Skip to content

Category: Uncategorized

میں لفظ چُنوں

میں لفظ چُنوں __ دلکش چُنوں
پھر ان سے “” تیرا “” احساس بُنوں

تجھے لکھوں میں ” دھڑکن” اس دل کی
یا تجھ کو ابر کی __ رم جھم لکھوں

ستاروں کی عجب __ جھلمل کبھی
پلکوں کی تجھے “” شبنم “” لکھوں

کبھی کہہ دوں تجھے میں جاں اپنی
کبھی تجھ کو میں اپنا محرم لکھوں

کبھی لکھ دوں تجھے __ ہر درد اپنا
کبھی تجھ کو زخم کا ” مرہم” لکھوں

تو زیست کی ہے _ امید میری
میں تجھ کو خوشی کی” نوید “لکھوں

لفظوں پہ نگاہ جو ڈالوں __ کبھی
ہر لفظ کو” بیاں “سے عاجز لکھوں!!

میں تجھ کو تکوں _ تکتی جاؤں
میں تجھ کو میری “” تمہید “” لکھوں

تم گفت ہو میرے _ اس دل کی
میں “” تجھ “” کو فقط شنید لکھوں

Leave a Comment

وہ خیال تھا کوئی دھنک نما

وہ خیال تھا کوئی دھنک نما
یا کوئی عکس تھا میرے روبرو؟
مجھے ہر طرف سے تو لگا
وہ تو ہی تھا یا کوئی ہو بہو؟
بیان میں تھی وہ چاشنی
کہ مہک رہا تھا حرف حرف
جیسے خوسشبوؤں کی زبان میں
کوئی کر رہا ہو گفتگو
نہیں کچھ خبر کہ کس گھڑی
ترے راستوں کا سرا ملے
تیرے نقشِ پا کی تلاش میں
لگی تو ہے میری جستجو
بس دیکھنا ہے کس طرح
وہ جی رہی ہے میرے بغیر
یوں تو دل میں ہے وہ آج بھی
جسے ڈھونڈتا ہوں میں کو بہ کو
یہ یاد تھا کہ دعا کروں،
پر اٹھے رہے میرے ہاتھ یوں
جیسے خواہشوں کے ہجوم میں
کہیں کھو گئی تیری آرزو

Leave a Comment

بہت دن ھوئے دل کی بے قراری نہیں جاتی

بہت دن ھوئے دل کی بے قراری نہیں جاتی
یہ زندگی اب ھم سے سنواری نہیں جاتی

کیا حشر ھو گا میرا ھجر کے موسم میں
مجھ سے تو ایک شب گزاری نہیں جاتی

نظر کو سمجھنے کا ھنر سیکھ لو جاناں
دل کی ھر بات کاغذ پر اتاری نہیں جاتی

درد ھے کہ رکنے کا نام نہیں لیتا
جان ھے کہ مجھ سے ہاری نہیں جاتی

کچھ تو ھے اس میں جو فدا ھوئے خالد
ورنہ یہ زندگی ھر شخص پہ واری نہیں جاتی

Leave a Comment

بھـــــــــر کے لایا تھا جو دامن میں ستارے صاحب

بھـــــــــر کے لایا تھا جو دامن میں ستارے صاحب
لے گیا لوٹ کے سب خواب ہمـــــــــــــارے صاحب

آپ آسودہ ہیں اس حلقـــــــــــہ ء یاراں میں تو پھر
یاد آئیں گے کہــــــــــــاں درد کے مــــــارے صاحب

ہجـــر میں سانس بھی رک رک کے چلا کرتی ھے
مجھ کو دے جائیں نا کچھ سانس اُدھا رے صاحب

کچھ خطاؤں کی ســـــــــزا عشق کی صورت پائی
ہم نے دنیا میں ہی کچھ قــــــــــرض اتا رے صاحب

ہم جو نکلے کبھی بازار میں کاســــــــــــــہ لے کر
بھیک میں بھی تو ملے درد کے دھــــــا رے صاحب

اب بھی جلتے ہیں تری یاد میں اشکوں کے چــراغ
شب کو معلوم ہیں سب زخم ہمـــــــا رے صاحب

میـــــــــرا رشتوں کی تجارت پہ تو ایماں ہی نہ تھا
بک گۓ خـــــــــــــاک کی قیمت یہ ستارے صاحب

یاد کے دشت میں ہم پھــــــــــرتے ہیں یوں آبلہ پا
آ کے دیکھو تو کبھی پاؤں ہمــــــــــــــــــارے صاحب

بارہا اســـکو بچھـــــــــــــــڑتے ھوئے کہنا چـــــاہا ،،
روٹھ کر بھی نہیں ہوتے ہیں گـــــــــــزار ے صاحب

لا کے قدموں میں سبھی چــــاند ستارے رکھ دیں
لوٹ کر آنا کبھی شہــــــــر ہمــــــــــــا رے صاحب

آنـــکھ سے دل کی زبــــاں صـــــــاف ســـنائ دیتی
تم ہی سمجھے نـــــہ محبت کے اشـــارے صاحب

Leave a Comment

رقصِ وحشت شعار ہے میرا

رقصِ وحشت شعار ہے میرا
گردِ صحرا غبار ہے میرا

کوئی زنجیرِ پا نہیں لیکن
قیدیوں میں شمار ہے میرا

جل رہے ہیں ضرورتوں کے چراغ
گھر نہیں ہے مزار ہے میرا

زخم اپنے کرید سکتا ہوں
جبر پر اختیار ہے میرا

جس طرف چاہوں گھوم لیتا ہوں
میری ایڑی مدار ہے میرا

ہے سبک دوش کوئی مجھ ایسا؟
میرے شانوں پہ بار ہے میرا

کُھل کے اک سانس بھی نہ لی میں نے
زندگی پر ادھار ہے میرا

بھاگتا ہوں پرے حقیقت سے
شعر گوئی فرار ہے میرا

پیرہن ہے دُھلا ہوا گویا
تن بہت داغ دار ہے میرا

ورنہ میں کب کا مر چکا ہوتا
دل پہ کب انحصار ہے میرا

آئینے میں بھی مَیں نہیں موجود
اور تجھے انتظار ہے میرا

سوچتا ہوں، دوبارہ سوچتا ہوں
کوئی پروردگار ہے میرا؟

میں ہوں مزدورِ کارِ رشتہ و ربط
ہر کوئی ٹھیکہ دار ہے میرا

شعر کہتا ہوں جی جلاتا ہوں
اب یہی روزگار ہے میرا

رائیگانی خرید کرتا ہوں
منفرد کاروبار ہے میرا

عارف امام

Leave a Comment

وە گماں ! گماں سا قیاس سا

وە گماں ! گماں سا قیاس سا
کبھی دور سا کبھی پاس سا

کبھی چاندنی میں چھپا ہوا
کبھی خوشبووں میں بسا ہوا

کبھی صرف اسکی شباہتیں
کبھی صرف اسکی حکایتیں

کبھی صرف ملنے کے سلسلے
کبھی صرف اس سے ہیں فاصلے

کبھی دور چلتی ہواوُں میں
کبھی مینہ برستی گھٹاوں میں

کبھی بدگماں کبھی مہرباں
کبھی دھوپ ہے کبھی سائیباں

کبھی بند دل کی کتاب میں
کبھی لب کشاں وە خواب میں

کبھی یوں کہ جیسے سوال ہو
کبھی یوں کہ جیسے جواب ہو

کبھی دیکھنے کے ہیں سلسلے
کبھی سوچنے کے ہیں مرحلے

کبھی صرف رنگِ بہار سا
کبھی صرف اک گلبہار سا

وە جو اکھڑا اکھڑا سا شخص ہے
وە جو بکھرا بکھرا سا شخص ہے

Leave a Comment

ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﺳﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ

ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﺳﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﮐﺲ ﻗﺮﺽ ﮐﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﺍﺩﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﺗﮭﮏ ﮨﺎﺭ ﮐﮯ ﺁ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﮯ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﮧ ﺗﯿﺮﯼ
ﺩﯾﺪﺍﺭ ﮐﺎ ﻣﺤﺴﻦ ﮨﮯ ﮔﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟ ﯾﻮﺳﻒ ﺳﺎ ﺣﺴﯿﮟ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﯾﻌﻘﻮﺏ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﻮ ِﻧَﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﺁ ﻃﻮﺭ ﭘﮧ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺭﺍﺕ ﮨﮯ ﺑﺎﻗﯽ
ﺷﺎﯾﺪ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺧﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﺷﻤﻊ ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻣﺪ ﮐﻮ ﺟﻼﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺳﺮ ِﺷﺎﻡ
ﮨﻮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﭘﺮﻭﺍﻧﮯ ﻓﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﮐﭽﮫ ﻋﺎﻟﻢ ِﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯾﺎ ﺳﺎﺗﮫ
ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺭﮨﯿﮟ ﺳﯿﻼﺏ ﺯﺩﮦ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﻣﺤﺴﻦ ﮐﻮ ﺷﺐِ ﻭﺻﻞ ﻣﻼ ﺟﺎﻡ ﺑَﻤﺸﮑﻞ
ﮨﻮ ﭘﺎﺋﮯ ﻧﮧ ﭘﮭﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺟﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
(محسن نقوی)

Leave a Comment

اَشک دَر اَشک

اَشک دَر اَشک ، دُہائی کا ثمر دیتے ہیں
اُن کے آثار ، جدائی کی خبر دیتے ہیں

غالباً یہ مرے چپ رہنے کا خمیازہ ہے
تجھ کو آواز مرے شام و سَحَر دیتے ہیں

جان دے جانے کا جو پختہ اِرادہ کر لوں
جان ‘‘ کہہ کر مجھے بے جان سا کر دیتے ہیں

لفظ مردہ ہیں ، لغت کوئی اُٹھا کر دیکھو
صرف جذبات ہی لفظوں کو اَثر دیتے ہیں

ایک گمنام اُداسی نے مجھے گھیر لیا
آج وُہ ہنستے ہُوئے اِذنِ سفر دیتے ہیں

چند اِحباب ، مسیحائی کی قسمیں کھا کر
زَخم کو کھود کے ، بارُود سا بھر دیتے ہیں

قیسؔ دِل کا نہ تعلق بنے جن لوگوں سے
ساتھ سو شرطوں پہ دیتے ہیں ، اَگر دیتے ہیں

Leave a Comment

مرے ہم سفر‘ تجھے کیا خبر

مرے ہم سفر‘ تجھے کیا خبر
یہ جو وقت ہے کسی دُھوپ چھاؤں کے کھیل سا
اِسے دیکھتے‘ اِسے جھیلتے
مِری آنکھ گرد سے اَٹ گئی
مِرے خواب ریت میں کھوگئے
مِرے ہاتھ برف سے ہوگئے
مِرے بے خبر‘ ترے نام پر
وہ جو پُھول کھلتے تھے ہونٹ پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر‘
وہ نہیں رہے
وہ نہیں رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا
وہ ہَوا چلی
کسی شام ایسی ہَوا چلی
کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں‘ وہ گرادیئے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر‘ وہ اُڑا دیئے
وہ جو راستوں کا یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشانِ پا بھی مِٹا دیئے!
مرے ہم سفر‘ ہے وہی سفر
مگر ایک موڑ کے فرق سے
ترے ہاتھ سے مرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اُسے ناپتے‘ اُسے کاٹتے
مرا سارا وقت نکل گیا
تو مِرے سفر کا شریک ہے
میں ترے سفر کا شریک ہوں
پہ جو درمیاں سے نکل گیا
اُسی فاصلے کے شمار میں
اُسی بے یقیں سے غبار میں
اُسی رہگزر کے حصار میں
ترا راستہ کوئی اور ہے
مرا راستہ کوئی اور ہے

Leave a Comment
%d bloggers like this: