Skip to content

مسلسل خوف کی، ڈر کی فراوانی نہیں جاتی

مسلسل خوف کی، ڈر کی فراوانی نہیں جاتی
وہ میرا ھے تو کیوں میری پریشانی نہیں جاتی ؟

مجھے وہ کس طرح ڈھونڈ ے گا لوگوں کے سمندر میں
مری صورت تو اب مجھ سے بھی پہچانی نہیں جاتی

بظاہر بھول کر اُس کو میں ہنستا کھیلتا تو ہوں
مگر سچ تو ھے یہ، اندر کی ویرانی نہیں جاتی

مجھے و ہ مارنے والوں میں شامل ہو گیا کیسے
مری آنکھوں سے مر کر بھی یہ حیرانی نہیں جاتی

مرے دن رفتہ رفتہ ہو گئے کانٹوں بھرے جنگل
مری راتوں سے لیکن رات کی رانی نہیں جاتی

جدائی چاہتا ھے وہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے
محبت میں بھی ہر اِک بات تو مانی نہیں جاتی

ؔ اُس شخص کی چارہ گری میں شک نہیں لیکن
جو جاں میں بس گئی ھے، اب وہ بے جانی نہیں جاتی

Published inGazals

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: