمیر نجمی
Leave a Comment