پامالِ رہ گزر ہوں تجھے کچھ خبر بھی ہے
او مستِ ناز دیکھ یہاں میرا سر بھی ہے
ماقوف تیرے سننے نا سننے پہ ہے میرا حل
قصّہ میرا دراز بھی ہے مختصر بھی ہے
پامالِ رہ گزر ہوں تجھے کچھ خبر بھی ہے
او مستِ ناز دیکھ یہاں میرا سر بھی ہے
ماقوف تیرے سننے نا سننے پہ ہے میرا حل
قصّہ میرا دراز بھی ہے مختصر بھی ہے
اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں
مگر ترے بعد حوصلہ ہے کہ جی رہا ہوں
وہ ریزہ ریزہ مرے بدن میں اتر رہا ہے
میں قطرہ قطرہ اسی کی آنکھوں کو پی رہا ہوں
تری ہتھیلی پہ کس نے لکھا ہے قتل میرا
مجھے تو لگتا ہے میں ترا دوست بھی رہا ہوں
کھلی ہیں آنکھیں مگر بدن ہے تمام پتھر
کوئی بتائے میں مر چکا ہوں کہ جی رہا ہوں
کہاں ملے گی مثال میری ستمگری کی ؟
کہ میں گلابوں کے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں
نہ پوچھ مجھ سے کہ شہر والوں کا حال کیا تھا
کہ میں تو خود اپنے گھر میں بھی دو گھڑی رہا ہوں
ملا تو بیتے دنوں کا سچ اس کی آنکھ میں تھا
وہ آشنا جس سے مدتوں اجنبی رہا ہوں میں
بھلا دے مجھ کو کہ بے وفائی بجا ہے لیکن
گنوا نہ مجھ کو کہ میں تری زندگی رہا ہوں
وہ اجنبی بن کے اب ملے بھی تو کیا ہے محسن
یہ ناز کم ہے کہ میں بھی اس کا کبھی رہا ہوں
ساز و آواز خد و خال میں آ جاتے ہیں
سانس لیتاہوں تو _سُر تال میں آجاتےہیں
جنگ اورعشق میں ہارےہوے لوگوں کیطرح
ہم غنیمت کے کسی مال میں آجاتے ہیں
زندگی خواب ہےاورخواب کی قیمت لینے
جن کوآناہوکِسی حال میں آجاتے ہیں
توبھی سادہ ہےکبھی چال بدلتاہی نہیں
ہم بھی دانستہ تیری چال میں آجاتےہیں
شام ڈھلتے ہی کِسی گوشہِ ویرانی میں
ہم پرندوں کی طرح جال میں آجاتےہیں
ماہِ کامل نہ سہی پاس ، ستارہ کوئی ہے
یہ غلط فہمی رہی ہم کو ، ہمارا کوئی ہے
یہ جو بہتے ہوئے لاشے ہیں ، کہاں جاتے ہیں ؟
بول دریائے ستم تیرا کنارہ کوئی ہے ؟
بس ہوا ملتے ہی ہر یاد بھڑک اٹھتی ہے
یوں سمجھ راکھ کے اندر بھی شرارا کوئی ہے
کوئی دستک ہی نہ تھی اور نہ “میں ہوں” کی صدا
میں نے چوکھٹ پہ کئی بار پکارا ، کوئی ہے ؟
تو جو عامل ہے تو پھر توڑ بتا وحشت کا
اس محبت کی اذیت کا اتارا کوئی ہے ؟
آج کل تم بھی اکیلے ہو سنا ہے میں نے
تم تو کہتے تھے مرے بعد تمہارا کوئی ہے
کومل جوئیہ
Leave a Commentحیاتِ عِشق میں یُوں حُسن شامِل ہوتا جاتا ہے
جو ذرّہ جَگمگاتا ہے مِرا دِل ہوتا جاتا ہے
محبَّت میں یَقین و بےیَقینی کے دَوراہے پر
ہنسی کیسی مُجھے رونا بھی مُشکِل ہوتا جاتا ہے
وہ آغازِ جَفا تھا دَرد سے دِل کو شِکایَت تھی
یہ اَنجامِ وفا ہے دَرد بھی دِل ہوتا جاتا ہے
کہاں پہنچا دیا مُجھکو مِرے ضَبط و تَحَمُّل نے
کہ ہر ساعَت فُسُونِ حُسنِ باطِل ہوتا جاتا ہے
مُجھے اے کاش تیری بےرُخی مایُوس کر دیتی
یہ آساں کام بھی کِس دَرجہ مُشکِل ہوتا جاتا ہے
تُجھے تَو ناز تھا ساحِل پہ طُوفاں آشنائ کا
یہ کیوں سُبک سارانِ ساحِل ہوتا جاتا ہے
انوکھا جال پھیلایا ہے تاثِیرِ محبَّت نے
وہ جَلوَہ بھی شِکارِ جَذبِ کامِل ہوتا جاتا ہے
یہ کیا سمجھا رہے ہو تُم مِرے پَردے میں مَحفِل کو
مِرا رَنگِ تَغَیُّر رَنگِ مَحفِل ہوتا جاتا ہے
نَوِیدِ قُربِ مَنزِل دے رہے ہیں قافلے والے
دِلِ اِیذا طَلَب بیزارِ مَنزِل ہوتا جاتا ہے
مَیں جِس رَفتار سے طُوفاں کی جانِب بڑھتا جاتا ہُوں
اُسی رَفتار سے نزدِیک ساحِل ہوتا جاتا ہے
حُضُوری میں بھی بیتابی ہے دُوری میں بھی بیتابی
سُکُونِ دِل بہرِ تَقدِیر مُشکِل ہوتا جاتا ہے
سِتارے ڈُوبتے جاتے ہیں شمعیں بُجھتی جاتی ہیں
مُرَتّب خودبخود اَنجامِ مَحفِل ہوتا جاتا ہے
محبَّت میں مکان و لامکاں ہیں دو قدَم لیکِن
مُجھے یہ دو قدَم چلنا بھی مُشکِل ہوتا جاتا ہے
بہت دِن سر دُھنا ہے جُرمِ آغازِ محبَّت پر
اور اَب اَنجام سے احسانؔ غافِل ہوتا جاتا ہے
احسان دانش
گھنگھرو و پہ بات کر نہ تُو پائل پہ بات کر
مجھ سے طوائفوں کے مسائل پہ بات کر
فُٹ پاتھ پر پڑا ہوا دیوانِ مِیر دیکھ
رَدّی میں بِکنے والے رسائل پہ بات کر
گورے مُصَنِّفین کی کالی کُتُب کو پڑھ
کالے مُصَنِّفوں کے خصائل پہ بات کر
منبر پہ بیٹھ کر سُنا جھوٹی حکایتیں
خطبے میں سچ کے فَضل و فضائل پہ بات کر
اِس میں بھی اَجر ہے نہاں نَفلی نَماز کا
مسجد میں بھیک مانگتے سائل پہ بات کر
میرا دُعا سے بڑھ کے دوا پر یقین ہے
مجھ سے وَسیلہ چھوڑ، وسائل پہ بات کر
آ میرے ساتھ بیٹھ، مرے ساتھ چائے پی
آ میرے ساتھ میرے دلائل پہ بات کر
سردار ہیں جو آج وہ غدّار تھے کبھی
جا اِن سے اِن کے دورِ اوائل پہ بات کر
واصفؔ بھی سالِکوں کے قبیلے کا فرد ہے
واصفؔ سے عارِفوں کے شَمائل پہ بات کر
کہا اُس نے __ کہ آخر کِس لیے بیکار لکھتے ہیں
یہ شاعر لوگ کیوں اِتنے دُکھی اشعار لکھتے ہیں
کہا ہم نے کہ اَز خُود کچھ نہیں لکھتے یہ بیچارے
اِنہیں مجبور جب کرتا ہے _ دل، ناچَار لکھتے ہیں
یہ سُن کر مُسکرائی، غور سے دیکھا ہمیں، بولی
تو اچھا آپ بھی اُس قِسم کے اشعار لکھتے ہیں
وہ کیا غم ہے جسے دُہرا رہے ہیں آپ برسوں سے
وہ کیا دُکھ ہے، مناتے ہیں جسے ہر بار لکھتے ہیں
مگر افسوس ہم سمجھا نہیں پائے اُسے کچھ بھی
کہ کیوں ہم بھی اُسی انداز کے اشعار لکھتے ہیں
وہ کیسی آگ ہے لفظوں میں، جس کو ڈھالتے ہیں ہم
وہ کیا غم ہے _ جو راتوں کو پسِ دیوار لکھتے ہیں
ہے ایسا کون _ جو سارے جہاں سے ہے ہمیں پیارا
وہ کیسا دُشمنِ جاں ہے ، جسے غم خوار لکھتے ہیں
حُسین تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے
کہ تُو عظیم ہے بے ننگ و نام ہم جیسے
برنگِ ماہ ہے بالائے بام تجھ جیسا
تو فرشِ راہ کئی زیرِ بام ہم جیسے
وہ اپنی ذات کی پہچان کو ترستے ہیں
جو خاص تیری طرح ہیں نہ عام ہم جیسے
یہ بے گلیم جو ہر کربلا کی زینت ہیں
یہ سب ندیم یہ سب تشنہ کام ہم جیسے
بہت سے دوست سرِ دار تھے جو ہم پہنچے
سبھی رفیق نہ تھے سست گام ہم جیسے
خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں
ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے
تُو سر بریدہ ہوا شہرِ ناسپاساں میں
زباں بریدہ ہوئے ہیں تمام ہم جیسے
پہن کے خرقۂ خوں بھی کشیدہ سر ہیں فراز
بغاوتوں کے علم تھے مدام ہم جیسے
احمد فراز
Leave a Comment