Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

پاؤں کا دھیان تو ہے راہ کا ڈر کوئی نہیں

پاؤں کا دھیان تو ہے راہ کا ڈر کوئی نہیں
مجھ کو لگتا ہے مرا زادِ سفر کوئی نہیں

بعض اوقات تو میں خود پہ بہت چیختا ہوں
چیختا ہوں کہ اُدھر جاؤ جدھر کوئی نہیں

سر پہ دیوار کا سایا بھی اُداسی ہے مجھے
ظاہراً ایسی اداسی کا اثر کوئی نہیں

آخری بار مجھے کھینچ کے سینے سے لگا
اور پھر دیکھ مجھے موت کا ڈر کوئی نہیں

خودکشی کرتے سمے پوچھتا ہوں میرا عزیز؟
اور آواز سی آتی ہے تُو مَر ! کوئی نہیں

بھری دنیا ہے سسکنے میں جھجک ہو گی تمہیں
یہ مرا دل ہے ادھر رو لو ادھر کوئی نہیں

ایک دن لوگ مجھے تخت نشیں دیکھیں گے
یا یہ دیکھیں گے مرا جسم ہے سَر کوئی نہیں

اُس کی ہجرت بڑا اعصاب شکن سانحہ تھی
شہر تو شہر ہے جنگل میں شجر کوئی نہیں

صبح سے رات کی مایوسی بھگانے کا سبب
کوئی تو ہوتا مرے دوست مگر کوئی نہیں

بے خیالی سی مجھے گود میں بھر لیتی ہے
در پہ دستک ہو تو کہہ دیتا ہوں گھر کوئی نہیں

Leave a Comment

آؤ آج تمھیں اک کہانی سناتا ہوں میں

آؤ آج تمھیں اک کہانی سناتا ہوں میں
قصہ دلِ برباد کا اپنی زبانی سناتا ہوں میں

سرِ بزم جو کبھی کوئ پکارے نام اُسکا
بےساختہ سا کلیجہ اپنا تھام لیتا ہوں میں

وہ جو دن کو کہہ دیتی ہے رات کبھی
اعتبار دیکھو، رات مان کے سو جاتا ہوں میں

اُسکے لمس کی شدتوں کا مارا۔۔۔ہر روز
اُسکی تصویر سینے سے لگا کے رو جاتا ہوں میں

جانتا ہوں وہ دلنشیں آنکھیں بےوفا ہیں مگر
پھر بھی اُن میں ڈوبتا چلا جاتا ہوں میں

وہ کہتی ہے میرے عشق میں تم مارے جاؤ گے
جنوں دیکھو۔۔۔کہ مرنے پہ تُلا جاتا ہوں میں

وہ جن لمحوں میں میرے ساتھ ہوتی ہے
بس اُنہی لمحوں میں جیا جاتا ہوں میں

کہنے کو بہت ہیں مہ جبینیں جہاں میں
اک اُسی سادہ سے خدوخال پہ لُٹا جاتا ہوں میں

وہ اک شام کہ جب اُس نے کہا تھا مجھے اپنا
بس وہی اک بات بار بار سُننا چاہتا ہوں میں

میرا سَر اپنی گود میں رکھ کے میرے بالوں سے کھیلنا
کبھی یوں بھی پیار سے سہلایا جاتا ہوں میں

تیرے ہونے سے میری جان، جان میں جان تھی
اب تو یوں سمجھو بےجان سا ہوا جاتا ہوں میں

اکثر راتوں میں تنہائ سے عاجز آ کر
بہت دیر تک تجھے ہی سوچتا چلا جاتا ہوں میں

تم تھی تو گویا پوری کائنات تھی مٹھی میں میری
اب تو اے جاں، بہت اکیلا سا ہوا جاتا ہوں میں

عجب ہے یہ رمزِ عشق بھی جاناں
تو جتنا دور جاۓ اُتنا قریب ہوا جاتا ہوں میں

جو ہستے ہوۓ تھکتا نا تھا اب بولتا بھی نہیں
دیکھ تو زرا۔۔۔کیا سے کیا ہوا جاتا ہوں میں

تیری عادتیں اپنا لی ہیں، تیری باتیں دوہراتا ہوں
کہ اب تو ہوباہو “تم” ہوا جاتا ہوں میں

اکثر عالمِ تنہائ میں تُجھے تصَور میں لا کر
تجھ سے پہروں باتیں کیا جاتا ہوں میں

میری دیوانگی کی حد سے تو انجان ہے اب تک
کہ حد میں رہ کر۔۔۔بےحد تجھے چاہتا ہوں میں

تو اکثر پوچھتی تھی نا بچھڑے تو کیا ہو گا میرا
آ زرا دیکھ تو صحیح کتنا برباد ہوا جاتا ہوں میں

میرا سفر تیرے لیۓ، میری منزل بھی فقط تو تھی
تجھ سے شروع ہوتا ہوں تجھ پہ ہی ختم ہوا جاتا ہوں میں

یہ دل تیرے نام پہ دھڑکتا، یہ سانسیں تجھ سے چلتی ہیں
تم بن تو جیسے کوئ زندہ لاش ہوا جاتا ہوں میں

اک ادھوری سی بات ہے جسے مکمل کرنے کے واسطے
جانے کتنے برسوں سے تیرا منتظر ہوا جاتا ہوں میں

دیکھ کیسے نکھر نکھر کے بگڑا ہوں تیرے عشق میں
کسی سے جو ملوں تو تیرے بارے ہی پوچھتا جاتا ہوں میں

سُنا ہے تیری محبت نے بخشا ہے میرے الفاظ کو درد گہرا
لوگ کہتے ہیں کہ۔۔۔شاعر ہوا جاتا ہوں میں

کبھی موقع ملا تو سُناؤں گا تجھے اپنی وہ اک غزل بھی
جس میں لفظ با لفظ، تن با تن، سانس در سانس تیرے نام کیئے جاتا ہوں میں

Leave a Comment

ہم سا بھی ہو گا نہ جہاں میں کوئی ناداں جاناں

ہم سا بھی ہو گا نہ جہاں میں کوئی ناداں جاناں
بے رخی کو بھی جو سمجھے تیرا احساں جاناں

جب بھی کرتی ہے میرے دل کو پریشاں دنیا
یاد آتی ہے تیری زلفِ پریشاں جاناں

میں تیری پہلی نظر کو نہیں بھولا اب تک
آج بھی دل میں ہے پیوست وہ پیکاں جاناں

مجھ سے باندھے تھے بنا کر جو ستاروں کو گواہ
کر دیے تو نے فراموش وہ پیماں جاناں

کبھی آتے ہوئے دیکھوں تجھے اپنے گھر میں
کاش پورا ہو میرے دل کا یہ ارماں جاناں

اک مسافر کو تیرے شہر میں موت آئی ہے
شہر سے دور نہیں گورِ غریباں جاناں

یہ تیرا حسن یہ بے خود سی ادائیں تیری
کون رە سکتا ہے ایسے میں مسلماں جاناں

کیوں تجھے ٹوٹ کے چاہے نہ خدائی ساری
کون ہے تیرے سوا یوسفِؑ دوراں جاناں؟

جاں بلب، خاک بسر، آہ بہ دل، خانہ بدوش
مجھ سا کوئی بھی نہ ہو بے سر و ساماں جاناں

یہ تو پوچھ اس سے جس پر یہ بلا گزری ہے
کیا خبر تجھ کو کہ کیا ہے شبِ ہجراں جاناں

یہ وە نسبت ہے جو ٹوٹی ہے نہ ٹوٹے گی کبھی
میں تیرا خاک نشیں، تو میرا سلطاں جاناں

وە تو اک تمہارا ساتھ تھا کہ آڑے آیا
ورنہ دھر لیتی مجھے گردشِ دوراں جاناں

کیا تماشہ ہو کہ خاموش کھڑی ہو دنیا
میں چلوں حشر میں کہتے ہوئے جاناں جاناں

در پہ حاضر ہے ترے آج نصیرِؔ عاصی
تیرا مجرم تیرا شرمندۂ احساں جاناں

سید نصیر الدین نصیرؔ

Leave a Comment

جہان بھر میں کسی چیز کو دوام ھے کیا ؟

جہان بھر میں کسی چیز کو دوام ھے کیا ؟
اگر نہیں ھے تو سب کچھ خیالِ خام ھے کیا ؟

اُداسیاں چلی آتی ھیں شام ڈھلتے ھی
ھمارا دل کوئی تفریح کا مقام ھے کیا ؟

وھی ھو تُم جو بُلانے پہ بھی نہ آتے تھے
بِنا بُلائے چلے آئے ! کوئی کام ھے کیا ؟

جواباً آئی بڑی تیز سی مہک مُنہ سے
سوال یہ تھا کہ مولانا ! مَے حرام ھے کیا ؟

بتا رھے ھو کہ رسمی دُعا سلام ھے بس
دُعا سلام کا مطلب دُعا سلام ھے کیا ؟

تو کیا وھاں سے بھی اب ھر کوئی گذرتا ھے ؟
وہ راہِ خاص بھی اب شاھراہِ عام ھے کیا ؟

مَیں پُوچھ بیٹھا: تُمہیں یاد ھے ھمارا عشق ؟
جواب آیا کہ تُو کون ؟ تیرا نام ھے کیا ؟

اک ایک کرکے سبھی یار اُٹھتے جاتے ھیں
درُونِ خانہ کوئی اور انتظام ھے کیا ؟

بری کرانا ھے ابلیس کو کسی صُورت
خُدا کے گھر میں کسی سے دُعا سلام ھے کیا ؟

جواب آیا کہ فرفر سُناؤں ؟ یاد ھے سب
سوال یہ تھا کہ یہ آپ کا کلام ھے کیا ؟

تُو بے وفائی کرے اور پھر یہ حُکم بھی دے
کہ بس ترا رھے فارس، ترا غُلام ھے کیا ؟

رحمان فارس

Leave a Comment

خواب دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں

خواب دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں
چلیے پہلے نہیں پوچھا تھا تو اب پوچھتے ہیں

کیسے خوش طبع ہیں اس شہر دل آزار کے لوگ
موج خوں سر سے گزر جاتی ہے تب پوچھتے ہیں

اہل دنیا کا تو کیا ذکر کہ دیوانوں کو
صاحبان دل شوریدہ بھی کب پوچھتے ہیں

خاک اڑاتی ہوئی راتیں ہوں کہ بھیگے ہوئے دن
اول صبح کے غم آخر شب پوچھتے ہیں

ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال
جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں

یہی مجبور یہی مہر بہ لب بے آواز
پوچھنے پر کبھی آئیں تو غضب پوچھتے ہیں

کرم مسند و منبر کہ اب ارباب حکم
ظلم کر چکتے ہیں تب مرضیٔ رب پوچھتے ہیں

افتخار عارف

Leave a Comment

ہم نے غزلوں میں تمہیں ایسے پکارا محسن

ہم نے غزلوں میں تمہیں ایسے پکارا محسن
جیسے تم ہو کوئی قسمت کا ستارا محسن
اب تو خود کو بھی نکھارا نہیں جاتا ہم سے
وہ بھی کیا دن تھے کہ تجھ کو بھی سنوارا محسن
اپنے خوابوں کو اندھیروں کے حوالے کر کے
ہم نے صدقہ تیری آنکھوں کا اتارا محسن
ہم کو معلوم ہے اب لوٹ کے آنا تیرا
نہیں ممکن یہ مگر پھر بھی خدارا محسن
ہم تو رخصت کی گھڑی کو بھی نہ سمجھے محسن
سانس دیتی رہی ہجرت کا اشارہ محسن
اس نے جب جب بھی مجھے دل سے پکارا محسن
میں نے تب تب یہ بتایا کے تمہارا محسن
لوگ صدیوں کے خطائوں پہ بھی خوش بستے ہیں
ہم کو لمحوں کی وفاؤں نے اجاڑا محسن
ہو گیا جب یہ یقین اب وہ نہیں آئے گا
آنسو اور غم نے دیا دل کو سہارا محسن
وہ تھا جب پاس تو جینے کو بھی دل کرتا تھا
اب تو پل بھر بھی نہیں ہوتا گزارا محسن
اسکو پانا تو مقدر کی لکیروں میں نہیں
اسکو کھونا بھی کریں کیسے گوارہ محسن

محسن نقوی

Leave a Comment

یہ شرک ہے تصّورِ حسن وجمال میں

یہ شرک ہے تصّورِ حسن وجمال میں
ہم کیوں ہیں تم اگر ہو ہمارے خیال میں

جب سے مرا خیال تری جلوہ گاہ ہے
آتا نہیں ہوں آپ بھی اپنے خیال میں

اٹھّا ترا حجاب نہ میرے اٹھے بغیر
میں آپ کھوگیا ترے ذوقِ وصال میں

بیداریِ حیات تھی ایک خوابِ بیخودی
نیند آگئی مجھے تری بزمِ جمال میں

اب ہر ادائے عشق میں اندازِ حسن ہے
اب میں ہی میں ہوں آپ کی بزمِ جمال میں

چھائے ہوئے ہیں حسن کے جلوے جہان پر
تم ہو خیال میں ، کہ نہیں کچھ خیال میں

ہاں اے خدا ئے حسن دعائے جنوں قبول
میں تجھ سے مانگتاہوں تجھی کو سوال میں

حد ہوگئی فریبِ تصور کی اے ذہین
میں خود کو پیش کرتا ہوں اس کی مثال میں

حضرت بابا ذہین شاہ تاجی

Leave a Comment

چل انشا اپنے گاوں میں

چل انشا اپنے گاوں میں
یہاں الجھے الجھے روپ بہت
پر اصلی کم بہروپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رکنا
جہاں سایا کم ھو دھوپ بہت
چل انشا اپنے گاوں میں
بیٹھیں گے سکھ کی چھاوں میں
کیوں تیری آنکھ سوالی ہے
یہاں ہر اک بات نرالی ہے
اس دیس بسیرا مت کرنا
یہاں مفلس ھونا گالی ہے
چل انشا اپنے گاوں میں
جہاں سچے رشتے یاروں کے
جہاں وعدے پکے پیاروں کے
جہاں گھونگھٹ زیور ناروں کے
جہاں جھومیں کومل سر والے
جہاں ساز بجیں بن تاروں کے
کرے سجدہ وفا بھی پاوں میں
چل انشا اپنے گاوں میں

Leave a Comment

نقش تھا اور نام تھا ہی نہیں

نقش تھا اور نام تھا ہی نہیں
یعنی میں اتنا عام تھا ہی نہیں

خواب سے کام تھا وہاں کہ جہاں
خواب کا کوئی کام تھا ہی نہیں

سب خبر کرنے والوں پر افسوس
یہ خبر کا مقام تھا ہی نہیں

تہ بہ تہ انتقام تھا سر خاک
انہدام انہدام تھا ہی نہیں

ہم نے توہین کی قیام کیا
اس سفر میں قیام تھا ہی نہیں

اب تو ہے پر ہمارے وقتوں میں
شیشۂ صبح و شام تھا ہی نہیں

وہ تو ہم نے کہا کہ تم بھی ہو
ورنہ کوئی نظام تھا ہی نہیں

شاہین عباس

Leave a Comment

میں سانس لیتے ضعیف جسموں میں رہ چکا ہوں

میں سانس لیتے ضعیف جسموں میں رہ چکا ہوں
میں حادثہ ہوں اداس لوگوں میں رہ چکا ہوں

قدیم نسلوں کے گھر نحوست کا دیوتا تھا
جدید نسلوں کے زرد کمروں میں رہ چکا ہوں

میں نیم مردہ اسیر انساں کا قہقہہ ہوں
میں سرخ اینٹوں کے خونی پنجروں میں رہ چکا ہوں

میں ایسا سر ہوں جو دشت غربت میں کٹ گیا تھا
میں سر بریدہ شہید لاشوں میں رہ چکا ہوں

میں راجا گدھ ہوں نہ دشت زادہ نہ ماس خورہ
میں پھر بھی بستی کے مردہ خوروں میں رہ چکا ہوں

میں اسم اعظم کا معجزہ ہوں میں ناخدا ہوں
میں چاند تاروں میں اور غاروں میں رہ چکا ہوں

یقین جانو یہ میرے بالوں میں گرد دیکھو
میں شہر والا تمہارے گاؤں میں رہ چکا ہوں

میں یوم عاشور تشنگی کا سراب بن کر
خلیل زادوں کے خالی کوزوں میں رہ چکا ہوں

Leave a Comment
%d bloggers like this: