Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

ان سے نین ملا کے دیکھو

ان سے نین ملا کے دیکھو
یہ دھوکا بھی کھا کے دیکھو

دوری میں کیا بھید چھپا ہے
اس کا کھوج لگا کے دیکھو

کسی اکیلی شام کی چپ میں
گیت پرانے گا کے دیکھو

آج کی رات بہت کالی ہے
سوچ کے دیپ جلا کے دیکھو

دل کا گھر سنسان پڑا ہے
دکھ کی دھوم مچا کے دیکھو

جاگ جاگ کر عمر کٹی ہے
نیند کے دوارے جا کے دیکھو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منیر نیازی

Leave a Comment

سر راہ یوں ہم کو بلائیے نہ

سر راہ یوں ہم کو بلائیے نہ
نیا روگ جی کو لگائیے نہ

دل ہے بہل بھی سکتا ہے۔
کوشش کیجئیے،بہلائیے نا۔

میں جام صراحی سے نہیں پیتا۔
سنئیے،، آنکھوں سے پلائیے نا۔

کوئی پاؤں پڑتا رہا، ورد کرتا رہا۔
حضور رکیے. ، رک جائیے نا۔

عجیب لڑکی ہے، روز آ کے کہتی ہے۔
سنئیے نا. ۔ کچھ سنائیے نا۔

کیا کہا،؟ وہاں دل نہیں لگتا۔
میں صدقے! لاہور آ جائیے نا۔

سرحد پار بیٹھ کے کہتا ہے۔
چائے پئیں گے، کبھی آئیے نا۔

کیا. پتہ کب کون بدل جائے۔
آنکھوں میں رہئیے، دل میں سمائیے نہ۔

جوان چہرے کے درد پڑھنے ہیں مجھے۔
جی جی آپ۔۔۔۔. ذرا مسکرائیے نا۔

پہلے ہی کہا تھا باز رہئیے۔
اب فرمائیے، اور عشق فرمائیے نا۔

خود ہی مار کے پوچھتے ہیں۔
کیسے ہوا, ؟ کچھ بتائیے نا۔

تمام ہوا جذبہ عشق و جنوں۔؟.
اب جان چھوڑئیے، دفنائیے نا۔

شاویز۔۔ آور آپ پہ دل ہار گیا۔
کیسے جناب مجھے بھی سمجھائیے نا۔

شاویز احسن

Leave a Comment

سڑک کنارے بیٹھا تھا

سڑک کنارے بیٹھا تھا
کوئی جوگی تھا یا روگی تھا

کیا جوگ سجائے بیٹھا تھا ؟
کیا روگ لگائے بیٹھا تھا ؟

تھی چہرے پر زردی چھائی
اور نیناں اشک بہاتے تھے

تھے گیسو بکھرے بکھرے سے
جو دوشِ ھوا لہراتے تھے

تھا اپنے آپ سے کچھ کہتا
اور خود سن کے ھنس دیتا تھا

کوئی غم کا مارا لگتا تھا
کوئی دکھیاراسا لگتا تھا

اس جوگی کو جب دیکھتے تھے
ھر بار یہی ھم سوچتے تھے

کیا روگ لگا ھے روگی کو
کس شے کا سوگ ھے جوگی کو ؟

اک دن اس نے کوچ کیا
اور سارے دھندے چھوڑ گیا

وہ جوگی ، روگی ، سیلانی
سارے ھی پھندے توڑ گیا

پھر اپنا قصہ شروع ھوا
اک مورت دل میں آ بیٹھی

نین نشیلے ، ھونٹ رسیلے
چال عجب متوالی سی

روپ سنہرا ، چاند سا چہرا
زلفیں کالی کالی سی

ھنسے تو پائل بجتی تھی
روئے تو جل تھل ھو جائے

بینا کی لے تھی لہجے میں
کہ سننے والا سو جائے

وہ چلے تو دنیا ساتھ چلے
جو رکے تو عالم تھم جائے

ھو ساتھ تو دھڑکن تیز چلے
دوری سے سانس یہ جم جائے

کچھ قسمیں ، وعدے ، قول ھوئے
انمول تھے وہ ، بِن مول ھوئے

تھے سونے جیسے دن سارے
راتیں سب چاندی کی تھیں

امبر کا رنگ سنہرا تھا
جہاں قوس و قزاح کا پہرا تھا

اک دن یونہی بیٹھے بیٹھے
کچھ بحث ھوئی ، تکرار ھوئی

وہ چلدی روٹھ کے بس یونہی
میں سوچ میں تھا بیکار ھوئی

کچھ دن گذرے پھر ہفتہ بھی
نا دیکھا ، نا ملاقات ہی کی

ناراض تھی وہ ، ناراض رہی
نا فون پہ اس نے بات ہی کی

جب ملی تو صاف ہی کہہ ڈالا
وہ بچپن تھا نادانی تھی

کیا دل سے لگائے بیٹھے ھو ؟
وہ سب کچھ ایک کہانی تھی

تھی دل پہ بیتی کیا اس پل ؟
تم لوگ سمجھ نہ پاؤگے

جب تم پر یہ سب بیتے گا
یہ روگ سمجھ ہی جاؤ گے

سب یاد دلائے عہدِ وفا
وہ قسمیں، قول، قرار سبھی

سکھ، دکھ میں ساتھ نبھانے کے
وہ وعدے اور اقرار سبھی

وہ ہنس کے بولی ، پاگل ہو ؟
کبھی وعدے پورے ھوتے ہیں ؟

کیا اتنا بھی معلوم نہیں ؟
یہ عہد ادھورے ھوتے ہیں

تمہیں علم نہیں نادان ھو تم
کب قسم نبھائی جاتی ھے ؟

کس دیس کے رھنے والے ہو ؟
یہ قسم تو کھائی جاتی ہے

وہ ہنس کے چلدی راہ اپنی
اور صبر کا دامن چھوٹ گیا

آنکھوں سے جھیلیں بہہ نکلیں
اور ضبط بھی ہم سے روٹھ گیا

میں آج وہاں پر بیٹھا ھوں
جس جگہ پہ کل وہ جوگی تھا

یہ آج سمجھ میں آیا ہے
کس چیز کا آخر روگی تھا

Leave a Comment

کوئی مشکل پڑے تعویذ بنا سکتے ہو

کوئی مشکل پڑے تعویذ بنا سکتے ہو
تم مرے نام پہ ہر داو لگا سکتے ہو

جب جہاں چاہو مجھے چھوڑ کے جا سکتے ہو
اُس گھڑی تک مجھے کیا اپنا بنا سکتے ہو !

کب تقاضا ہے نبھانے کا مگر جاتے ہوئے
میرے اندر سے بھی کیا خود کو مٹا سکتے ہو

تم کو معلوم ہے یہ آخری نیندیں ہیں مری
وسعتِ خواب ذرا اور بڑھا سکتے ہو

آسماں تھام کے رکھا ہے جو تم نے سر پے
تھک گئے ہو تو اسے مجھ پہ گرا سکتے ہو

جب کبھی شہر سے گزرو مرے، ملنا لازم
اک تمہی ہو جو مجھے مجھ سے ملا سکتے ہو

مجھ سے ملنے میں بھلا اب ہے تردد کیسا
اس سے بڑھ کر تو نہیں مجھ کو گنوا سکتے ہو

یاد کرنے کا سلیقہ ہے مری نس نس کو
تم مجھے کیسے بھلاتے ہیں، سکھا سکتے ہو !

میں تو مارا ہوں مروت کا، کہاں بولوں گا
تم مجھے آئینہ جب چاہے دکھا سکتے ہو

بات سیدھی ہے مگر دل بھلا سمجھا ہے کبھی
تم گیا وقت ہو ، کب لوٹ کے آ سکتے ہو

یونہی بے کار گئے شعر تمہارے ابرک
تم تو کہتے تھے کہ پتھر بھی رُلا سکتے ہو

اتباف ابرک

Leave a Comment

ٹوٹ جائیں گے بچا لے کوئی

ٹوٹ جائیں گے بچا لے کوئی
خواب نیندوں سے چرا لے کوئی

ابھی روشن ہیں ان آنکھوں کے دیے
اپنی راہوں میں جلا لے کوئی

وقت نے چھوڑ دیا ہے پیچھے
قافلہ ساتھ ملا لے کوئی

ہم ہیں سامان سمیٹے بیٹھے
دے کے آواز بلا لے کوئی

کورے کاغذ کی طرح آئیں گے
جو بھی من چاہے لکھا لے کوئی

مہ کشی کفر سمجھتا ہوں میں
اور چاہے جو پلا لے کوئی

میرے اپنے تو نہیں مانیں گے
چلو اب غیر منا لے کوئی

مجھ کو تعمیر نہیں کر سکتا
میرا ملبہ ہی اٹھا لے کوئی

اپنی نیندوں سے تو ڈر لگتا ہے
اپنی نیندوں میں سلا لے کوئی

یونہی بے کار بکے جاتا ہوں
آج اپنی ہی سنا لے کوئی

پھر اسی ڈر سے کسی کا نہ ہوا
مجھے پھر سے نہ گنوا لے کوئی

گھپ اندھیروں میں نباہوں ابرک
اپنا سایہ جو بنا لے کوئی

اتباف ابرک

Leave a Comment

کٹ ہی گئی جدائی بھی یہ کب ہوا کہ مر گئے

کٹ ہی گئی جدائی بھی یہ کب ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے

تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے

وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہو گیا
دل میں تیرے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے

ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
صحرا امڈ امڈ پڑے دریا بپھر بپھر گئے

وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے

کوئی کنارِ آب جو بیٹھا ہوا ہے سر نگوں
کشتی کدھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے

آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا
ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے

بارشِ وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے

آبِ محیطِ عشق کا بحر عجیب بحر ہے
تَیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے

اتنے قریب ہو گئے اپنے رقیب ہو گئے
وہ بھی عدؔیم ڈر گیا ہم بھی عدؔیم ڈر گئے

اس کے سلوک پر عدؔیم اپنی حیات و موت ہے
وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ جو ملا تو مرگے

Leave a Comment

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے
جو ربِ دوعالم کا محبوب یگانہ ہے

کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے
زہرہ کا وہ بابا ہے ، سبطین کا نانا ہے

اس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں
جو حسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے

عزت سے نہ مر جائیں کیوں نام محمد پر
ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے

آؤ درِ زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن
ہے نسل کریموں کی، لجپال گھرانا ہے

ہوں شاہِ مدینہ کی میں پشت پناہی میں
کیا اس کی مجھے پروا دشمن جو زمانہ ہے

یہ کہہ کر درِ حق سے لی موت میں کچھ مُہلت
میلاد کی آمد ہے، محفل کو سجانا ہے

قربان اُس آقا پر کل حشر کے دن جس نے
اِس امت آسی کو کملی میں چھپانا ہے

سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو کیا حیرت
بخشش کی روایت میں توبہ تو بہانہ ہے

پُر نور سی راہیں بھی گنبد پہ نگاہیں بھی
جلوے بھی انوکھے ہیں منظر بھی سہانا ہے

ہم کیوں نہ کہیں اُن سے رودادِ الم اپنی
جب اُن کا کہا خود بھی اللہ نے مانا ہے

محرومِ کرم اس کو رکھئے نہ سرِ محشر
جیسا ہے “نصیر” آخر سائل تو پرانا ہے

Leave a Comment
%d bloggers like this: