Skip to content

Tag: Mohsin Naqvi

Mohsin Naqvi

باغی میں آدمی سے نہ منکر خدا کا تھا

باغی میں آدمی سے نہ منکر خدا کا تھا
درپیش مسئلہ میری اپنی انا کا تھا

گُم سُم کھڑا تھا اک شجر دشتِ خوف میں
شاید وہ منتظر کسی آندھی ہوا کا تھا

اپنے دھوئیں کو چھوڑ گیا آسمان پر
بجھتے ہوئے دیئے میں غرور انتہا کا تھا

دیکھا تو وہ حسین لگا سارے شہر میں
سوچا تو وہ ذہین بھی ظالم بلا کا تھا

لہرا رہا تھا کل جو سرِ شاخ بے لباس
دامن کا تار تھا کہ وہ پرچم صبا کا تھا

اس کو غلاف روح میں رکھا سنبھال کر
محسن وہ زخم بھی تو کسی آشنا کا تھا

Leave a Comment

جنگ ٹھہری تھی میری گردش_تقدیر کے ساتھ

جنگ ٹھہری تھی میری گردش_تقدیر کے ساتھ
میں قفس میں بھی الجھتا رہا زنجیر کے ساتھ

اگر اس خواب کی تعبیر جدائی ہے تو پھر
ہم تو مر جائیں اس خواب کی تعبیر کے ساتھ

روح آباد کرو گئے تو بدن اجڑے گا
اک خرابی بھی جنم لیتی ہے تعبیر کے ساتھ

دل کے زخموں سے الجھتے ہیں بھٹک جاتے ہیں
لفظ ڈھلتے ہیں میرے شہر میں تاخیر کے ساتھ

ایسا قاتل ہے مسیحا کے با انداز جنوں
دل کو دل سے ملاتا ہے شمشیر کے ساتھ

آنکھ اب بھی برستا ہوا بادل ٹھہری
چاند اب کے بھی نظر آیا ہے تاخیر کے ساتھ

ہم جو نو وارد_ عقلیم سخن ہیں محسن
کبھی غالب کے مقلد تو کبھی میر کے ساتھ

Leave a Comment

ﺍﺏ ﺗﻮ ﺧﻮﺍﮬﺶ ﮬﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺯﺧﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﺍﺏ ﺗﻮ ﺧﻮﺍﮬﺶ ﮬﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺯﺧﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ
ﻟﻤﺤﮧ ﺑﮭﺮ ﮐﻮ ﮬﯽ ﺳﮩﯽ ، ﺍُﺳﮑﻮ ﺑﮭﻼ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺸﻦِ ﺷﺐ ﻗﺪﺭ ﮐﯽ ﺳﺎﻋﺖ ﺁﺋﯽ
ﺁﺝ ﮬﻢ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﺁﻭﺍﺭﮦ ﮬﻮﺍؤں ﮐﯽ ﺗﮭﮑﻦ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﯾﮟ
ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺸﺎﻥ ﺁﭖ ﻣﭩﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﺯﻧﺪﮔﯽ !! ﺍﺏ ﺗﺠﮭﮯ ﺳﻮﭼﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺩﻡ ﮔﮭﭩﺘﺎ ﮬﮯ
ﮬﻢ ﻧﮯ ﭼﺎﮬﺎ ﺗﮭﺎ ، ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﻭﻓﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮬﻤﯿﮟ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﮐﺌﯿﮯ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮬﮯ
ﺩﺳﺖِ ﻗﺎﺗﻞ !! ﺗﯿﺮﺍ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﺭﻭﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻮ ﮬﻤﺪﺭﺩ ﺑﮩﺖ ﮬﯿﮟ ﻣﺤﺴﻦ
ﮬﻨﺴﺘﮯ ﮬﻨﺴﺘﮯ ، ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺭُﻻ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

Leave a Comment

اے رَبِ جہاں، پنجتن پاک کے خالق

اے رَبِ جہاں، پنجتن پاک کے خالق
اِس قوم کا دامن غمِ شبیر سے بھر دے

بچوں کو عطا کر علی اصغرؑ کا تبسم
بوڑھوں کو حبیب ابنِ مظاہر کی نظر دے

کم سِن کو ملے ولولہ عونؑ و محمدؑ
ہر ایک جواں کو علی اکبر کا جگر دے

ماؤں کو سِکھا ثانیءِ زہراؑ کا سلیقہ
بہنوں کو سکینہؑ کی دعاؤں کا اثر دے

یارَب تجھے بیماری عابدؑ کی قسم ہے
بیمار کی راتوں کو شفایاب سحَر دے

مُفلس پہ زَرومال و جواہر کی ہو بارش
مقروض کا ہر قرض ادا غیب سے کر دے

پابندِ رَسن زینبؑ و کلثومؑ کا صدقہ
بے جُرم اسیروں کو رہائی کی خبر دے

جو مائیں بھی رُوتی ہیں بیادِ علی اصغرؑ
اُن ماؤں کی آغوش کو اولاد سے بھر دے

جو حق کے طرافدار ہوں وہ ہاتھ عطا کر
جو مجلسِ شبیرؑ کی خاطر ہو وہ گھر دے

قسمت کو فقط خاکِ شفا بخش دے مولاؑ
مَیں یہ نہیں کہتا کہ مجھے لعل و گُہر دے

آنکھوں کو دِکھا روضہءِ مظلوم کا منظر
قدموں کو نجف تک بھی کبھی اِذنِ سفر دے

جو چادرِ زینبؑ کی عزادار ہیں مولا
محفوظ رہیں ایسی خواتین کے پردے

غم کوئی نہ دے ہم کو سِوائے غمِ شبیرؑ
شبیرؑ کا غم بانٹ رہا ہے تو اِدھر دے

کب تک رہوں دُنیا میں یتیموں کی طرح
وارث مِرا پردے میں ہے، ظاہر اُسے کر دے

منظور ہے خوابوں میں ہی آقا کی زیارت
پرواز کی خواہش ہے نہ جبریل کے”پَر” دے

جس دَر کے سوالی ہیں فرشتے بھی بشر بھی
آوارہء منزل ہوں مجھے بھی وہی دَر دے

جو دین کے کام آئے وہ اَولاد عطا کر
جو کَٹ کے بھی اُونچا ہی نظر آئے وہ سَر دے

خیراتِ دَرِ شاہِؑ نجف چاہیے مجھ کو
سَلمان و ابوذر کی طرح کوئی ہنر دے

صحراؤں میں عابدؑ کی مُسافت کے صِلے میں
بھٹکے ہوئے رَہرو کو ثمردار شجر دے

سَر پر ہو سدا پرچمِ عباسؑ کا سایہ
محسن کی دُعا ختم ہے اَب اِس کا اثر دے

Leave a Comment

مغرور ہی سہی، مجھے اچھا بہت لگا

مغرور ہی سہی، مجھے اچھا بہت لگا
وہ اجنبی تو تھا مگر اپنا بہت لگا

روٹھا ہوا تھا ہنس تو پڑا مجھ کو دیکھ کر
مجھ کو تو اس قدر بھی دلاسا بہت لگا

صحرا میں جی رہا تھا جو دریا دلی کے ساتھ
دیکھا جو غور سے تو وہ پیاسا بہت لگا

وہ جس کے دم قدم سے تھیں بستی کی رونقیں
بستی اجڑ گئی تو اکیلا بہت لگا

لپٹا ہوا کہر میں ہو جیسے خزاں کا چاند
میلے لباس میں بھی وہ پیارا بہت لگا

ریشم پہن کے بھی مری قیمت نہ بڑھ سکی
کھدر بھی اس کے جسم پہ مہنگا بہت لگا

محسن جب آئینے پہ میری سانس جم گئی
مجھ کو خود اپنا عکس بھی دھندلا بہت لگا

( محسن نقوی )

Leave a Comment

اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا

اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا
دل کاعالم ہے__تیرے بعد خلاؤں جیسا

کیا قیامت ہے کہ دنیا اسے سردار کہے
جس کا اندازِ سخن بھی ہو گداؤں جیسا

کاش دنیا میرے احساس کوواپس کردے
خامشی کا وہی انداز_ صداؤں جیسا

پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا
اس کا اندازِ تغافل ہے خداؤں جیسا

پھر تیری یاد کے موسم نے جگاۓ محشر
پھر میرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا

بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسا محسن
اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا

محسن نقوی

Leave a Comment

ہم نے غزلوں میں تمہیں ایسے پکارا محسن

ہم نے غزلوں میں تمہیں ایسے پکارا محسن
جیسے تم ہو کوئی قسمت کا ستارا محسن
اب تو خود کو بھی نکھارا نہیں جاتا ہم سے
وہ بھی کیا دن تھے کہ تجھ کو بھی سنوارا محسن
اپنے خوابوں کو اندھیروں کے حوالے کر کے
ہم نے صدقہ تیری آنکھوں کا اتارا محسن
ہم کو معلوم ہے اب لوٹ کے آنا تیرا
نہیں ممکن یہ مگر پھر بھی خدارا محسن
ہم تو رخصت کی گھڑی کو بھی نہ سمجھے محسن
سانس دیتی رہی ہجرت کا اشارہ محسن
اس نے جب جب بھی مجھے دل سے پکارا محسن
میں نے تب تب یہ بتایا کے تمہارا محسن
لوگ صدیوں کے خطائوں پہ بھی خوش بستے ہیں
ہم کو لمحوں کی وفاؤں نے اجاڑا محسن
ہو گیا جب یہ یقین اب وہ نہیں آئے گا
آنسو اور غم نے دیا دل کو سہارا محسن
وہ تھا جب پاس تو جینے کو بھی دل کرتا تھا
اب تو پل بھر بھی نہیں ہوتا گزارا محسن
اسکو پانا تو مقدر کی لکیروں میں نہیں
اسکو کھونا بھی کریں کیسے گوارہ محسن

محسن نقوی

Leave a Comment

لوگوں کے لیے صاحبِ کردار بھی میں تھا

لوگوں کے لیے صاحبِ کردار بھی میں تھا
خوُد اپنی نگاہوں میں گُنہگار بھی میں تھا

کیوں اب مِرے مَنصب کی سلامی کو کھڑے ہو
یارو! کبھی رُسوا سرِ بازار بھی میں تھا

میں خوُد ہی چُھپا تھا کفِ قاتل کی شِکن میں
مقتوُل کی ٹوُٹی ہُوئی تلوار بھی میں تھا

میری ہی صدا لَوٹ کے آئی ہے مُجھی تک
شاید حدِ افلاک کے اُس پار بھی میں تھا

منزل پہ جو پہنچا ہُوں تو معلوم ہُوا ہے
خوُد اپنے لیے راہ کی دیوار بھی میں تھا

اب میرے تعارف سے گُریزاں ہے توُ، لیکن
کل تک تِری پہچان کا معیار بھی میں تھا

دیکھا تو میں اَفشا تھا ہر اِک ذہن پہ محسنؔ
سوچا تو پسِ پردہء اسرار بھی میں تھا

Leave a Comment

وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے

وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے
وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے

سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری
میرے دشمن مرے لفظوں کے بھکاری نکلے

اک جنازہ اٹھا مقتل میں عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے

ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے
ہم وہ پتھر ہیں جو ہر دور میں بھاری نکلے

عکس کوئی ہو خد و خال تمہارے دیکھوں
بزم کوئی ہو مگر بات تمہاری نکلے

اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا محسنؔ
میرے قاتل تو مرے اپنے حواری نکلے

Leave a Comment

ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﺳﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ

ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﺳﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﮐﺲ ﻗﺮﺽ ﮐﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﺍﺩﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﺗﮭﮏ ﮨﺎﺭ ﮐﮯ ﺁ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﮯ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﮧ ﺗﯿﺮﯼ
ﺩﯾﺪﺍﺭ ﮐﺎ ﻣﺤﺴﻦ ﮨﮯ ﮔﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟ ﯾﻮﺳﻒ ﺳﺎ ﺣﺴﯿﮟ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﯾﻌﻘﻮﺏ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﻮ ِﻧَﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﺁ ﻃﻮﺭ ﭘﮧ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺭﺍﺕ ﮨﮯ ﺑﺎﻗﯽ
ﺷﺎﯾﺪ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺧﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﺷﻤﻊ ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻣﺪ ﮐﻮ ﺟﻼﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺳﺮ ِﺷﺎﻡ
ﮨﻮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﭘﺮﻭﺍﻧﮯ ﻓﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﮐﭽﮫ ﻋﺎﻟﻢ ِﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯾﺎ ﺳﺎﺗﮫ
ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺭﮨﯿﮟ ﺳﯿﻼﺏ ﺯﺩﮦ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﻣﺤﺴﻦ ﮐﻮ ﺷﺐِ ﻭﺻﻞ ﻣﻼ ﺟﺎﻡ ﺑَﻤﺸﮑﻞ
ﮨﻮ ﭘﺎﺋﮯ ﻧﮧ ﭘﮭﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺟﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
(محسن نقوی)

Leave a Comment
%d bloggers like this: