Skip to content

Tag: Umair Najmi

Umair Najmi

جُھک کے چلتا ہوں کہ قدّ اُس کے برابر نہ لگے

جُھک کے چلتا ہوں کہ قدّ اُس کے برابر نہ لگے
دوسرا یہ کہ اُسے راہ میں ٹھوکر نہ لگے

یہ ترے ساتھ تعلّق کا بڑا فائدہ ہے
آدمی ہو بھی تو اوقات سے باہر نہ لگے

نیم تاریک سا ماحول ہے درکار مجھے
ایسا ماحول جہاں آنکھ لگے ۔۔۔۔ ڈر نہ لگے

ماؤں نے چومنے ہوتے ہیں بریدہ سَر بھی
اُن سے کہنا کہ کوئی زخم جبیں پر نہ لگے

یہ طلب گار نگاہوں کے تقاضے ہر سُو
کوئی تو ایسی جگہ ہو جو ‘ مجھے گھر نہ لگے

یہ جو آئینہ ہے’ دیکھوں تو خلا دِکھتا ہے
اِس جگہ کچھ بھی نہ لگواؤں تو بہتر نہ لگے؟

تم نے چھوڑا تو کسی اور سے ٹکراؤں گا مَیں
کیسے ممکن ہے کہ اندھے کا کہیں سَر نہ لگے

عُمیـــر نجمــیؔ

Leave a Comment

ضرر رساں ہوں بہت، آشنا ہوں میں خود سے

ضرر رساں ہوں بہت، آشنا ہوں میں خود سے
تبھی تو فاصلہ رکھ کر کھڑا ہوں میں خود سے

سلام! کون؟ کہیں مل چکے ہیں کیا پہلے؟
ہزار بار یہ سب کہہ چکا ہوں میں خود سے

جھگڑتے وقت ذرا بھی لحاظ رکھتا نہیں
اگرچہ عمر میں کافی بڑا ہوں میں خود سے

مجھے ملی ہے گزشتہ برس کی اک تصویر
کہیں کہیں سے بہت مل رہا ہوں میں خود سے

جو درمیان سے تم ہٹ گئے تو ایک گیا
تمہاری سوچ ہے، جتنا خفا ہوں میں خود سے

سوال لکھ کے یہاں رکھ دو اور تم جاؤ
یہ کام کر لوں تو پھر پوچھتا ہوں میں خود سے

کہاں تلاش کروں؟ کیا کہوں کسی سے، عمیر!
کہ آتے جاتے کہیں گر گیا ہوں میں خود سے؟

عمیر نجمی

Leave a Comment

بس اک اسی پہ تو پوری طرح عیاں ہوں میں

بس اک اسی پہ تو پوری طرح عیاں ہوں میں
!وہ کہہ رہا ہے مجھے رائگاں، تو ہاں! ہوں میں

جسے دکھائی دوں، میری طرف اشارہ کرے
مجھے دکھائی نہیں دے رہا کہاں ہوں میں

میں خود کو تجھ سے مٹاؤں گا احتیاط کے ساتھ
تو بس نشان لگا دے، جہاں جہاں ہوں میں

کسی نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو بھول گیا
ابھی کسی نے بتایا تو تھا، فلاں ہوں میں

ہر ایک شخص کو اپنی پڑی ہوئی ہے یہاں
مرا خیال ہے اپنوں کے درمیاں ہوں میں

میں کس سے پوچھوں یہ رستہ درست ہے کہ غلط؟
جہاں سے کوئی گزرتا نہیں، وہاں ہوں میں

ادھر ادھر سے نمی کا رساؤ رہتا ہے
سڑک سے نیچے بنایا گیا مکاں ہوں میں

جبیں پہ ہجر کی تحریر درج کرنے میں
کسی پرانے قلم کی طرح رواں ہوں میں

!…عمیر نجمی

Leave a Comment

شب بسر کرنی ہے، محفوظ ٹھکانہ ہے کوئی ؟

شب بسر کرنی ہے، محفوظ ٹھکانہ ہے کوئی ؟
کوئی جنگل ہے یہاں پاس میں؟ صحرا ہے کوئی؟

ویسے سوچا تھا محبت نہیں کرنی میں نے
اس لئے کی کہ کبھی پوچھ ہی لیتا ہے کوئی

آپ کی آنکھیں تو سیلاب زدہ خطے ہیں
آپ کے دل کی طرف دوسرا رستہ ہے کوئی؟

جانتا ہوں کہ تجھے ساتھ تو رکھتے ہیں کئی
پوچھنا تھا کہ ترا دھیان بھی رکھتا ہے کوئی؟

دکھ مجھے اس کا نہیں ہے کہ دکھی ہے وہ شخص
دکھ تو یہ ہے کہ سبب میرے علاوہ ہے کوئی

دو منٹ بیٹھ، میں بس آئینے تک ہو آؤں
اُس میں اِس وقت مجھے دیکھنے آتا ہے کوئی

خوف بولا: “کوئی ہے؟ جس کو بُلانا ہے، بُلا!”
دیر تک سوچ کے میں زور سے چیخا: ” ہے کوئی؟؟”

عمیر نجمی

Leave a Comment

رنگوں پہ اختیار اگر مل سکا کبھی

رنگوں پہ اختیار اگر مل سکا کبھی
تیری سیاہ پتلیاں، بھوری بناؤں گا

اک دن زباں سکوت کی، پوری بناؤں گا
میں گفتگو کو غیر ضروری بناؤں گا

تصویر میں بناؤں گا دونوں کے ہاتھ اور
دونوں میں ایک ہاتھ کی دوری بناؤں گا

مدت سمیت جملہ ضوابط ہوں طے شدہ
یعنی تعلقات، عبوری بناؤں گا

تجھ کو خبر نہ ہو گی کہ میں آس پاس ہوں
اس بار حاضری کو حضوری بناؤں گا

رنگوں پہ اختیار اگر مل سکا کبھی
تیری سیاہ پتلیاں، بھوری بناؤں گا

جاری ہے اپنی ذات پہ تحقیق آج کل
میں بھی خلا پہ ایک تھیوری بناؤں گا

میں چاہ کر وہ شکل مکمل نہ کر سکا
اس کو بھی لگ رہا تھا ادھوری بناؤں گا

عمیر نجمی

Leave a Comment
%d bloggers like this: