بدل گیا ہے بہت رنگِ عاشقی لیکن
وہی مریضِ محبّت کا حال اب بھی ہے
مشینی دور میں افراطِ معلومات تو ہے
پہ حالِ دل کا سمجھنا محال اب بھی ہے
This Category will contain all sad poetry
بدل گیا ہے بہت رنگِ عاشقی لیکن
وہی مریضِ محبّت کا حال اب بھی ہے
مشینی دور میں افراطِ معلومات تو ہے
پہ حالِ دل کا سمجھنا محال اب بھی ہے
ان سے نین ملا کے دیکھو
یہ دھوکا بھی کھا کے دیکھو
دوری میں کیا بھید چھپا ہے
اس کا کھوج لگا کے دیکھو
کسی اکیلی شام کی چپ میں
گیت پرانے گا کے دیکھو
آج کی رات بہت کالی ہے
سوچ کے دیپ جلا کے دیکھو
دل کا گھر سنسان پڑا ہے
دکھ کی دھوم مچا کے دیکھو
جاگ جاگ کر عمر کٹی ہے
نیند کے دوارے جا کے دیکھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منیر نیازی
سر راہ یوں ہم کو بلائیے نہ
نیا روگ جی کو لگائیے نہ
دل ہے بہل بھی سکتا ہے۔
کوشش کیجئیے،بہلائیے نا۔
میں جام صراحی سے نہیں پیتا۔
سنئیے،، آنکھوں سے پلائیے نا۔
کوئی پاؤں پڑتا رہا، ورد کرتا رہا۔
حضور رکیے. ، رک جائیے نا۔
عجیب لڑکی ہے، روز آ کے کہتی ہے۔
سنئیے نا. ۔ کچھ سنائیے نا۔
کیا کہا،؟ وہاں دل نہیں لگتا۔
میں صدقے! لاہور آ جائیے نا۔
سرحد پار بیٹھ کے کہتا ہے۔
چائے پئیں گے، کبھی آئیے نا۔
کیا. پتہ کب کون بدل جائے۔
آنکھوں میں رہئیے، دل میں سمائیے نہ۔
جوان چہرے کے درد پڑھنے ہیں مجھے۔
جی جی آپ۔۔۔۔. ذرا مسکرائیے نا۔
پہلے ہی کہا تھا باز رہئیے۔
اب فرمائیے، اور عشق فرمائیے نا۔
خود ہی مار کے پوچھتے ہیں۔
کیسے ہوا, ؟ کچھ بتائیے نا۔
تمام ہوا جذبہ عشق و جنوں۔؟.
اب جان چھوڑئیے، دفنائیے نا۔
شاویز۔۔ آور آپ پہ دل ہار گیا۔
کیسے جناب مجھے بھی سمجھائیے نا۔
شاویز احسن
Leave a Commentتجربہ تھا سو دعا کی ، تا کہ نقصان نہ ہو
عشق مزدور کو ،مزدوری کے دوران نہ ہو
سڑک کنارے بیٹھا تھا
کوئی جوگی تھا یا روگی تھا
کیا جوگ سجائے بیٹھا تھا ؟
کیا روگ لگائے بیٹھا تھا ؟
تھی چہرے پر زردی چھائی
اور نیناں اشک بہاتے تھے
تھے گیسو بکھرے بکھرے سے
جو دوشِ ھوا لہراتے تھے
تھا اپنے آپ سے کچھ کہتا
اور خود سن کے ھنس دیتا تھا
کوئی غم کا مارا لگتا تھا
کوئی دکھیاراسا لگتا تھا
اس جوگی کو جب دیکھتے تھے
ھر بار یہی ھم سوچتے تھے
کیا روگ لگا ھے روگی کو
کس شے کا سوگ ھے جوگی کو ؟
اک دن اس نے کوچ کیا
اور سارے دھندے چھوڑ گیا
وہ جوگی ، روگی ، سیلانی
سارے ھی پھندے توڑ گیا
پھر اپنا قصہ شروع ھوا
اک مورت دل میں آ بیٹھی
نین نشیلے ، ھونٹ رسیلے
چال عجب متوالی سی
روپ سنہرا ، چاند سا چہرا
زلفیں کالی کالی سی
ھنسے تو پائل بجتی تھی
روئے تو جل تھل ھو جائے
بینا کی لے تھی لہجے میں
کہ سننے والا سو جائے
وہ چلے تو دنیا ساتھ چلے
جو رکے تو عالم تھم جائے
ھو ساتھ تو دھڑکن تیز چلے
دوری سے سانس یہ جم جائے
کچھ قسمیں ، وعدے ، قول ھوئے
انمول تھے وہ ، بِن مول ھوئے
تھے سونے جیسے دن سارے
راتیں سب چاندی کی تھیں
امبر کا رنگ سنہرا تھا
جہاں قوس و قزاح کا پہرا تھا
اک دن یونہی بیٹھے بیٹھے
کچھ بحث ھوئی ، تکرار ھوئی
وہ چلدی روٹھ کے بس یونہی
میں سوچ میں تھا بیکار ھوئی
کچھ دن گذرے پھر ہفتہ بھی
نا دیکھا ، نا ملاقات ہی کی
ناراض تھی وہ ، ناراض رہی
نا فون پہ اس نے بات ہی کی
جب ملی تو صاف ہی کہہ ڈالا
وہ بچپن تھا نادانی تھی
کیا دل سے لگائے بیٹھے ھو ؟
وہ سب کچھ ایک کہانی تھی
تھی دل پہ بیتی کیا اس پل ؟
تم لوگ سمجھ نہ پاؤگے
جب تم پر یہ سب بیتے گا
یہ روگ سمجھ ہی جاؤ گے
سب یاد دلائے عہدِ وفا
وہ قسمیں، قول، قرار سبھی
سکھ، دکھ میں ساتھ نبھانے کے
وہ وعدے اور اقرار سبھی
وہ ہنس کے بولی ، پاگل ہو ؟
کبھی وعدے پورے ھوتے ہیں ؟
کیا اتنا بھی معلوم نہیں ؟
یہ عہد ادھورے ھوتے ہیں
تمہیں علم نہیں نادان ھو تم
کب قسم نبھائی جاتی ھے ؟
کس دیس کے رھنے والے ہو ؟
یہ قسم تو کھائی جاتی ہے
وہ ہنس کے چلدی راہ اپنی
اور صبر کا دامن چھوٹ گیا
آنکھوں سے جھیلیں بہہ نکلیں
اور ضبط بھی ہم سے روٹھ گیا
میں آج وہاں پر بیٹھا ھوں
جس جگہ پہ کل وہ جوگی تھا
یہ آج سمجھ میں آیا ہے
کس چیز کا آخر روگی تھا
کوئی مشکل پڑے تعویذ بنا سکتے ہو
تم مرے نام پہ ہر داو لگا سکتے ہو
جب جہاں چاہو مجھے چھوڑ کے جا سکتے ہو
اُس گھڑی تک مجھے کیا اپنا بنا سکتے ہو !
کب تقاضا ہے نبھانے کا مگر جاتے ہوئے
میرے اندر سے بھی کیا خود کو مٹا سکتے ہو
تم کو معلوم ہے یہ آخری نیندیں ہیں مری
وسعتِ خواب ذرا اور بڑھا سکتے ہو
آسماں تھام کے رکھا ہے جو تم نے سر پے
تھک گئے ہو تو اسے مجھ پہ گرا سکتے ہو
جب کبھی شہر سے گزرو مرے، ملنا لازم
اک تمہی ہو جو مجھے مجھ سے ملا سکتے ہو
مجھ سے ملنے میں بھلا اب ہے تردد کیسا
اس سے بڑھ کر تو نہیں مجھ کو گنوا سکتے ہو
یاد کرنے کا سلیقہ ہے مری نس نس کو
تم مجھے کیسے بھلاتے ہیں، سکھا سکتے ہو !
میں تو مارا ہوں مروت کا، کہاں بولوں گا
تم مجھے آئینہ جب چاہے دکھا سکتے ہو
بات سیدھی ہے مگر دل بھلا سمجھا ہے کبھی
تم گیا وقت ہو ، کب لوٹ کے آ سکتے ہو
یونہی بے کار گئے شعر تمہارے ابرک
تم تو کہتے تھے کہ پتھر بھی رُلا سکتے ہو
اتباف ابرک
Leave a Commentٹوٹ جائیں گے بچا لے کوئی
خواب نیندوں سے چرا لے کوئی
ابھی روشن ہیں ان آنکھوں کے دیے
اپنی راہوں میں جلا لے کوئی
وقت نے چھوڑ دیا ہے پیچھے
قافلہ ساتھ ملا لے کوئی
ہم ہیں سامان سمیٹے بیٹھے
دے کے آواز بلا لے کوئی
کورے کاغذ کی طرح آئیں گے
جو بھی من چاہے لکھا لے کوئی
مہ کشی کفر سمجھتا ہوں میں
اور چاہے جو پلا لے کوئی
میرے اپنے تو نہیں مانیں گے
چلو اب غیر منا لے کوئی
مجھ کو تعمیر نہیں کر سکتا
میرا ملبہ ہی اٹھا لے کوئی
اپنی نیندوں سے تو ڈر لگتا ہے
اپنی نیندوں میں سلا لے کوئی
یونہی بے کار بکے جاتا ہوں
آج اپنی ہی سنا لے کوئی
پھر اسی ڈر سے کسی کا نہ ہوا
مجھے پھر سے نہ گنوا لے کوئی
گھپ اندھیروں میں نباہوں ابرک
اپنا سایہ جو بنا لے کوئی
اتباف ابرک
Leave a Commentکٹ ہی گئی جدائی بھی یہ کب ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے
وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہو گیا
دل میں تیرے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے
ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
صحرا امڈ امڈ پڑے دریا بپھر بپھر گئے
وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے
کوئی کنارِ آب جو بیٹھا ہوا ہے سر نگوں
کشتی کدھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے
آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا
ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے
بارشِ وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے
آبِ محیطِ عشق کا بحر عجیب بحر ہے
تَیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے
اتنے قریب ہو گئے اپنے رقیب ہو گئے
وہ بھی عدؔیم ڈر گیا ہم بھی عدؔیم ڈر گئے
اس کے سلوک پر عدؔیم اپنی حیات و موت ہے
وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ جو ملا تو مرگے
اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے
جو ربِ دوعالم کا محبوب یگانہ ہے
کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے
زہرہ کا وہ بابا ہے ، سبطین کا نانا ہے
اس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں
جو حسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے
عزت سے نہ مر جائیں کیوں نام محمد پر
ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے
آؤ درِ زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن
ہے نسل کریموں کی، لجپال گھرانا ہے
ہوں شاہِ مدینہ کی میں پشت پناہی میں
کیا اس کی مجھے پروا دشمن جو زمانہ ہے
یہ کہہ کر درِ حق سے لی موت میں کچھ مُہلت
میلاد کی آمد ہے، محفل کو سجانا ہے
قربان اُس آقا پر کل حشر کے دن جس نے
اِس امت آسی کو کملی میں چھپانا ہے
سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو کیا حیرت
بخشش کی روایت میں توبہ تو بہانہ ہے
پُر نور سی راہیں بھی گنبد پہ نگاہیں بھی
جلوے بھی انوکھے ہیں منظر بھی سہانا ہے
ہم کیوں نہ کہیں اُن سے رودادِ الم اپنی
جب اُن کا کہا خود بھی اللہ نے مانا ہے
محرومِ کرم اس کو رکھئے نہ سرِ محشر
جیسا ہے “نصیر” آخر سائل تو پرانا ہے