Skip to content

The Poet Place Posts

میں تو ہوں صرف قصہ خواں اس میں

میں تو ہوں صرف قصہ خواں اس میں
دنیا تیری ہے داستاں اس میں

چاہے کوئی بھی دل ٹٹولو تم
کوئی رہتا ہے نیم جاں اس میں

کٹ رہا ہے شجر شجر یہ چمن
کیسا غافل ہے باغباں اس میں

کبھی محفل تھی غم گساروں کی
آج رہتے ہیں بدگماں اس میں

خود جہاں دے گا آندھیوں کو خبر
تم بناﺅ تو آشیاں اس میں

ہر تعلق ہے ناو کاغذ کی
اور محبت ہے بادباں اس میں

گھر بناو تو احتیاط کرو
رہ نہ جائے فقط مکاں اس میں

تھے فسانے کی آنکھ میں آنسو
ذکر آیا مرا جہاں اس میں

مل گئی تو گذار لی ہم نے
یوں جیا جاتا ہے کہاں اس میں

گو کہ ساکت ہے زندگی میری
درد رکھّا گیا رواں اس میں

شکوہ ہے تو حیات سے اتنا
جا رہا ہوں میں رایگاں اس میں

یہ زمانہ ہے آئنہ ، ابرک
ڈھونڈتا کیا ہے خوبیاں اس میں

Leave a Comment

ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی

ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی
جذبات میں وہ پہلی سی شدت نہیں رہی

ضعف قویٰ نے آمد پیری کی دی نوید
وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی

سر میں وہ انتظار کا سودا نہیں رہا
دل پر وہ دھڑکنوں کی حکومت نہیں رہی

کمزوریٔ نگاہ نے سنجیدہ کر دیا
جلووں سے چھیڑ چھاڑ کی عادت نہیں رہی

ہاتھوں سے انتقام لیا ارتعاش نے
دامان یار سے کوئی نسبت نہیں رہی

پیہم طواف کوچۂ جاناں کے دن گئے
پیروں میں چلنے پھرنے کی طاقت نہیں رہی

چہرے کو جھریوں نے بھیانک بنا دیا
آئینہ دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی

اللہ جانے موت کہاں مر گئی خمارؔ
اب مجھ کو زندگی کی ضرورت نہیں رہی

Leave a Comment

زخمِ دل پُربہار دیکھا ہے

زخمِ دل پُربہار دیکھا ہے
کیا عجب لالہ زار دیکھا ہے

جن کے دامن میں‌ کچھ نہیں ہوتا
اُن کے سینوں میں پیار دیکھا ہے

خاک اُڑتی ہے تیری گلیوں میں‌
زندگی کا وقار دیکھا ہے

تشنگی ہے صدف کے ہونٹوں پر
گُل کا سینہ فِگار دیکھا ہے

ساقیا! اہتمامِ بادہ کر
وقت کو سوگوار دیکھا ہے

جذبۂ غم کی ، خیر ہو ساغر
حسرتوں پر نِکھار دیکھا ہے

Leave a Comment

خطا مُعاف یہ کُچھ اور ہے حیاء تو نہیں

خطا مُعاف یہ کُچھ اور ہے حیاء تو نہیں
کہِیں یہ ترکِ تعلق کی ابتدا تو نہیں

یہ بات الگ ہے کہ آنکھوں کے بند ٹوٹ گئے
مگر زباں سے کبھی ہم نے کُچھ کہا تو نہیں

خطا تو جب ہو کہ ہم عرضِ مدعا بھی کریں
کسی کو چاہتے رہنا کوئی خطا تو نہیں

نصیب کیسے بدل دے کوئی سفینے کا
جو نا خُدا ہے وہ سب کُچھ سہی خُدا تو نہیں

جو بات دل میں ہے بے خوف کیوں نہیں کہتے
زبان و قلب میں کُچھ ایسا فاصلہ تو نہیں

شیوخِ شہر کو تم دیکھ کر پلٹ آئے
کسی سے پُوچھ تو لیتے وہ میکدہ تو نہیں

نہ جانے قافلے والے خفا ہیں کیوں مجھ سے
میں صرف ایک مسافر ہوں رہنما تو نہیں

قدم اٹھے ہیں تو منزل بھی مِل ہی جائے گی
میں بے بسر سہی لیکن شکستہ پا تو نہیں

حُضور آپ نے اقبال کو غلط سمجھا
وہ پارسا ہے مگر آدمی بُرا تو نہیں

Leave a Comment

میرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے

میرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں ترا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے

نہ میری نعت کی محتاج ذات ہے تری
نہ تری مدح ہے ممکن ترے خیالوں سے

تُو روشنی کا پیمبر ہے اور میری تاریخ
بھری پڑی ہے شبِ ظلم کی مثالوں سے

ترا پیام محبت تھا اور میرے یہاں
دل و دماغ ہیں پُر نفرتوں کے جالوں سے

یہ افتخار ہے ترا کہ میرے عرش مقام
تُو ہمکلام رہا ہے زمین والوں سے

مگر یہ مفتی یہ واعظ یہ محتسب یہ فقیہہ
جو معتبر ہیں فقط مصلحت کی چالوں سے

خدا کے نام کو بیچیں مگر خدا نہ کرے
اثر پذیر ہوں خلقِ خدا کے نالوں سے

ہے تُرش رو میری باتوں سے صاحبِ منبر
خطیبِ شہر ہے برہم میرے سوالوں سے

میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے

میں بے بساط سا شاعر ہُوں پر کرم ترا
کہ باشرف ہُوں قبا و کلاہ والوں سے

Leave a Comment

آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا

آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ، ایک شام میں کتنا بدل گیا

کُچھ دن تو میرا عکس رھا ، آئینے پہ نقش
پھر یوں ھُوا ، کہ خُود میرا چہرا بدل گیا

جب اپنے اپنے حال پہ ، ھم تم نہ رہ سکے
تو کیا ھُوا ، جو ھم سے زمانہ بدل گیا ؟؟

قدموں تلے جو ریت بچھی تھی ، وہ چل پڑی
اُس نے چھڑایا ھاتھ تو ، صحرا بدل گیا

کوئی بھی چیز ، اپنی جگہ پر نہیں رھی
جاتے ھی ایک شخص کے ، کیا کیا بدل گیا

اِک سر خوشی کی موج نے ، کیسا کیا کمال
وہ بے نیاز ، سارے کا سارا بدل گیا

اُٹھ کر چلا گیا ، کوئی وقفے کے درمیاں
پردہ اُٹھا ، تو سارا تماشا بدل گیا

حیرت سے سارے لفظ اُسے دیکھتے رھے
باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا

کہنے کو ایک صحن میں ، دیوار ھی بنی
گھر کی فضا ، مکان کو نقشہ بدل گیا

شاید وفا کے کھیل سے ، اُکتا گیا تھا وہ
منزل کے پاس آ کے ، جو رستہ بدل گیا

قائم کسی بھی حال پہ ، دُنیا نہیں رھی
تعبیرکھو گئی ، کبھی سَپنا بدل گیا

منظر کا رنگ اصل میں سایا تھا رنگ کا
جس نے اُسے جدھر سے بھی دیکھا بدل گیا

اندر کے موسموں کی خبر اُس کو ھو گئی
اُس نو بہارِ ناز کا چہرا بدل گیا

آنکھوں میں جتنے اشک تھے ، جگنو سے بن گئے
وہ مُسکرایا ، اور میری دُنیا بدل گیا

اپنی گلی میں اپنا ھی گھر ڈھونڈتے ھیں لوگ
امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا ؟؟

امجد اسلام امجد

Leave a Comment

بام و در و دریچہ و دہلیز و دار عشق

بام و در و دریچہ و دہلیز و دار عشق
ہر چیز پہ ہے سایہ فگن بے مہار عشق

کاسہ ، کڑا ، کلائی ، کرامت ، کشادگی
اک اک سے ہو رہا ہے عیاں بار بار عشق

کاغذ ، قلم ، حروف ، قرینے ، بیانیے
اظہار میں یوں لاتا ہے کیسا نکھار عشق

کھلتی نہیں کسی پہ بھی اس کی حقیقتیں
گاہے طرب شناس گہے غم گسارعشق

اک میں ہی اس کی آنچ میں تنہا نہیں جلا
کرتا ہے کائنات کا سینہ فگار عشق

دنیا کے واسطے ہے فقط بے ہنر سی شے
اور اہلِ درد کے لیے صدیوں کا بار عشق

رکھتا ہے ایک سمت لہو کو نچوڑ کر
اور اک طرف خزاں میں بھی لائے بہار عشق

ہے عشق آستاں پہ دھرا موتیے کا پھول
اور راہِ اعتبار میں اڑتا غبار عشق

عشق اس کے انتظار میں جلتی دیے کی لو
آنکھوں سے جھانکتا ہوا ساراخمار عشق

Leave a Comment

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے پر نام تھا بھلا سا

ابرو کھنچے کھنچے سے آنکھيں جھکی جھکی سی
باتيں رکی رکی سی لہجہ تھکا تھکا سا

الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں تھے
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ سا

خوابوں ميں خواب اُسکے يادوں ميں ياد اُسکی
نيندوں ميں گھل گيا ہو جيسے رَتجگا سا

پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی ميں
وہ ہر طرح سے ليکن اوروں سے تھا جدا سا

اگلی محبتوں نے وہ نا مرادياں ديں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا

کچھ يہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہيں تھے روئے
کچھ زہر ميں بُجھا تھا احباب کا دلاسا

پھر يوں ہوا کے ساون آنکھوں ميں آ بسے تھے
پھر يوں ہوا کہ جيسے دل بھی تھا آبلہ سا

اب سچ کہيں تو يارو ہم کو خبر نہيں تھی
بن جائے گا قيامت اک واقع ذرا سا

تيور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا ليکن لگتا تھا آشنا سا

ہم دشت تھے کہ دريا ہم زہر تھے کہ امرت
ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہيں تھا پياسا

ہم نے بھی اُس کو ديکھا کل شام اتفاقا
اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا

احمد فراز

Leave a Comment

کہنے کو میرا اُس سے کوئی واسطہ نہیں

کہنے کو میرا اُس سے کوئی واسطہ نہیں
امجد مگر وہ شخص مجھے بُھولتا نہیں

ڈرتا ہُوں آنکھ کھولوں تو منظر بدل نہ جائے
مَیں جاگ تو رہا ہُوں مگر جاگتا نہیں

آشفتگی سے اُس کی اُسے بے وفا نہ جان
عادت کی بات اور ہے دِل کا بُرا نہیں

صاحبِ نظر سے کرتا ہے پتّھر بھی گُفتگو
ناجنس کے حضور زباں کھولتا نہیں

تنہا اُداس چاند کو سمجھو نہ بےخبر
ہر بات سُن رہا ہے مگر بولتا نہیں

خاموش رتجگوں کا دُھواں تھا چہار سُو
نِکلا کب آفتاب مُجھے تو پتا نہیں

امجد وہ آنکھیں جھیل سی گہری تو ہیں مگر
اُن میں کوئی بھی عکس مِرے نام کا نہیں

امجد اسلام امجد

Leave a Comment

یہ معجزہ بھی محبّت کبھی دِکھائے مجھے

یہ معجزہ بھی محبّت کبھی دِکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گِرے اور زخم آئے مجھے

میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہُوں سائے کو
بدن مِرا ہی سہی، دوپہر نہ بھائے مجھے

بَرنگِ عَود مِلے گی اُسے مِری خوشبُو
وہ جب بھی چاہے، بڑے شوق سے جَلائے مجھے

میں گھر سے، تیری تمنّا پہن کے جب نِکلوں
برہنہ شہر میں ‌کوئی نظر نہ آئے مجھے

وہی تو سب سے زیادہ ہے نُکتہ چِیں میرا
جو مُسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے

میں اپنے دِل سے نِکالوں خیال کِس کِس کا
جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے

زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا
گُزار کر تِری زُلفوں کے سائے سائے مجھے

وہ میرا دوست ہے، سارے جہاں‌ کو ہے معلوُم
دَغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے

وہ مہْرباں ہے، تو اِقرار کیوں نہیں کرتا
وہ بدگُماں ہے، تو سو بار آزمائے مجھے

میں اپنی ذات میں نِیلام ہو رہا ہُوں، قتِیل
غمِ حیات سے کہہ دو خرِید لائے مجھے

قتِیل شِفائی

Leave a Comment
%d bloggers like this: