Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

اُس نے پوچھا کہ کیا مُحبت ہے؟

اُس نے پوچھا کہ کیا مُحبت ہے؟
میں نے بولا، خُدا مُحبت ہے

پھول، خُوشبُو ہیں رنگ چاہت کے،
آگ ، پانی ، ہوا مُحبت ہے

اُس نے تب تب نہیں سُنا مُجھ کو،
میں نے جب جب کہا،مُحبت ہے۔

جیسے موسم کی پہلی بارش ہے،
جیسے بادِ صبا مُحبت ہے

مانگتی ہے خراج میں سب کُچھ،
ایک کرب و بلا مُحبت ہے

دیکھ حرص و ہوّس کی بستی میں،
کتنی وحشت زدہ مُحبت ہے۔

گھر کی چوکھٹ پہ رات بھر رکھا،
ایک جلتا دیا مُحبت ہے

Leave a Comment

عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ

عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ
ماہتاب آفتاب ہیں ہم لوگ

گرچہ اہلِ شراب ہیں ہم لوگ
یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ

شام سے آ گئے جو پینے پر
صبح تک آفتاب ہیں ہم لوگ

ہم کو دعوائے عشق بازی ہے
مستحق عذاب ہیں ہم لوگ

ناز کرتی ہے خانہ ویرانی
ایسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ

ہم نہیں جانتے خزاں کیا ہے
کشتگانِ شباب ہیں ہم لوگ

تو ہمارا جواب ہے تنہا
اور تیرا جواب ہیں ہم لوگ

تو ہے دریائے حسن و محبوبی
شکل موج و حباب ہیں ہم لوگ

گو سراپا حجاب ہیں پھر بھی
تیرے رخ کی نقاب ہیں ہم لوگ

خوب ہم جانتے ہیں اپنی قدر
تیرے نا کامیاب ہیں ہم لوگ

ہم سے غفلت نہ ہو تو پھر کیا ہو
رہروِ ملکِ خواب ہیں ہم لوگ

جانتا بھی ہے اس کو تو واعظ
جس کے مست و خراب ہیں ہم لوگ

ہم پہ نازل ہوا صحیفۂ عشق
صاحبانِ کتاب ہیں ہم لوگ

ہر حقیقت سے جو گزر جائیں
وہ صداقت مآب ہیں ہم لوگ

جب ملی آنکھ ہوش کھو بیٹھے
کتنے حاضر جواب ہیں ہم لوگ

ہم سے پوچھو جگرؔ کی سر مستی
محرمِ آں جناب ہیں ہم لوگ

(جگر مراد آبادی)​

Leave a Comment

اف یہ تیغ آزمائياں توبہ

اف یہ تیغ آزمائياں توبہ
تیری نازک کلائیاں توبہ

کیا کریں بندگانِ محبوبی
عاشقی کی خدائیاں توبہ

منزلِ عشق اے خدا کی پناہ
ہر قدم کربلائیاں توبہ

یاد و ایام و شوق و عشق و جنوں
چراغ کی فتنہ ضیائیاں توبہ

لطفِ بےگانگی معاذ اللہ
ان کی سادہ ادائیاں توبہ

حسن میں رقص کا سا اک عالم
شوق کی نے نوائیاں توبہ

ہائے غُمّازیاں نگاہوں کی
اپنی بے دست و پائیاں توبہ

اف وہ احساسِ حسن پہلے پہلے
یک بیک کج ادائیاں توبہ

اللہ اللہ عشق کی وہ جھجک
حسن کی کہربائیاں توبہ

اس کے دامن پہ دل کا جا پڑنا
ہم سے یہ بے وفائیاں توبہ

غیض سے ابروؤں پہ یہ شکنیں
دل پہ زور آزمائیاں توبہ

آستینوں کا وہ چڑھا لینا
گوری گوری کلائیاں توبہ

نظروں نظروں میں خواہش سربزم
دل ہی دل میں لڑائیاں توبہ

سوزِ غم کی شکایتیں ہائے ہائے
دردِ دل کی دُہائیاں توبہ

برملا سخت رنجشیں باہم
غائبانہ صفائیاں توبہ

اپنے مطلب سے عشق کی چھیڑیں
ظاہری بے وفائیاں توبہ

حسن و توہینِ عشق ہائے غضب
اپنی وہ خود ستائیاں توبہ

غیرتِ عشق اے معاذاللہ
اک دم بے وفائیاں توبہ

شبنم آلود وہ حسیں آنکھیں
رُخ پہ اڑتی ہوائیاں توبہ

اسکی غم التفاتیاں ہائے ہائے
اپنی بے اعتنائیاں توبہ

سرِ سودا کی سورشیں پیہم
ہر طرف جگ ہنسائیاں توبہ

رفتہ رفتہ وہ بے پناہ سکوت
سب سے آشنائیاں توبہ

موت سے ہر نَفَس وہ راز و نیاز
موت کی ہم نوائیاں توبہ

ناگہاں آمد آمد محبوب
غم کی بے انتہائیاں توبہ

یک بیک آنکھ چار ہو جانا
دیر تک رُو نمائیاں توبہ

نظروں نظروں میں سرگزشتِ فراق
دونوں جانب دہائیاں توبہ

پھر وہی چشمِ مست و جام بدست
پھر وہی نغمہ ضیائیاں توبہ

پھر وہی لب وہی تبسم ناز
پھر وہی کج ادائیاں توبہ

پھر وہ اک بے خودی کے عالم میں
مل کے باہم جدائیاں توبہ

ہجوم مے اور جنابِ جگر
پی پلا کر برائیاں توبہ

جگرمرادآبادی

Leave a Comment

اک خلا، ایک لا انتہا اور میں

اک خلا، ایک لا انتہا اور میں
کتنے تنہا ہیں میرا خدا اور میں

کتنے نزدیک اور کس قدر اجنبی!!
مجھ میں مجھ سا کوئی دوسرا اور میں

لوگ بھی سو گئے، روگ بھی سو گئے
جاگتے ہیں مرا رت جگا اور میں

رات اور رات میں گونجتی ایک بات
ایک خوف، اک منڈیر، اک دیا اور میں

شہر تاراج ہے، جبر کا راج ہے
پھر بھی ثابت ہیں میری انا اور میں

تیرے موسم، تری گفتگو اور تو
میری آنکھوں میں اک ان کہا، اور میں

اب تو اس جنگ کا فیصلہ ہو کوئی
لڑ رہے ہیں ازل سے ہوا اور میں

رنگ، خوشبو، شفق، چاندنی، شاعری
لکھ رہا تھا میں، اس نے کہا ”اور میں!”

اس کی بات اور ہے، ورنہ اے افتخارؔ
اس کو معلوم ہے، التجا اور میں

Leave a Comment

میرا جِسم تے میری مرضی

ناں میں پُورے کپڑے پاواں
مُنڈیاں ورگے وال کٹاواں
بِنا نکاح دے خَصم بناواں
شرم حیاء میں رکھاں فرضی
میرا جِسم تے میری مرضی

دِن دیہاڑے موجاں لُٹاں
بچہ جَم کے رُوڑی سُٹاں
شرح دے بھانویں جُنڈے پُٹاں
میں نی من دی کِسے دی عرضی
میرا جِسم تے میری مرضی

مغرب دی تہزیب چلاویں
گندے مندے نعرے لاویں
پی شراباں گھر نوں آویں
نئیں چلنی ایتھے مرضی ورضی
میرا جسم تے میری مرضی

لاج دی بیڑی کانوں روڑھیں؟
بے حیائیاں کیوں نا چھوڑیں؟
دوزخ ول کیوں آپے ای دوڑیں؟
کاہدی تینوں ایہہ خودغرضی؟

دسدا ای مِرزا حُکم ربانی
ناں کر نبی دی نا فرمانی
صدا نی رہنا حُسن جوانی
ہُن کر لے توبہ چَھڈ لاغرضی
رب دا حُکم تے رب دی مرضی

Leave a Comment

مغرور ہی سہی، مجھے اچھا بہت لگا

مغرور ہی سہی، مجھے اچھا بہت لگا
وہ اجنبی تو تھا مگر اپنا بہت لگا

روٹھا ہوا تھا ہنس تو پڑا مجھ کو دیکھ کر
مجھ کو تو اس قدر بھی دلاسا بہت لگا

صحرا میں جی رہا تھا جو دریا دلی کے ساتھ
دیکھا جو غور سے تو وہ پیاسا بہت لگا

وہ جس کے دم قدم سے تھیں بستی کی رونقیں
بستی اجڑ گئی تو اکیلا بہت لگا

لپٹا ہوا کہر میں ہو جیسے خزاں کا چاند
میلے لباس میں بھی وہ پیارا بہت لگا

ریشم پہن کے بھی مری قیمت نہ بڑھ سکی
کھدر بھی اس کے جسم پہ مہنگا بہت لگا

محسن جب آئینے پہ میری سانس جم گئی
مجھ کو خود اپنا عکس بھی دھندلا بہت لگا

( محسن نقوی )

Leave a Comment

بے داد و جور و لطف و ترحم سے کیا غرض

بے داد و جور و لطف و ترحم سے کیا غرض
تم کو غرض نہیں، تو ہمیں تم سے کیا غرض

کیوں ہم شبِ فراق میں تارے گنا کریں
ہم کو شمارِ اختر و انجم سے کیا غرض

کوئی ہنسا کرے، تو بلا سے ہنسا کرے
کیوں دل جلائیں، برقِ تبسم سے کیا غرض

لیتے ہیں جاں نثار کوئی منتِ مسیح
جو ہو شہیدِ عشق اسے قم سے کیا غرض

جو خاکسارِ عشق ہیں ملتے ہیں خاک میں
اہل زمیں کو چرخِ چہارم سے کیا غرض

دل طرزِ انجمن ہی سے بیزار ہوگیا
مطلب ہمیں شراب سے کیا، خم سے کیا غرض

کیوں بزمِ عیش چھوڑ کے بزمِ عزا میں آئیں
ان کو ہمارے پھولوں سے، چہلم سے کیا غرض

روزِ ازل سے پاک ہیں رندانِ بے ریا
ان کو وضو سے اور تیمم سے کیا غرض

شیدائیوں کو عزتِ دنیا سے ننگ ہے
دیوانے کو ملامتِ مردم سے کیا غرض

معشوق سے امیدِ کرم؟ داغؔ خیر ہے
اس بندۂ خدا کو ترحم سے کیا غرض

داغؔ دہلوی​

Leave a Comment

جو تیرے ساتھ رہتے ہوئے سوگوار ہو

جو تیرے ساتھ رہتے ہوئے سوگوار ہو
لعنت ہو ایسے شخص پہ اور بے شمار ہو

دن رات بہہ رہی ہے توقف کیے بغیر
جیسے یہ آنکھ، آنکھ نہ ہو آبشار ہو

اب اتنی دیر بھی نہ لگا یہ نہ ہو کہیں
تُو آ چکا ہو اور تیرا انتظار ہو

میں پھول ہوں تو پھر ترے بالوں میں کیوں نہیں
تُو تِیر ہے تو میرے کلیجے کے پار ہو

کب تک کسی سے کوئی محبت سے پیش آئے
اُس کو مرے رویے پہ دکھ ہے تو یار ہو

اک آستیں چڑھانے کی عادت کو چھوڑ کر
حافی تم آدمی تو بہت شاندار ہو

تہذیب حافی

Leave a Comment

نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں

نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں

آو کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں

ناصر کاظمی

Leave a Comment
%d bloggers like this: