غزال آنکھوں کو ، مہ جبینوں کو دیکھتے ہیں
پرانے شاعر نئی زمینوں کو دیکھتے ہیں
تو علم ہوتا ہے سانپ بچھو پلے ہوئے تھے
اگر کبھی اپنی آستینوں کو دیکھتے ہیں
تمہارا چہرہ ، تمہارے رخسار و لب سلامت
کہ ہم تو حسرت سے ان خزینوں کو دیکھتے ہیں
بچھڑنے والے اداس رت میں کلینڈروں پر
گزشتہ سالوں ، دنوں ، مہینوں کو دیکھتے ہیں
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو اجڑے ہوئے مسافر
تمہارے پاؤں سے روندے زینوں کو دیکھتے ہیں
کبھی یہ دیکھا تماشہ گاہوں کے کچھ مداری
عجیب دکھ سے تماش بینوں کو دیکھتے ہیں
پرانی تصویر ، ڈائری اور چند تحفے
بڑی اذیت سے روز تینوں کو دیکھتے ہیں
کومل جوئیہ
Be First to Comment