Skip to content

چراغِ طور جلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

چراغِ طور جلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

مجھے تمہاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ ! بڑا اندھیرا ہے

فرازِ عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارا
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے

بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری
مجھے یقین دلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

جسے زبانِ خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

بنامِ زہرہ جبینانِ خطہء فردوس
کسی کرن کو جگاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: