جب تم سے اتفاقا میری نظر ملی تھی
اب یاد آ رہا ہے شاید وہ جنوری تھی
تم یوں ملی دوبارہ پھر ماہِ فروری میں
جیسے کہ ہمسفر ہو تم راہِ زندگی میں
کتنا حسِین زمانہ آیا تھا مارچ لے کر
راہِ وفا پہ تھی تم وعدوں کی ٹارچ لے کر
باندھا جو عہدِ الفت اپریل چل رہا تھا
دنیا بدل رہی تھی موسم بدل رہا تھا
لیکن مئی جب آئی جلنے لگا زمانہ
ہر شخص کی زباں پہ تھا بس یہی افسانہ
دنیا کے ڈر سے تم نے جب پھیری تھی نگاہیں
تھا جون کا مہینہ لب پہ تھی گرم آہیں
جولائی میں تم نے کی بات چیت کچھ کم
تھے آسمان پہ بادل اور میری آنکھیں پرنم
ماہِ اگست میں جب برسات ہو رہی تھی
تب آنسوؤں کی بارش دن رات ہو رہی تھی
اب یاد آ رہا ہے وہ ماہ تھا ستمبر
بھیجا تھا تم نے مجھ کوترکِ وفا کا لیٹر
تم غیر ہو گئی تھی اکتوبر آ گیا تھا
دنیا بدل چکی تھی موسم بدل چکا تھا
جب آ گیا نومبر وہ بھیگی رات آئی
مجھ سے تمہیں چھڑانے سج کر بارات آئی
اک قید تھا دسمبر جذبات مر چکے تھے
موسم تھا سرد اس میں ارمان بکھر چکے تھے
Be First to Comment