گرد ہے چاروں طرف ، قافلہ کوئی نہیں
فاصلوں کا شہر ہے ، راستہ کوئی نہیں
ہر مکیں ہے اجنبی ، ہر نظر نا آشنا
ہم سفر ہیں ہر قدم ، ہم نوا کوئی نہیں
دوست جس نے کہہ دیا ، کر لیا ہم نے یقیں
کیا کسی کے دل میں ہے ، جانتا کوئی نہیں
درد سب کا ایک ہے ، دوریاں, تنہائیاں
سائے اپنے سے یہاں ، واسطہ کوئی نہیں
اپنا اپنا ہے مرض ، اپنے اپنے گھاؤ ہیں
آپ کہئے شوق سے, سن رہا کوئی نہیں
سوچئے کیا لوگ ہیں ، کیا تعلق ہیں یہ اب
ہے مسلسل گفتگو ، رابطہ کوئی نہیں
مار دیتے جیتے جی ، چھوڑتے کچھ بھی نہیں
پھر بھی اپنوں سا حسیں عارضہ کوئی نہیں
ہر کوئی خود میں مگن ہر کوئی خود پر فدا
اپنے اپنے طور ہیں ضابطہ کوئی نہیں
اک تجسس رہ گیا ، بیچ میں رشتہ فقط
لاکھ دیواریں مگر ، تخلیہ کوئی نہیں
جانے میرے دور سے ، کیا ہوا ہے سانحہ
پیرہن تن پر نہیں ، برہنہ کوئی نہیں
ہے لگی کیسی نظر ، سوچئے اس شہر کو
ہر کوئی ہے سوگ میں ، حادثہ کوئی نہیں
لاکھ کچھ کر لیجئے ، بس میں لیکن کچھ نہیں
وقت جیسا آخری ، قہقہہ کوئی نہیں
آپ بھی ابرک ہوئے ، شہر جیسے اب مرے
آپ کو بھی زعم ہے ، آپ سا کوئی نہیں
اتباف ابرک
Leave a Comment