Skip to content

The Poet Place Posts

ﮐﭽﮭﮧ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﮐﭽﮭﮧ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ
ﮐﭽﮭﮧ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﭘﺮﺍﺳﺮﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﮨﮯ ﮐﻮﻥ ﺍﺗﺮﺗﺎ ﮨﮯ ؟ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﺎﻧﺪ
ﮐﮩﻨﮯ ﮐﻮ ﺗﻮ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺲ ﺩﯾﻮﺍﺭ .. ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻠﮕﺘﮯ ﮨﻮﮰ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﭘﮧ ﻣﺖ ﺟﺎ
ﭘﻠﮑﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﺮﮮ ﺑﮭﯿﮕﺘﮯ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﯾﮧ ﺩﮬﻮﭖ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺵ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﯽ ﺷﺮﺍﺭﺕ
ﺳﺎﺋﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﻢ ﮨﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺷﺠﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﺑﮯ ﺣﺮﻑ ﻃﻠﺐ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ
ﻭﮦ ﯾﻮﮞ ﮐﮧ ﺳﻮﺍﻟﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺧﻮﺩ ﺩﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﺗﻢ ﻣﻨﺼﻒ ﻭ ﻋﺎﺩﻝ ﮨﯽ ﺳﮩﯽ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ
ﮐﯿﻮﮞ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﭼﮭﯿﻨﭩﮯ ﺳﺮ ﺩﺳﺘﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﺍﮮ ﮨﺠﺮ ﮐﯽ ﺑﺴﺘﯽ ﺗﻮ ﺳﻼﻣﺖ ﺭﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ
ﺳﻨﺴﺎﻥ ﺗﯿﺮﮮ ﮐﻮﭼﮧ ﻭ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﻣﺤﺴﻦ ﮨﻤﯿﮟ ﺿﺪ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺑﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ
ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﻏﺎﻟﺐ ﮐﮯ ﻃﺮﻓﺪﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

Leave a Comment

پہلا سا حال، پہلی سی وحشت نہیں رہی

پہلا سا حال، پہلی سی وحشت نہیں رہی
شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی

شہروں میں ایک شہر مرے رَت جگوں کا شہر
کوچے تو کیا دِلوں ہی میں وسعت نہیں رہی

لوگوں میں میرے لوگ وہ دل داریوں کے لوگ
بچھڑے تو دُور دُور رقابت نہیں رہی

شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام
اب نیم وَا دریچوں کی حسرت نہیں رہی

راتوں میں ایک رات مِرے گھر کی چاند رات
آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی

راہوں میں ایک راہ وہ گھر لَوٹنے کی راہ
ٹھہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی

یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی یاد
وہ یاد اب کہاں ہے کہ فرصت نہیں رہی

ناموں میں ایک نام سوال آشنا کا نام
اب دل پہ ایسی کوئی عبارت نہیں رہی

خوابوں میں ایک خواب تری ہمرَہی کا خواب
اب تجھ کو دیکھنے کی بھی صورت نہیں رہی

رنگوں میں ایک رنگ تری سادگی کا رنگ
ایسی ہَوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی

باتوں میں ایک بات تیری چاہتوں کی بات
اور اب یہ اِتّفاق کہ چاہت نہیں رہی

یاروں میں ایک یار وہ عیّاریوں کا یار
مِلنا نہیں رہا تو شکایت نہیں رہی

فصلوں میں ایک فصل وہ جاندادگی کی فصل
بادل کو یاں زمین سے رغبت نہیں رہی

زخموں میں ایک زخم متاعِ ہنر کا زخم
اب کوئی آرزوئے جراحت نہیں رہی

سنّاٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیرؔ
آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی

Leave a Comment

کسی تصویر میں رنگوں سے ابھارے نہ گئے

کسی تصویر میں رنگوں سے ابھارے نہ گئے
تیرے چہرے کے دل آویز گلابی ہالے
میرے الفاظ کا ترشا ہوا سنگِ مرمر
کون سے بت میں تیرے جسم جواں کو ڈھالے

تیری نوخیز جوانی کے کنوارے موتی
جگمگاتے رہے وجدان کے آئینے میں
بن گئے رشک چمن لالہ و نرگس کی طرح
داغ اور زخم تھے جتنے بھی میرے سینے میں

تیری خوشبو سے مہکنے لگا گلشن گلشن
ڈالیاں پھولوں کی جھک کر تجھے کہتی ہیں سلام
گردشِ وقت رک جاتی ہے توبہ توبہ
میں نے دیکھا ہی نہیں تجھ سا کوئی آہستہ خرام

یہ تیرا پیکر صد رنگ یہ تیرا آہنگ جمال
دیکھ کر تجھ کو خیال آتے ہیں کیسے کیسے
تیرا چہرہ ہے کہ تخلیق مہ و مہر کا راز
تیری آنکھیں ہیں کہ اسرار دو عالم جیسے

تیری صورت تیری معصوم و مقدس صورت
میری ہر سوچ کے آئینے میں لہراتی ہے
ہائے وہ شعر کہ موزوں نہ ہوا جو تا عمر
تو اسی شعر کی تعریف بنی جاتی ہے

Leave a Comment

زندگی ہے مختلف جذبوں کی ہمواری کا نام

زندگی ہے مختلف جذبوں کی ہمواری کا نام
آدمی ہے شلجم اور گاجر کی ترکاری کا نام

اُس نے کی پہلے پہل پیمائشِ صحرائے نجد
قیس ہے دراصل اِک مشہور پٹواری کا نام

عشق ہر جائی بھی ہو تو درد کم ہوتا نہیں
اک ذرا تبدیل ہو جاتا ہے بیماری کا نام

کوئی نصب العین ، کوئی عشق کوئی چاندنی ؟
زندگی ہے ورنہ اک مصرُوف بیکاری کا نام

مدتوں دُزدیدہ ، دُزدیدہ نظر سے دیکھنا
عشق بھی ہے اک طرح کی چور بازاری کا نام

مَیں نے تو اپنے لئے آوارگی تجویز کی
تم نے کیا رکھا ہے اپنی خود گرفتاری کا نام

بات تو جب ہے بدل جائے سرشت انسان کی
یُوں تو لکھ دینے کو لکھ دو اُونٹ پر لاری کا نام

دل ہو یا دلیہ ہو ، دانائی کہ بالائی ضمیر
زندگی ہے بعض اشیاء کی خریداری کا نام

Leave a Comment

شکر خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے

بیٹھا ہوں رخت باندھ کے ، ساعت سحر کی ہے
رونق عجیب شہرِ بریلی میں گھر کی ہے
سب آکے پوچھتے ہیں عزیمت کدھر کی ہے
شکرِ خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے

شوط و طواف و سعی کے نکتے سکھا دئیے
احرام و حلق و قصر کے معنٰی بتا دئیے
رمی و وقوف و نحر کے منظر دکھا دئیے
اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دئیے
اصلِ مراد حاضری اس پاک در کی ہے

صوم و صلوۃ ہیں کہ سجود و رکوع ہیں
ہر چند شرع میں یہ اہم الوقوع ہیں
حبِ نبی نہ ہو تو یہ سب لا نفوع ہیں
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

جاں وار دوں یہ کام جو میرا صبا کرے
بعد از سلامِ شوق یہ پیش التجا کرے
کہتا ہے اک غلام کسی شب خدا کرے
ماہِ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے

سب جوہروں میں اصل ترا جوہرِ غنا
اس دھوم کا سبب ہے تری چشمِ اعتنا
ممنون تیرے دونوں ہیں ، بانی ہو یا بِنا
ہوتے کہاں خلیل و بِنا کعبہ و مِنٰی
لولاک والے ! صاحبی سب تیرے گھر کی ہے

سر پر سجا کے حمد و ثنا کی گھڑولیاں
وہ عاشقوں کی بھیڑ ، وہ لہجے ، وہ بولیاں
جالی کے سامنے وہ فقیروں کی ٹولیاں
لب وا ہیں ، آنکھیں بند ہیں ، پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے

ہے دفترِ نسب میں یہ عزت لکھی ہوئی
قرطاسِ وقت پر ہے یہ خدمت لکھی ہوئی
پُشتوں سے گھر میں ہے یہ عبارت لکھی ہوئی
میں خانہ زادِ کہنہ ہوں ، صورت لکھی ہوئی
بندوں‌کنیزوں میں مرے مادر پدر کی ہے

ہر لمحہ آشنائے تب و تاب ہوگی آب
دنیائے آبرو میں دُرِ ناب ہوگی آب
ان کا کرم رہا تو نہ بے آب ہوگی آب
دنداں کا نعت خواں ہوں ، نہ پایاب ہوگی آب
ندی گلے گلے مرے آبِ گہر کی ہے

دم گُھٹ رہا تھا محبسِ قالب میں بے ہوا
تھا ملتجی نصیر کہ یارب چلے ہوا
اتنے میں‌ دی سروش نے آواز ، لے ہوا
سنکی وہ دیکھ ! بادِ شفاعت کہ دے ہوا
یہ آبرو رضا ترے دامانِ تر کی ہے

Leave a Comment

وصفِ رخ اُن کا کیا کرتے ہیں شرحِ والشمس و ضحیٰ کرتے ہیں

وصفِ رخ اُن کا کیا کرتے ہیں شرحِ والشمس و ضحیٰ کرتے ہیں
اُن کی ہم مدح وثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں

ماہِ شق گشتہ کی صورت دیکھو کانپ کر مہر کی رجعت دیکھو
مصطفیٰ پیارے کی قدرت دیکھو کیسے اعجاز ہوا کرتے ہیں

تو ہے خورشیدِ رسالت پیارے چھپ گئے تیری ضیا میں تارے
انبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں

اے بلا بے خِرَدِیِّ کفّار رکھتے ہیں ایسے کے حق میں انکار
کہ گواہی ہو گر اُس کو درکار بے زباں بول اٹھا کرتے ہیں

اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیم
سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں

رفعتِ ذکر ہے تیرا حصّہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا
مرغِ فردوس پس از حمدِ خدا تیری ہی مدح و ثنا کرتے ہیں

انگلیاں پائیں وہ پیاری پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاری
جوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں

ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد
اسی در پر شترانِ ناشاد گلۂ رنج و عنا کرتے ہیں

آستیں رحمتِ عالم الٹے کمرِ پاک پہ دامن باندھے
گرنے والوں کو چہِ دوزخ سے صاف الگ کھینچ لیا کرتے ہیں

جب صبا آتی ہے طیبہ سے اِدھر کھلکھلا پڑتی ہیں کلیاں یکسر
پھول جامہ سے نکل کر باہر رُخِ رنگیں کی ثنا کرتے ہیں

تو ہے وہ بادشہِ کون و مکاں کہ مَلک ہفت فلک کے ہر آں
تیرے مولیٰ سے شہِ عرش ایواں تیری دولت کی دعا کرتے ہیں

جس کے جلوے سے اُحُد ہے تاباں معدنِ نور ہے اس کا داماں
ہم بھی اس چاند پہ ہو کر قرباں دلِ سنگیں کی جِلا کرتے ہیں

کیوں نہ زیبا ہو تجھے تاج وَری تیرے ہی دَم کی ہے سب جلوہ گری
مَلک و جنّ و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں

ٹوٹ پڑتی ہیں بلائیں جن پر جن کو ملتا نہیں کوئی یاور
ہر طرف سے وہ پُر ارماں پھر کر اُن کے دامن میں چھپاکرتے ہیں

لب پر آجاتا ہے جب نام جناب منھ میں گھل جاتا ہے شہدِ نایاب
وَجْد میں ہوکے ہم اے جاں بے تاب اپنے لب چوم لیا کرتے ہیں

لب پہ کس منھ سے غمِ الفت لائیں کیا بلا دل ہے الم جس کا سنائیں
ہم تو ان کے کفِ پا پر مٹ جائیں اُن کے در پر جو مٹا کرتے ہیں

اپنے دل کا ہے انھیں سے آرام سونپے ہیں اپنے انھیں کو سب کام
لو لگی ہے کہ اب اس در کے غلام چارۂ دردِ رؔضا کرتے ہیں

Leave a Comment

ازل سے ایک ہجر کا اسیر ہے،اخیر ہے

ازل سے ایک ہجر کا اسیر ہے،اخیر ہے
یہ دل بھی کیا لکیر کا فقیر ہے،اخیر ہے

ہمارے ساتھ حادثہ بھی دفعتا” نہیں ہوا
جو ہاتھ میں نصیب کی لکیر ہے،اخیر ہے

ہمارے قتل پر ہمیں ہی دوش دے رہے ہیں آپ
جناب من جو آپ کا ضمیر ہے،اخیر ہے

اسی طرف بھڑک رہی ہے آگ زور شور سے
اسی طرف ہی روشنی کثیر ہے، اخیر ہے

اسی لیے اسیر ہوں میں سر زمینِ جھنگ کا
سنا ہے میں نے جھنگ کی جو ہیر ہے،اخیر ہے

ہرا رہے گا عمر بھر جو زخم آپ سے ملا
جناب کی کمان میں جو تیر ہے،اخیر ہے

بہار نے کیا بھی تو خزاؤں کا بھلا کیا
یہ زندگی بھی موت کی سفیر ہے،اخیر ہے

چھڑی ہے میر کی غزل سجی ہے بزمِ مے کشاں
بنا ہوا ہے جو سماں اخیر ہے،اخیر ہے

قریب ہے دلِ حزیں پہ شعر کا نزول ہو
کہ رو برو جو حسنِ دلپذیر ہے،اخیر ہے

Leave a Comment

مرے ہم نفس، مرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے

مرے ہم نفس، مرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں دردِ عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دُعا نہ دے

میں غمِ جہاں سے نڈھال ہوں کہ سراپا حزن و ملال ہوں
جو لکھے ہیں میرے نصیب میں وہ الم کسی کو خُدا نہ دے

نہ یہ زندگی مری زندگی، نہ یہ داستاں مری داستاں
میں خیال و وہم سے دور ہوں، مجھے آج کوئی صدا نہ دے

مرے گھر سے دور ہیں راحتیں، مجھے ڈھونڈتی ہیں مصیبتیں
مجھ خوف یہ کہ مرا پتہ کوئی گردشوں کو بتا نہ دے

مجھے چھوڑ دے مرے حال پر، ترا کیا بھروسہ اے چارہ گر
یہ تری نوازشِ مختصر ، مرا درد اور بڑھا نہ دے

مرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گُل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے

درِ یار پہ بڑی دھوم ہے ، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ابھی نیند آئی ہے حُسن کو کوئی شور کر کے جگا نہ دے

مرے داغِ دل سے ہے روشنی یہی روشنی مری زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تُو ہی بُجھا نہ دے

وہ اُٹھے ہیں لے کے خم و سبو، ارے اے شکیل کہاں ہے تُو
ترا جام لینے کو بزم میں ، کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے

شکیل بدایونی

Leave a Comment

حاکم تھا جسم ، جس کی رعیت میں کاٹ دی

حاکم تھا جسم ، جس کی رعیت میں کاٹ دی
اک عمر ہم نے اپنی معیت میں کاٹ دی

جس کال کی برس ہا برس سے تھی منتظر
وہ اپنی جلد باز طبیعت میں کاٹ دی

اپنی نہیں چلائیں کبھی خود پہ مرضیاں
بس زندگی خدا کی مشئیت میں کاٹ دی

اس بدگمان شخص کی پہلے پہل سنی
جب بات بڑھ گئی تو اذیت میں کاٹ دی

سوچا کہ میرا کون ہے جس کے لیے لکھوں ؟
تحریر جو لکھی تھی وصیت میں ، کاٹ دی

نیت پہ انحصار تھا اعمال کا سو ، عمر
ہم نے ترے حصول کی نیت میں کاٹ دی

کومل جوئیہ

Leave a Comment

جستجو میں تیری پھرتا ہوں نجانے کب سے؟

جستجو میں تیری پھرتا ہوں نجانے کب سے؟
آبلہ پا ہیں مرے ساتھ زمانے- کب سے

میں کہ قسمت کی لکیریں بھی پڑھا کرتا تھا
کوئی آیا ہی نہیں ہاتھ دکھانے کب سے

نعمتیں ہیں نہ عذابوں کا تسلسل اب تو
مجھ سے رُخ پھیر لیا میرے خدا نے کب سے

جان چھٹرکتے تھے کبھی خود سے غزالاں جن پر
بھول بیٹھے ہیں شکاری وہ نشانے کب سے

وہ تو جنگل سے ہواؤں کو چُرا لاتا تھا
اُس نے سیکھے ہیں دیے گھر میں جلانے کب سے؟

شہر میں پرورشِ رسمِ جنوں کون کرے؟
یوں بھی جنگل میں یاروں کے ٹھکانے کب سے؟

آنکھ رونے کو ترستی ہے تو دل زخموں کو
کوئی آیا ہی نہیں احسان جتانے کب سے

جن کے صدقے میں بسا کرتے تھے اُجڑے ہوئے لوگ
لُٹ گئے ہیں سرِ صحرا وہ گھرانے کب سے

لوگ بے خوف گریباں کو کُھلا رکھتے ہیں
تِیر چھوڑا ہی نہیں دستِ قضا نے کب سے

جانے کب ٹوٹ کے برسے گی ملامت کی گھٹا؟
سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں دِوانے کب سے

جن کو آتا تھا کبھی حشر جگانا محسن
بختِ خفتہ کو نہ آئے وہ جگانے کب سے

محسن نقوی

Leave a Comment
%d bloggers like this: