Skip to content

Category: Uncategorized

اور اس کے بعد ہمیشہ مُجھے عدو سمجھے

اور اس کے بعد ہمیشہ مُجھے عدو سمجھے
مری مراد نہیں دوست ہو بہو سمجھے

اگرچہ مادری میری زباں ہے پنجابی
پہ شعر اردو میں کہتا ہوں تاکہ تُو سمجھے

نہ سنگِ لفظ گرائے سکوت دریا میں
کوئی نہیں جو خموشی کی آبرو سمجھے

زبانِ حال سے کہتے رہے حذر لیکن
تھرکتے جسم نہ اعضاء کی گفتگو سمجھے

مجھ ایسے مست کا غوغا جسے کھٹکتا ہے
وہ میرے ساتھ رہے، لطفِ ہا و ہو سمجھے

کرے تلاش زمینِ گماں پہ اس کا عکس
وہ روبرو نہ رہے، آنکھ روبرو سمجھے

مرے خیال کو ندرت خدا نے بخشی ہے
تو کیسے شعر مرے کوئی بے وضو سمجھے

Leave a Comment

بڑا بدتمیز ہُوں

راز کھولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں
میں سچ جو بولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

اچھے بھلے شریفوں کے ظاہر کو چھوڑ کر
اندر کو پھولتا ہُوں….. بڑا بدتمیز ہُوں

حرکت تو دیکھو میری کہ عہدِ یزید میں
انصاف تولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

اخلاقیات کا میں جنازہ نکال کر
لہجے ٹٹولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

کس کی مجال ہے کہ کہے مُجھ کو بدتمیز
میں خُود ہی بولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

کر کے غمِ حیات کی تلخی کا میں نشہ
دن رات ڈولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

ہر ایک شعر میں حق سچ کی شکل میں
میں زہر گھولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

Leave a Comment

آؤ ملواؤں تمہیں ایسے دکاں دار کے ساتھ

آؤ ملواؤں تمہیں ایسے دکاں دار کے ساتھ
جس کی بنتی ہی نہیں درہم و دینار کے ساتھ

ربط پھیکا ہو تو پهر کس کو مزہ دیتا ہے
کچھ ہوس بھی تو ملاؤ نہ ذرا پیار کے ساتھ

اب بھلا کیسے میں تفریق کروں گا ان میں
میرے اپنے بھی کھڑے ہو گئے اغیار کے ساتھ

پا بجولاں ہی چلے آئے ہو تم مقتل میں
رشتہ لگتا ہے مجھے تیرا کوئی دار کے ساتھ

کون رکھے گا ترے وصل کو ایسے جاناں
میں نے رکھا ہے ترا ہجر بہت پیار کے ساتھ

روشنی شہر کی گلیوں میں رہی رات منیر
چاند بیٹھا رہا لگ کر مری دیوار کے ساتھ

Leave a Comment

ساز و آواز خد و خال میں آ جاتے ہیں

ساز و آواز خد و خال میں آ جاتے ہیں
سانس لیتاہوں تو _سُر تال میں آجاتےہیں

جنگ اورعشق میں ہارےہوے لوگوں کیطرح
ہم غنیمت کے کسی مال میں آجاتے ہیں

زندگی خواب ہےاورخواب کی قیمت لینے
جن کوآناہوکِسی حال میں آجاتے ہیں

توبھی سادہ ہےکبھی چال بدلتاہی نہیں
ہم بھی دانستہ تیری چال میں آجاتےہیں

شام ڈھلتے ہی کِسی گوشہِ ویرانی میں
ہم پرندوں کی طرح جال میں آجاتےہیں

Leave a Comment

کہا اُس نے __ کہ آخر کِس لیے بیکار لکھتے ہیں

کہا اُس نے __ کہ آخر کِس لیے بیکار لکھتے ہیں
یہ شاعر لوگ کیوں اِتنے دُکھی اشعار لکھتے ہیں

کہا ہم نے کہ اَز خُود کچھ نہیں لکھتے یہ بیچارے
اِنہیں مجبور جب کرتا ہے _ دل، ناچَار لکھتے ہیں

یہ سُن کر مُسکرائی، غور سے دیکھا ہمیں، بولی
تو اچھا آپ بھی اُس قِسم کے اشعار لکھتے ہیں

وہ کیا غم ہے جسے دُہرا رہے ہیں آپ برسوں سے
وہ کیا دُکھ ہے، مناتے ہیں جسے ہر بار لکھتے ہیں

مگر افسوس ہم سمجھا نہیں پائے اُسے کچھ بھی
کہ کیوں ہم بھی اُسی انداز کے اشعار لکھتے ہیں

وہ کیسی آگ ہے لفظوں میں، جس کو ڈھالتے ہیں ہم
وہ کیا غم ہے _ جو راتوں کو پسِ دیوار لکھتے ہیں

ہے ایسا کون _ جو سارے جہاں سے ہے ہمیں پیارا
وہ کیسا دُشمنِ جاں ہے ، جسے غم خوار لکھتے ہیں

Leave a Comment

تجھ کو آتی ہے اگر کاری گری، سنگ تراش

تجھ کو آتی ہے اگر کاری گری، سنگ تراش
میرا چہرہ، مرا پیکر، مرا کوئی انگ تراش

یا تو پانی سے کوئی شیشہ بنا میرے لیے
یا تو آئینے سے یہ دھول ہٹا زنگ تراش

میرے آنچل کو بنانے کے لیے گھول دھنک
اور پھر پھول سے تتلی سے کئی رنگ تراش

تیرے ہاتھوں میں کئی سر ہیں، یہ دعوی ہے ترا
چل کوئی ساز ہی لکڑی سے بنا، چنگ تراش

کورے کاغذ پہ بھی کاڑھے ہیں شجر، پھول، ثمر
شعر کہنا ہے تو کچھ ذائقہ کچھ ڈھنگ تراش

جیسے ترشا ہے یہ سورج کسی پرکار کے ساتھ
تو بھی آوزار اٹھا ایسا کوئی شنگ تراش

میں بناؤں گی کھلا اور وسیع ایک جہان
میں نہیں قید، گھٹن، قبر، قفس، تنگ، تراش

کام میرا ہے بناؤں میں شہد اور شہد
تو مگر زیر بنا اور بنا، ڈنگ تراش

تو تو مٹی کے طلسمات سے واقف تھا حسن
کیوں جہاں زاد کے جلوے سے ہوا دنگ، تراش

Leave a Comment

ہم کسی چشمِ فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں

ہم کسی چشمِ فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں
خواب ہیں، خواب کے انداز میں رکھے ہوئے ہیں

تاب انجامِ محبت کی بھلا کیا لاتے
ناتواں دل وہیں آغاز میں رکھے ہوئے ہیں

جلتے جائیں گے ابھی اور چراغوں سے چراغ
جب تری انجمنِ ناز میں رکھے ہوئے ہیں

اے ہوا! اور خزاوں کے علاوہ کیا ہے
وسوسے کیوں تری آواز میں رکھے ہوئے ہیں

اک ستارے کو تو میں صبح تلک لے آئی
بیشتر رات کے آغاز میں رکھے ہوئے ہیں

ہم تو ہیں آبِ زرِ عشق سے لکھے ہوئے حرف
بیش قیمت ہیں، بہت راز میں رکھے ہوئے ہیں

Leave a Comment

کیا حال سنائیں دُنیا کا

کیا حال سنائیں دُنیا کا
کیا بات بتائیں لوگوں کی
دنیا کے ہزاروں موسم ہیں
لاکھوں ہیں ادائیں لوگوں کی

کچھ لوگ کہانی ہوتے ہیں
دنیا کو سنانے کے قابل
کچھ لوگ نشانی ہوتے ہیں
بس دل میں چھپانے کے قابل

کچھ لوگ گزرتے لمحے ہیں
اک بار گئے تو آتے نہیں
ہم لاکھ بلانا بھی چاہیں،
پرچھائیں بھی انکی پاتے نہیں

کچھ لوگ خیالوں کے اندر
جذبوں کی روانی ہوتے ہیں
کچھ لوگ کٹھن لمحوں کی طرح
پلکوں پہ گرانی ہوتے ہیں

کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں
کچھ لوگ کنارا ہوتے ہیں
کچھ ڈوبنے والی جانوں کو
تنکوں کا سہارا ہوتے ہیں

کچھ لوگ چٹانوں کا سینہ
کچھ ریت گھروندہ چھوٹا سا
کچھ لوگ مثال ابر رواں
کچھ اونچے درختوں کا سایہ

کچھ لوگ چراغوں کی صورت
راہوں میں اجالا کرتے ہیں
کچھ لوگ اندھیروں کی کالک
چہرے پر اچھالا کرتے ہیں

کچھ لوگ سفر میں ملتے ہیں
دو گام چلے اور رستے الگ
کچھ لوگ نبھاتے ہیں ایسا
ہوتے ہی نہیں دھڑکن سے الگ

کیا حال سنائیں اپنا تمہیں
کیا بات بتائیں جیون کی
اک آنکھ ہماری ہستی ہے
اک آنکھ میں رت ہے ساون کی

ہم کس کی کہانی کا حصہ
ہم کس کی دعامیں شامل ہیں؟

Leave a Comment

پرانے گھر کو گرایا تو باپ رونے لگا

پرانے گھر کو گرایا تو باپ رونے لگا
خوشی نے دِل سا دُکھایا تو باپ رونے لگا

یہ رات کھانستے رہتے ہیں کوفت ہوتی ہے
بہو نے سب میں جتایا تو باپ رونے لگا

جو اَمّی نہ رہیں تو کیا ہُوا کہ ہم سب ہیں
جواب بن نہیں پایا تو باپ رونے لگا

نہ جانے کب سے وُہ نمبر ملا رَہا تھا مرا
کہ جونہی فون اُٹھایا تو باپ رونے لگا

ہزار بار اُسے روکا تھا میں نے سگریٹ سے
جو آج چھین بجھایا تو باپ رونے لگا

بٹھا کے رِکشے میں ، کل شب رَوانہ کرتے ہُوئے
دِیا جو میں نے کرایہ تو باپ رونے لگا

ہمیں بنا دِیئے کمرے خود اُس کو ٹی وی پر
مدینہ جب نظر آیا تو باپ رونے لگا

کل اُس کے دوست کو باہر سے ٹالنے کے بعد
اُسے فقیر بتایا تو باپ رونے لگا

بہن رَوانگی سے پہلے پیار لینے گئی
جو کچھ بھی دے نہیں پایا تو باپ رونے لگا

کیا ہی کیا ہے بھلا آج تک ہمارے لیے
سوال جونہی اُٹھایا تو باپ رونے لگا

اَذان بیٹے کے کانوں میں دے رہا تھا میں
اَذان دیتے جو پایا تو باپ رونے لگا

طبیب کہتا تھا پاگل کو کچھ بھی یاد نہیں
گلے سے میں نے لگایا تو باپ رونے لگا

لَحَد پہ اَبّو کی کل رات ایک مدت بعد
چراغ جونہی جلایا تو باپ رونے لگا

نہ جانے قیسؔ نے کس جذبے سے یہ کیا لکھا
کہ جونہی پڑھ کے سنایا تو باپ رونے لگا

شہزادقیس

Leave a Comment

جو نباتات و جمادات پہ شک کرتے ہیں

جو نباتات و جمادات پہ شک کرتے ہیں
اے خدا تیرے کمالات پہ شک کرتے ہیں
۔
وہ جو کہتے ہیں دھماکے سے جہاں خلق ہوا
درحقیقت وہ سماوات پہ شک کرتے ہیں
۔
میں بھی بچپن میں تفکُّر پہ یقیں رکھتا تھا
میرے بچّے بھی روایات پہ شک کرتے ہیں
۔
میں اُسی شہر میں آنسو لئے پھرتا ہوں جہاں
پیڑ چڑیوں کی مناجات پہ شک کرتے ہیں
۔
اپنے حصّے میں وہ بے فیض صدی ہے جس میں
لوگ وَلیوں کی کرامات پہ شک کرتے ہیں
۔
اس لئے ہم پہ گزرتی ہے قیامت ہر دن
ہم قیامت کی علامات پہ شک کرتے ہیں
۔
آپ کے کھیت میں اُگتی ہے سنہری گندم
آپ کیوں اُس کی عنایات پہ شک کرتے ہیں
۔
جن کو مُوسیٰ کا پتہ ہے نہ خبر طُور کی ہے
ایسے بدبخت بھی تورات پہ شک کرتے ہیں
۔
’’عشق کی عین‘‘ کا تو دشت میں مدفن ہی نہیں
عاشِقاں یونہی خرابات پہ شک کرتے ہیں
۔
آپ جھرنوں کی تلاوت کو نہیں سن سکتے
آپ فطرت کے اشارات پہ شک کرتے ہیں
۔
صرف شاعر ہی نہیں ہوں میں مسلمان بھی ہوں
آپ کیوں میری عبادات پہ شک کرتے ہیں
۔
آپ کو چاہئے سقراط کے بارے میں پڑھیں
آپ واصف کے خیالات پہ شک کرتے ہیں

Leave a Comment
%d bloggers like this: