Skip to content

باغی میں آدمی سے نہ منکر خدا کا تھا

باغی میں آدمی سے نہ منکر خدا کا تھا
درپیش مسئلہ میری اپنی انا کا تھا

گُم سُم کھڑا تھا اک شجر دشتِ خوف میں
شاید وہ منتظر کسی آندھی ہوا کا تھا

اپنے دھوئیں کو چھوڑ گیا آسمان پر
بجھتے ہوئے دیئے میں غرور انتہا کا تھا

دیکھا تو وہ حسین لگا سارے شہر میں
سوچا تو وہ ذہین بھی ظالم بلا کا تھا

لہرا رہا تھا کل جو سرِ شاخ بے لباس
دامن کا تار تھا کہ وہ پرچم صبا کا تھا

اس کو غلاف روح میں رکھا سنبھال کر
محسن وہ زخم بھی تو کسی آشنا کا تھا

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: