Skip to content

Tag: Umair Najmi

Umair Najmi

اُجرتِ قافیہ پیمائی نہیں ملتی تھی

اُجرتِ قافیہ پیمائی نہیں ملتی تھی
پہلے اِس کام میں اک پائی نہیں ملتی تھی

گروی رکھتے تھے بصیرت کو بصارت کے عوض
اُن دنوں مفت میں بینائی نہیں ملتی تھی

اب تو محفل میں بھی آتا ہے اکیلا ہونا
پہلے خلوت میں بھی تنہائی نہیں ملتی تھی

ایسے سیارے پہ رہتے تھے جہاں سورج سے
نور ملتا تھا، توانائی نہیں ملتی تھی

اگلے وقتوں میں بھی ملتی تھی جہالت کو سند
لیکن اِس درجہ پذیرائی نہیں ملتی تھی

جب کبھی اُس کو سماعت کی فراغت ملتی
تب ہمیں قوتِ گویائی نہیں ملتی تھی

اب تو کچھ نفع بھی دے جاتی ہے یہ جنسِ جنوں
پہلے لاگت بھی، مرے بھائی! نہیں ملتی تھی!

تب ہمیں حکم تماشے کا ملا کرتا تھا
جب کوئی چشمِ تماشائی نہیں ملتی تھی

گنگناتا تھا سدا انترے سے عشق کا گیت
تجھ سے پہلے مجھے استھائی نہیں ملتی تھی

عمیر نجمی

Leave a Comment

میں کھولتا ہوں درِ دل ، اگر کوئی آ جائے

میں کھولتا ہوں درِ دل ، اگر کوئی آ جائے
پر اس کا یہ نہیں مطلب کہ ہر کوئی آ جائے

میں اندھا بن کے گزرتے ہووؤں کو دیکھتا تھا
میں چاہتا تھا مجھے دیکھ کر کوئی آ جائے

کروں گا آج تلافی، سو، مجھ سمیت، اگر
کسی کو پہنچا ہو مجھ سے ضرر کوئی، آ جائے !

میں اُس کو دیکھ کے رستے میں یوں رکا، جیسے
سڑک کے بیچ ،اچانک شجر کوئی آ جائے

یوں آئی وصل کے دوران ایک ہجر کی یاد
کہ جیسے چھٹی کے دن کام پر کوئی آ جائے

یوں آئنے کے مقابل ہوں دم بخود، جیسے
کسی کو دیکھنا ہو اور نظر کوئی آ جائے

یہ سوچ کر نہیں دیتا میں تجھ کو دل میں جگہ
یہی نہ ہو کہ ترے ساتھ ڈر کوئی آ جائے

عمیر نجمی

Leave a Comment

لیتے تھے لطف ہم اَدَبی اختلاف کا

لیتے تھے لطف ہم اَدَبی اختلاف کا
چیخوف اُسے پسند تھا اور مجھ کو کافکا

میں گھومتا ہوں، گھومتی کرسی پہ، دل کے گِرد
لیتا ہوں اجر، خانہِ رب کے طواف کا

مجھ کو سزا سنا دی گئی، دی بھی جا چکی
تو اب بھی منتظر ہے مرے اعتراف کا؟

اُس دل سے ہو کے نور مڑا جب مری طرف
سمجھا میں پہلی بار،اصول انعطاف کا

خلوت منائیں، دھیان لگائیں، دروں کو جائیں
موقع بھی دے رہی ہے وبا، اعتکاف کا

سردی تھی یا اندھیرے کا ڈر تھا کہ رات، خوف
کونا پکڑ کے بیٹھ گیا تھا لحاف کا

کندہ کیا ہے عشق نے اک زخم روح پر
کیسا نیا طریقہ ہے آٹو گراف کا

یکتائی کیا ہے، یہ تجھے سمجھائے گا وہ شخص
مرکز سمجھ چکا ہو جو کالے شگاف کا

دیکھو! تمام دل، ہمہ تن گوش ہیں، عمیر!
اب وقت ہو چکا ہے مرے انکشاف کا

عمیر نجمی

Leave a Comment

اس نے کہا کہ ہجر کے گزرو عذاب سے

اس نے کہا کہ ہجر کے گزرو عذاب سے
میں نے کہا کہ ضد تو نہیں ہے جناب سے

اس نے کہا کہ بادلوں میں چاند کیوں چھپے
میں نے کہا کہ پوچھ لو اپنے حجاب سے

اس نے کہا کہ چاند سے بڑھ کر حسین کون
میں نے کہا نکال تو چہرہ نقاب سے

اس نے کہا کہ تتلیاں ہیں میرے گرد کیوں
میں نے کہا کہ پیار ہے ان کو گلاب سے

اس نے کہا کہ خوفزدہ پھول کس سے ہیں
میں نے کہا کہ آپ کے چڑھتے شباب سے

اس نے کہا کہ ایک سمندر ہے دشت میں
میں نے کہا کہ دھوکا ہوا ہے سراب سے

اس نے کہا کہ درد کا رشتہ ہے دل سے کیا
میں نے کہا وہی کہ جو آنکھوں کا خواب سے

اس نے کہا کہ سنیے تو اک کام ہے مرا ۔۔
میں نے کہا کہ نجمیء خانہ خراب سے ؟

عمیر نجمی

Leave a Comment

اک دن زباں سکوت کی، پوری بناؤں گا

اک دن زباں سکوت کی، پوری بناؤں گا
میں گفتگو کو غیر ضروری بناؤں گا

تصویر میں بناؤں گا دونوں کے ہاتھ اور
دونوں میں ایک ہاتھ کی دوری بناؤں گا

مدت سمیت جملہ ضوابط ہوں طے شدہ
یعنی تعلقات، عبوری بناؤں گا

تجھ کو خبر نہ ہو گی کہ میں آس پاس ہوں
اس بار حاضری کو حضوری بناؤں گا

رنگوں پہ اختیار اگر مل سکا کبھی
تیری سیاہ پتلیاں، بھوری بناؤں گا

جاری ہے اپنی ذات پہ تحقیق آج کل
میں بھی خلا پہ ایک تھیوری بناؤں گا

میں چاہ کر وہ شکل مکمل نہ کر سکا
اس کو بھی لگ رہا تھا ادھوری بناؤں گا

عمیرؔ نجمی

Leave a Comment

‏وہ شخص بھی شعر تھا کوئی سہلِ ممتنع میں

‏وہ شخص بھی شعر تھا کوئی سہلِ ممتنع میں
‏نہیں کھلا گر چہ اس کی کوئی پرت نہیں تھی

‏اک اور عشق آ گیا تھا دورانِ ہجر، ٹالا
‏ممانعت تو نہیں تھی، مجھ میں سکت نہیں تھی

‏عمیرنجمی

Leave a Comment

جاری تھی کب سے “کُن” کی صدا ،روک دی گئی

جاری تھی کب سے “کُن” کی صدا ،روک دی گئی
لیکھک کا دل بھرا تو کتھا روک دی گئی

اس نے تو صرف مجھ کو اشارہ کیا کہ رک
ہر چیز اپنی اپنی جگہ روک دی گئی

ہر شب ہوا سے بجتی تھیں سب بند کھڑکیاں
اک شب وہ کھول دیں تو ہوا روک دی گئی

جانے ہیں کتنی چوکیاں، عرشِ بریں تلک.؟
جانے کہاں ہماری دعا روک دی گئی؟

میں لاعلاج ہو گیا ہوں، یوں پتہ چلا
اک دن، بنا بتائے، دوا روک دی گئی

گریے کو ترک کر کے میں خوش باش ہو گیا
غم مر گیا جب اس کی غذا روک دی گئی

میری سزائے موت پہ سب غمزدہ تھے، اور
میں خوش کہ زندگی کی سزا روک دی گئی
عمیر نجمی

Leave a Comment

زہر آلود ہے ہر سانس، نہیں لے سکتے

زہر آلود ہے ہر سانس، نہیں لے سکتے
مر چکے ہیں یہ شجر، سانس نہیں لے سکتے

نیند کی گولیاں لے لیتے ہیں ورنہ ہم لوگ
رات کے پچھلے پہر سانس نہیں لے سکتے

اِتنی وسعت میں گھٹن، ِاس کو خلا کہتے ہیں
کہ کھلا گھر ہے مگر سانس نہیں لے سکتے

کیسے لے لیں ترا احسان کسی ڈر کے بغیر؟
ہم تو بے خوف و خطرسانس نہیں لے سکتے

تنگ بازار میں فہرست لیے سوچتے ہیں
اور کیا لیں گے اگر سانس نہیں لے سکتے؟

دل وہ گھر ہے کہ جو خالی ہے، ہوادار نہیں
آپ رہ سکتے ہیں پر سانس نہیں لے سکتے

بس اسی ڈر سے کہ دھندلائے نہ وہ آئنہ رُخ
جب تک اُس پر ہو نظر، سانس نہیں لے سکتے

ٹھوڑی، خنجر کی طرح چبھتی ہے سینے میں، عمیر
اس قدر خم ہے کمر، سانس نہیں لے سکتے

عمیر نجمی

Leave a Comment

ایک تاریخِ مقرر پہ تُو ہر ماہ مِلے

ایک تاریخِ مقرر پہ تُو ہر ماہ مِلے
جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ مِلے.

رنگ اکھڑ جاۓ تو ظاہر ہو پلستر کی نمی
قہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے

جمع تھے رات میرے گھر ترے ٹھکراۓ ہوۓ
ایک درگاہ پہ سب راندۂ درگاہ ملے

ایک اداسی کے جزیرے پہ ہوں اشکوں میں گِھرا
میں نکل جاؤں اگر خشک گزرگاہ ملے

گھر پہنچنے کی نہ جلدی،نہ تمنا ہے کوئی
جس نے ملنا ہو مجھے آئے سرِ راہ ملے

(عمیر نجمی)

Leave a Comment

بچھڑ گئے تو یہ دِل عُمر بھر لگے گا نہیں

بچھڑ گئے تو یہ دِل عُمر بھر لگے گا نہیں
لگے گا ، لگنے لگا ہے مگر ۔۔۔ لگے گا نہیں

نہیں لگے گا اُسے دیکھ کر ، مگر خوش ہے
میں خوش نہیں ہوں ، مگر دیکھ کر لگے گا نہیں

عُمیر نجمی

Leave a Comment
%d bloggers like this: