Skip to content

کیا حال سنائیں دُنیا کا

کیا حال سنائیں دُنیا کا
کیا بات بتائیں لوگوں کی
دنیا کے ہزاروں موسم ہیں
لاکھوں ہیں ادائیں لوگوں کی

کچھ لوگ کہانی ہوتے ہیں
دنیا کو سنانے کے قابل
کچھ لوگ نشانی ہوتے ہیں
بس دل میں چھپانے کے قابل

کچھ لوگ گزرتے لمحے ہیں
اک بار گئے تو آتے نہیں
ہم لاکھ بلانا بھی چاہیں،
پرچھائیں بھی انکی پاتے نہیں

کچھ لوگ خیالوں کے اندر
جذبوں کی روانی ہوتے ہیں
کچھ لوگ کٹھن لمحوں کی طرح
پلکوں پہ گرانی ہوتے ہیں

کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں
کچھ لوگ کنارا ہوتے ہیں
کچھ ڈوبنے والی جانوں کو
تنکوں کا سہارا ہوتے ہیں

کچھ لوگ چٹانوں کا سینہ
کچھ ریت گھروندہ چھوٹا سا
کچھ لوگ مثال ابر رواں
کچھ اونچے درختوں کا سایہ

کچھ لوگ چراغوں کی صورت
راہوں میں اجالا کرتے ہیں
کچھ لوگ اندھیروں کی کالک
چہرے پر اچھالا کرتے ہیں

کچھ لوگ سفر میں ملتے ہیں
دو گام چلے اور رستے الگ
کچھ لوگ نبھاتے ہیں ایسا
ہوتے ہی نہیں دھڑکن سے الگ

کیا حال سنائیں اپنا تمہیں
کیا بات بتائیں جیون کی
اک آنکھ ہماری ہستی ہے
اک آنکھ میں رت ہے ساون کی

ہم کس کی کہانی کا حصہ
ہم کس کی دعامیں شامل ہیں؟

Published inGazalsSad PoetryUncategorized

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: