کوئی بہلائے باتوں سے مگر یہ ڈرتا رہتا ہے
دلِ برباد کی ہائے پریشانی نہیں جاتی
کسی بھی آشنا دستک پہ اب کھلتا نہیں ہے یہ
ترے جانے پہ دروازے کی حیرانی نہیں جاتی
قفس میں قید ہوتے ہیں کئی ارماں اڑانوں کے
رہا کر کے پرندے بھی پشیمانی نہیں جاتی
بدل جاتے ہیں سب چہرے سبھی اپنے پرایوں کے
حقیقی شکل بھی اب ہم سے پہچانی نہیں جاتی
بہت مجبور کرتا ہے ہمیں تیرے حوالے سے
کہ اب کچھ دل کے آگے عقل کی مانی نہیں جاتی
کسی آہٹ سے میرے خواب اور نیندیں گریزاں ہیں
تبھی تو میری آنکھوں کی یہ ویرانی نہیں جاتی
Be First to Comment