حرف حرف رٹ کر بھی آگہی نہیں ملتی
آگ نام رکھنے سے روشنی نہیں ملتی
آدمی سے انساں تک آؤ گے تو سمجھو گے
کیوں چراغ کے نیچے روشنی نہیں ملتی
Collection Of Your Favorite Poets
حرف حرف رٹ کر بھی آگہی نہیں ملتی
آگ نام رکھنے سے روشنی نہیں ملتی
آدمی سے انساں تک آؤ گے تو سمجھو گے
کیوں چراغ کے نیچے روشنی نہیں ملتی
قلم کو بابِ تمنا پہ دَھر کے دیکھتے ہیں
خُمِ فراز سے اِک جام بھر کے دیکھتے ہیں
حیا کی برق دَرخشاں ہے شوخ آنکھوں میں
جواہرات کرشمے گہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دِیویاں اُس کی کنیزِ اَدنیٰ ہیں
خزینے پاؤں تلے خشک و تر کے دیکھتے ہیں
جو اُس کی ظاہری معصومیت پہ واریں دِل
تمام عمر ، ضرر ، بے ضرر کے دیکھتے ہیں
وُہ جس پہ مرتا ہے آخر وُہ چیز کیا ہو گا
ہم اُس کے دِل میں کسی دِن اُتر کے دیکھتے ہیں
وُہ خواب ہے کہ فُسوں ، جن ، پری کہ جانِ جُنوں
سب اُس کے حُسن کو تھوڑا سا ڈَر کے دیکھتے ہیں
جلالِ حُسن پہ حیرت سے دَنگ اِہلِ سُخن
قلم زَمین پہ اِہلِ نظر کے دیکھتے ہیں
ہمیشہ زُعم سے اُس پر غزل شروع کی قیس
ہمیشہ بے بسی پہ ختم کر کے دیکھتے ہیں
خود سے ملتی نہیں نجات ہمیں
قید رکھتی ہیں خواہشات ہمیں
میں نے مانگی سکون کی چادر
رنج بولے کہ بیٹھ، کات ہمیں
کچھ تو عادت ھے بے یقینی کی
اور کچھ ہیں تحیرات ہمیں
اس تعلق کا سچ قبول کیا
جوڑتی ہیں ضروریات ہمیں
یونہی جھگڑا طویل ہوتا گیا
سُوجھتی جا رہی تھی بات ہمیں
مجھے التفات سے باز رکھ مجھے زندگی کی سزا نہ دے
یہ نوازشات کا سلسلہ، مِرا درد اور بڑھا نہ دے
کبھی رنگ روپ بدل لیا، کبھی خود کو خود سے چھپا لیا
کہ جہانِ حرص وہَوس کہیں کوئی تازہ زخم لگا نہ دے
یہ ھے میری خواہشِ معتبر مجھے گھر کے کونے میں دفن کر
مجھے گھر کے کونے میں دفن کر مجھے بےگھری کی سزا نہ دے
ذرا ہاتھ رکھ مرے ہاتھ پر، ذرا غور کر مری بات پر
ترے ہجر کی یہ تپش کہیں مری خواہشوں کو مٹا نہ دے
ابھی صبر کر ابھی صبر کر، کسی فیصلے سے گریز کر
تری گھر بسانے کی آرزو یہ مکان تیرا جلا نہ دے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
فیض احمد فیض
Leave a Commentاب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا
دل کاعالم ہے__تیرے بعد خلاؤں جیسا
کیا قیامت ہے کہ دنیا اسے سردار کہے
جس کا اندازِ سخن بھی ہو گداؤں جیسا
کاش دنیا میرے احساس کوواپس کردے
خامشی کا وہی انداز_ صداؤں جیسا
پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا
اس کا اندازِ تغافل ہے خداؤں جیسا
پھر تیری یاد کے موسم نے جگاۓ محشر
پھر میرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا
بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسا محسن
اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا
محسن نقوی
Leave a Commentاس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
ہجر کی رات بام پر ماہ تمام رکھ دیا
آمد دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی
میں نے بھی اک چراغ سا دل سر شام رکھ دیا
شدت تشنگی میں بھی غیرت مے کشی رہی
اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا
اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا
دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حساب جاں بر سر عام رکھ دیا
اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس
کبک دری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا
جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوش یار تھا
اس نے تو سارے شہر کو کر کے غلام رکھ دیا
اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
مرے دل نے جھٹکے اٹھائے ہیں کتنے یہ تم اپنی زلفوں کے بالوں سے پوچھو
کلیجے کی چوٹوں کو میں کیا بتاؤں یہ چھاتی پہ لہرانے والوں سے پوچھو
مضطر خیرآبادی
Leave a Commentوہ اتنے نازک ہیں
رُکو تو تم کو بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی اَکیلے اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کہا طبیب نے ، گر رَنگ گورا رَکھنا ہے
تو چاندنی سے بچائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ نیند کے لیے شبنم کی قرص بھی صاحب
کلی سے پوچھ کے کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بدن کو دیکھ لیں بادَل تو غسل ہو جائے
دَھنک سے خشک کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
ہَوائی بوسہ دِیا پھول نے ، بنا ڈِمپل
اُجالے ، جسم دَبائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جلا کے ’’شمع‘‘ وُہ جب ’’غُسلِ آفتاب‘‘ کریں
کریم رُخ پہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ دو قدم چلیں پانی پہ ، دیکھ کر چھالے
گھٹائیں گود اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ بادَلوں پہ کمر ’’سیدھی‘‘ رَکھنے کو سوئیں
کرن کا تکیہ بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو ایک دانے پہ چاوَل کے لکھتے ہیں ناوَل
سنگھار اُن سے کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
سیاہی شب کی ہے چشمِ غزال کو سُرمہ
حیا کا غازہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
لگائیں خوشبو تو ہو جاتا ہے وَزَن دُگنا
قدم گھسیٹ نہ پائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
سنا ہے پنکھڑی سے رات کان میں پوچھا
یہ جلد کیسے بچائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
گلے میں شبنمی مالا ، کلائی پر تتلی
ہنسی لبوں پہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو اُن کے سائے کے پاؤں پہ پاؤں آ جائے
تو ڈاکٹر کو دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
متاعِ ناز کے ناخن تراشنے ہوں اَگر
کلوروفام سنگھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو پوچھا دُنیا کی نازُک ترین شے کیا ہے
تو ہنس کے سر کو جھکائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
لباس پنکھڑی کی اِک پَرَت سے بن جائے
کلی سے جوتے بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
شمیض کی جگہ عرقِ گلاب پہنا ہے
پھر اُس پہ دُھند لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
قمیض کے لیے شبنم میں پنکھڑی دُھو کر
بدن پہ رَکھ کے دَبائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
لباس اُتاریں جو کلیوں کا وُہ بنے فیشن
گلاب دام چکائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
پراندہ ، چُوڑیاں ، جھمکے ، اَنگوٹھی ، ہار ، گھڑی
اِنہیں تو بھول ہی جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ زیورات کی تصویر ساتھ رَکھتے ہیں
یا گھر بلا کے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی سا جسم وُہ تنہا سنبھالتے ہیں مگر
کنیزیں زُلفیں اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ خوشبو اَوڑھ کے نکلے ہیں اور ضد یہ ہے
لباس سب کو دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
حجاب نظروں کا ہوتا ہے سو وُہ ساحل پر
سیاہ چشمہ چڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو جھوٹ بولنے میں اَوّل آیا اُس نے کہا
وُہ تین روٹیاں کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ تین شبنمی بوندیں ، گُلاب میں دَھر کر
کرن پہ کھانا پکائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ گول گپا بھی کچھ فاصلے سے دیکھتے ہیں
کہ اِس میں گر ہی نہ جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
اُتار دیتے ہیں بالائی ، سادہ پانی کی
پھر اُس میں پانی ملائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
گلاس پانی کا پورا اُنہیں پلانا ہو
نمی ہَوا میں بڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کنیز توڑ کے بادام لائی تو بولے
گِری بھی پیس کے لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ آم چوسنا بھنورے سے گھر پہ سیکھتے ہیں
گُل اُن کو رَقص پڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو غنچہ سونگھ لیں خوشبو سے پیٹ اِتنا بھرے
کہ کھانا سونگھ نہ پائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ اَپنی روٹی گلابوں میں بانٹ دیتے ہیں
کلی کو دُودھ پلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
شراب پینا کجا ، نام جام کا سن لیں
تو جھوم جھوم سے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کباب پنکھڑی کے اُن کی من پسند غذا
ملائی چھیل کے کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو نبضِ ناز کی جنبش کو کر گیا محسوس
طبیب اُس کو بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو ’’نیم ٹھوس‘‘ غذا کھانے کو حکیم کہے
ہَوا بہار کی کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
زُکام ہو گیا دیکھی جو برف کی تصویر
اَب اُن کو یخنی دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
دَوا پلا کے قریب اُن کے بھیجے دو مچھر
کہ اُن کو ٹیکہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بہت تلاش کی مچھر نے سُوئی گھونپنے کی
رَہا یا دائیں یا بائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
شفا کو اُن کی قریب اُن کے لیٹ کر ٹیکہ
طبیب خود کو لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
’’خیالی کھچڑی‘‘ کو نسخے میں لکھ کے بولا طبیب
اَنار خواب میں کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
دَوا کو کھانا نہیں تین بار سوچنا ہے
طبیب پھر سے بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
اَبھی تو ٹیک لگائے بغیر بیٹھے تھے
وَزیر قسمیں اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ سانس لیتے ہیں تو اُس سے سانس چڑھتا ہے
سو رَقص کیسے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
نزاکت ایسی کہ جگنو سے ہاتھ جل جائے
جلے پہ اَبر لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ تین روٹیوں کا آٹا گوندھ لیں جس دِن
تو گھر میں جشن منائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ دَھڑکنوں کی دَھمک سے لرزنے لگتے ہیں
گلے سے کیسے لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ بول لیتے ہیں یہ بھی خدا کی قدرت ہے
حُروف جشن منائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ گنگنائیں تو ہونٹوں پہ نیل پڑ جائیں
سُخن پہ پہرے بٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو ننھا جملہ کوئی تھک کے چھوڑ دینے لگیں
دِلاسہ گونگے دِلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
گلے میں لفظ اَٹک جائیں اُردُو بولیں تو
غرارے ’’چپ‘‘ کے کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو گاڑھی اُردُو سے نازُک مزاج ہو ناساز
فِر اُن کو ہندی سنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو اُن کا نام کوئی پوچھے تو اِشارے سے
ہَوا میں ’’ل‘‘ بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو پہلی بار ملے اُلٹا اُس سے کہتے ہیں
ہمارا نام بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی جو چٹکے تو نازُک ترین ہاتھوں سے
وُہ دونوں کان چھپائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
سریلی فاختہ کُوکے جو تین مُلک پرے
شِکایت اُس کی لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
غلام چٹکی نہ سننے پہ مرتے مرتے کہیں
خدارا تالی بجائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
پسینہ آئے تو دو تتلیاں قریب آ کر
پروں کو سُر میں ہِلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ سُرخ پھول اَنگیٹھی میں بھر کے بیٹھ گئے
چلیں جو سرد ہَوائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کھلونے عید پہ جگنو کو لے کے دیتے ہیں
تو تتلیوں کو قبائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو تتلی تھک کے کوئی پاس آ کے لیٹے ہے
کمر پہ چڑھ کے دَبائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
گواہی دینے وُہ جاتے تو ہیں پر اُن کی جگہ
قسم بھی لوگ اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کبوتروں سے کراتے تھے بادشاہ جو کام
وُہ تتلیوں سے کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ پانچ خط لکھیں تو ’’شکریہ‘‘ کا لفظ بنے
ذِرا حساب لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
چیونٹیوں کی لڑائی میں بول پڑتے ہیں
جلی کٹی بھی سنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بس اِس دَلیل پہ کرتے نہیں وُہ سالگرہ
کہ شمع کیسے بجھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کسی کی سالگرہ پر بھی جا نہیں سکتے
کہ تالی کیسے بجائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
غبارہ پھُولتا ہے خود سکڑنے لگتے ہیں
غبارہ کیسے پھلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
چھری سے کیک کو قربان ہوتا دیکھیں اَگر
مہینوں اَشک بہائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
گماں کی دیگ میں خوشبو کی قاش کا حلوہ
بنا کے ختم دِلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
خیال میں بھی جو دعوت کریں عزیزوں کی
تو سال چھٹی منائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ گھُپ اَندھیرے میں خیرہ نگاہ بیٹھے ہیں
اَب اور ہم کیا بجھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
گھروندے ریت سے ساحل پہ سب بناتے ہیں
وُہ بادَلوں پہ بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
شکار کرنے کو جانا ہے ، کہتے جاتے ہیں
پکڑنے تتلی جو جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
شکارِیوں میں اُنہیں بھی جو دیکھیں زَخمی شیر
تو مر تو شرم سے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
اُٹھا کے لاتے جو تتلی تو موچ آ جاتی
گھسیٹتے ہُوئے لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
نکاح خوان کو بس ’’ایک‘‘ بار وَقتِ قَبول
جھکا کے پلکیں دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
ہر ایک کام کو ’’مختارِ خاص‘‘ رَکھتے ہیں
سو عشق خود نہ لڑائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
حنا لگائیں تو ہاتھ اُن کے بھاری ہو جائیں
سو پاؤں پر نہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
غزل یہ اُن کو پڑھائی ہے نو مہینوں میں
کتاب کیسے پڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
چبھے جو پنکھڑی گلشن کی سیر کرتے ہُوئے
دَھنک کی پالکی لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کتاب میں پھنسے اُنگلی وَرَق پلٹتے ہُوئے
تو جلد ساز بُلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو جاں پہ کھیلنا مقصود ہو تو جگنو کو
وُہ سُرخ کپڑا دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
اُٹھائیں تتلیاں تخت اُن کا کچھ بلندی تک
پھر اُس کے بعد گھٹائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
نزاکت ایسی کہ آئینے اُن کو دیکھنے کو
نظر کا عدسہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ خود کو آئینے میں جلد ڈُھونڈ لیتے ہیں
پھر اُس پہ تالی بجائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو دِل بھی توڑنا ہو تو کِرائے کے قاتل
سے ایسا کام کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
چلے جو آندھی تو دو پھول تھام لیتے ہیں
کہ آپ اُڑ ہی نہ جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلاس ساری تو اَلجبرا پڑھتی ہے اُن کو
اَلاختیار پڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
زِیادہ پڑھ نہ سکے اور مسئلہ یہ تھا
کہ ڈِگری کیسے اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو کالی چیونٹی کبھی رَستہ کاٹ دے اُن کا
پلٹ کے گھر چلے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بلب جلانے سے اِک دَھکا روشنی کا لگے
سو ایک دَم نہ جلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کھلونے آپ سے جی بھر کے کھیلنے کے بعد
پلنگ پہ ساتھ سلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
غضب ہے چھٹی کے دِن گڑیا ، گڈا مل جل کر
اُنہی کی شادی کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ پہلوانوں کو گڑیا کی بانہوں کی مچھلی
اُکھاڑے جا کے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو گرمی لگتی ہے تو پھول پھونک ماریں اُنہیں
مہک سی جائیں ، فضائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو آئینے میں وُہ خود سے لڑائیں آنکھیں کبھی
تو ایک پل میں جھکائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی اُکھاڑنے کو پاؤں رَکھ کے ٹہنی پر
شدید زور لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ صرف باتیں نہیں کرتے کارٹونوں سے
ڈِنر پہ گھر بھی بلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ ہنس راجوں کے ہمراہ جھیل کے اُس پار
کنول پہ بیٹھ کے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
سیاہ شیشہ جو آنکھوں پہ رَکھ کے دیکھیں ہِلال
تو بَدر کیسے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
قدم اُٹھاتے ہُوئے دیر تک وُہ سوچتے ہیں
قدم یہ کیسے اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی ، گلاب ، بہن بھائی اُن کے لگتے ہیں
جو اُن میں عکس بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
چیونٹیوں سے وُہ لے لیتے ہیں قُلی کا کام
پھر اُن کو چینی کھِلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ تتلیوں کی طرح قَدرے اُڑنے لگتے ہیں
جو آنچل اَپنا ہِلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو دُھند چھائے تو وُہ اُس میں غوطے کھاتے ہیں
گھر اَپنے تیر کے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بدن پہ روشنی سے بھی دَباؤ بڑھتا ہے
کھلونا دیپ جلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
فریج میں آرزُو رَکھتے ہیں تا کہ تازہ رہے
قسم بھی دُھو کے ہی کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
سنا ہے وَہم کو اُن کے وُجود پر شک ہے
گمان قسمیں اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو کھیل کھیل میں اُلجھیں خیال سے اَپنے
تو زَخم دونوں کو آئیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بنا لیں ایک بڑی سوچ ، چھوٹی سوچوں سے
پھر اُس پہ کپڑا چڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی کو گلستاں کہتے ہیں ، پھول کو باغات
چمن کو دُنیا بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ سیر ، صبح کی کرتے ہیں خواب میں چل کر
وَزَن کو سو کے گھٹائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وَزَن گھٹانے کا نسخہ بتائیں کانٹوں کو
پھر اُن کو چل کے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ تِل کے بوجھ سے بے ہوش ہو گئے اِک دِن
سہارا دے کے چلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کل اَپنے سائے سے وُہ اِلتماس کرتے تھے
یہاں پہ رَش نہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ تھک کے چُور سے ہو جاتے ہیں خدارا اُنہیں
خیال میں بھی نہ لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
پری نے ہاتھ سے اَنگڑائی روک دی اُن کی
کہ آپ ٹوٹ نہ جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
غزل وُہ پڑھتے ہی یہ کہہ کے قیس رُوٹھ گئے
کہ نازُکی تو بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات
کہنہ ہے بزمِ کائنات ، تازہ ہیں میرے واردات
کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات
ذکرِ عرب کے سوز میں ، فکر عجم کے ساز میں
نے عربی مشاہدات ، نے عجمی تخیلات
قافلہءِ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂِ تصورات
صدقِ خلیل بھی ہے عشق ، صبرِ حسین بھی ہے عشق
معرکہءِ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق