Skip to content

کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری

کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہاں بدلی ہیں تقدیریں ہماری

وطن تھا ذہن میں زندان نہیں تھا
چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا

بہاروں نے دئے وہ داغ ہم کو
نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو

گھروں کو چھوڑ کر جب ہم چلے تھے
ہمارے دل میں کیا کیا ولولے تھے

یہ سوچا تھا ہمارا راج ہوگا
سر محنت کشاں پر تاج ہوگا

نہ لوٹے گا کوئی محنت کسی کی
ملے گی سب کو دولت زندگی کی

نہ چاٹیں گی ہمارا خوں مشینیں
بنیں گی رشک جنت یہ زمینیں

کوئی گوہر کوئی آدم نہ ہوگا
کسی کو رہزنوں کا غم نہ ہوگا

لٹی ہر گام پر امید اپنی
محرم بن گئی ہر عید اپنی

مسلط ہے سروں پر رات اب تک
وہی ہے صورت حال اب تک

حبیب جالبؔ

Published inGazals

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: