اگر وہ باتیں کرے دردِ سر چلا جائے
طبیب دیکھے یہ منظر تو گھر چلا جائے
تَو داغ چاند میں تم کو نظر نہ آئے گا
وہ ایک شخص اگر چاند پر چلا جائے
This Category will contain all sad poetry
اگر وہ باتیں کرے دردِ سر چلا جائے
طبیب دیکھے یہ منظر تو گھر چلا جائے
تَو داغ چاند میں تم کو نظر نہ آئے گا
وہ ایک شخص اگر چاند پر چلا جائے
یُوں چلے دَور تو رِندوں کا بڑا کام چَلے
خُم بڑھے شِیشہ جُھکے بادہ ڈَھلے جام چَلے
جِھیل کر اہل جہاں صَدمہ و آلام چَلے
شاد کام آئے جو دُنیا میں وہ ناکام چَلے
بے پِیے کُچھ نَہیں جِینے کا مَزہ اے ساقی
رات دن جام چَلے جام چَلے جام چَلے
کُوچۂ عِشق میں تَکلِیف ہی تَکلِیف رہی
ہم بہ آرام نہ آئے نہ بہ آرام چلے
ہاتھ پر ہاتھ دَھرے اہل نَظر بیٹھے ہیں
حُسن اگر کام چَلائے تو کوئی کام چلے
زِندہ رہنے کے مَقاصِد ہیں حَقِیقَت میں یہی
ہاتھ پاؤں اپنے چَلیں کام چلے نام چلے
وادئی عِشق میں رہبر کی ضَرُورَت کیا ہے
ہم چَلیں اور ہَمارا دِلِ ناکام چلے
مُسکراتے ہیں جو غُنچے،تو کِھلے جاتے ہیں پُھول
دَور جام ایسے میں اے ساقیٔ گُلفام چلے
غیر ممکن ہے بغیر اس کے محبت کا نباہ
دِل سے مِلتا نہیں جَب دل ہی تو کیا کام چلے
مُدعا یہ ہے نِکل آئے دَوبارہ خُورشِید
کہ جہاں شام ہوئی آپ سرِ بام چلے
کیوں کہا میں نے کہ سُن لِیجِئے رُودادِ سِتم
وہ بِگڑ کر اُٹھے دیتے ہوئے دَشنام چلے
حَضرت نوح اُٹھاتے ہیں جو طُوفانِ سُخن
شاید اس کا ہو یہ مَطلب کہ مرا نام چلے
مِٹا دیجیئے یا بنا دیجیئے
کسی ایک جانب لگا دیجیئے
رعایت تو مجرم کی توہین ہے
رعایت نہ دیجیئے سزا دیجیئے
توجہ کی قِلت مناسب نہیں
کوئی اور تہمت لگا دیجیئے
صداقت بھی اِک روپ ہے مَکر کا
یہ ساری عمارت ہی ڈھا دیجیئے
بہاروں کی کچھ عمر بڑھ جائے گی
خدا کے لئے مسکرا دیجیئے
سوالی کو خالی نہ لوٹایئے
کم از کم خدا کو دِلا دیجیئے
نہ رہ جائے تشنہ عدم کی نماز
ذرا اِک جھلک تو دکھا دیجیئے
کیوں اور شکستہ ہوں یہ اعصاب ، لگی شرط
میں چھوڑ چکی دیکھنا اب خواب ، لگی شرط
اے شام کے بھٹکے ہوئے ماہتاب ، سنبھل کر
ہر چاند نگلتا ہے یہ تالاب ، لگی شرط
اچھا تو وہ تسخیر نہیں ہوتا کسی سے
یہ بات ہے تو آج سے احباب ، لگی شرط
پھر ایک اسے فون میں رو رو کے کروں گی
پھر چھوڑ کے آجائے گا وہ جاب ، لگی شرط
اس شخص پہ بس اور ذرا کام کرونگی
سیکھے گا محبت کے وہ آداب ، لگی شرط
جو دکھ کی رتوں میں بھی ہنسی اوڑھ کے رکھیں
ہم ایسے اداکار ہیں نایاب ، لگی شرط
جب چاہوں تجھے توڑ دوں میں کھول کے آنکھیں
اے چشم اذیت کے برے خواب ! لگی شرط
وہ تو بس وعدۂ دیدار سے بہلانا تھا
ہم کو آنا تھا یقیں اُن کو مُکر جانا تھا
لاکھ ٹھُکرایا ہمیں تو نے مگر ہم نہ ٹلے
تیرے قدموں سے الگ ہو کے کہاں جانا تھا
جن سے نیکی کی توقع ہو وُہی نام دھریں
ایک یہ وقت بھی قسمت میں مری آنا تھا
بے سبب ترکِ تعلق کا بڑا رنج ہوا
لاکھ رنجش سہی اِک عمر کا یارانہ تھا
نزع کے وقت تو دُشمن بھی چلے آتے ہیں
ایسے عالم میں تو ظالم تجھے آ جانا تھا
عمر جب بیت چلی تو یہ کھلا راز نصیر
حسن ناراض نہ تھا عشق کو تڑپانا تھا
اہل دل اور بھی ہیں اہل وفا اور بھی ہیں
ایک ہم ہی نہیں دنیا سے خفا اور بھی ہیں
کیا ہوا گر مرے یاروں کی زبانیں چپ ہیں
میرے شاہد مرے یاروں کے سوا اور بھی ہیں
ہم پہ ہی ختم نہیں مسلک شوریدہ سری
چاک دل اور بھی ہیں چاک قبا اور بھی ہیں
سر سلامت ہے تو کیا سنگ ملامت کی کمی
جان باقی ہے تو پیکان قضا اور بھی ہیں
منصف شہر کی وحدت پہ نہ حرف آ جائے
لوگ کہتے ہیں کہ ارباب جفا اور بھی ہیں
ساحر لدھیانوی
Leave a Commentاپنے گھر کے , در و دیوار سے , ڈر لگتا ہے
گھر کے باہر , تیرے گلزار سے , ڈر لکتا ھے
فاصلے بن گئے , تکمیلِ محبت , کا سبب
وصلِ جاناں سے , رُخِ یارسے , ڈر لگتا ھے
اُسکی یادوں سے ھی تسکینِ تصور کرلوں
اب مجھے , محفلِ دلدار سے , ڈر لگتا ھے
سارے تبدیل ہوئے , مہر و وفا کے دستور
چاہنے والوں کے , اب پیار سے ڈر لگتا ھے
خوشبووں, لذتوں, رنگوں میں خوف پنہاں ھے
برگ سے , پھول سے, اشجار سے ڈر لگتا ھے
تھی کسی دور علیلوں کی عیادت واجب
لیکن اب , قربتِ بیمار سے , ڈر لگتا ھے
جنکی آمد کو سمجھتے تھے خداکی رحمت
ایسے مہمانوں کے , آثار سے , ڈر لگتا ھے
اب تو لگتا ھے, میرا ہاتھ بھی اپنا نہ رہا
اس لئے , ہاتھ کے تلوار , سے ڈر لگتا ھے
تن کےکپڑے بھی عدو, پیر کے جوتے دشمن
سر پہ پہنے ہوئے , دَستار سے ڈر لگتا ھے
جو گلے مل لے میری جان کا دشمن ٹھہرے
اب , ہر اک , یارِ وفادار سے , ڈر لگتا ھے
ایک نادیدہ سی ہستی نے جھنجوڑا ایسے
خلق کو , گنبد و مینار , سے ڈر لگتا ھے
بن کے ماجوج , نمودار ہوا , چاروں اوڑ
اِسکی یاجوج سی, رفتار سے, ڈر لگتا ھے
عین ممکن ھے یہاں سب ہوں کورونا آلود
شہر کے. کوچہ و بازار سے ڈر لگتا ھے
خوف آتا ھے صحیفوں کی تلاوت سے اب
ہر رسالے سے , ہر اخبار سے , ڈر لگتا ھے
اب تو اپنوں سے مصافحہ بھی پُر خطر ھے وھاب
یوں نہیں ھےکہ فقط اغیار سے, ڈر لگتا ھے
چشم میگوں ذرا ادھر کر دے
دست قدرت کو بے اثر کر دے
تیز ہے آج درد دل ساقی
تلخی مے کو تیز تر کر دے
جوش وحشت ہے تشنہ کام ابھی
چاک دامن کو تا جگر کر دے
میری قسمت سے کھیلنے والے
مجھ کو قسمت سے بے خبر کر دے
لٹ رہی ہے مری متاع نیاز
کاش وہ اس طرف نظر کر دے
فیضؔ تکمیل آرزو معلوم
ہو سکے تو یوں ہی بسر کر دے
سب بیچ کر خریدا ہے خود کو یہاں کبھی
اور بیچتا ہوں خود کو ہی کر کے دکاں کبھی
دیواریں چار سُو اٹھیں کچھ اس طرح مرے
ملنے مرا نہ آ سکا سایہ یہاں کبھی
یوں بھی کبھی لگا کہ رگوں میں لہو جمے
اور اٹھتا جسم و جاں سے ہے میری دھواں کبھی
اس موڑ پہ ہے گرد ابھی تک اُڑی ہوئی
منزل نے راستے کو تھا چھوڑا جہاں کبھی
اک ڈر سے عمر بھر میں اندھیرے کئے رہا
میرا دیا جلا دے نہ میرا مکاں کبھی
اس شہر کی ہر آنکھ میں آنسو مرے ہی تھے
مشہور یوں ہوئی تھی مری داستاں کبھی
خود وقت لے کے آئے گا مرہم مرے لئے
ہے آنکھ منتظر کہ ہو ایسا سماں کبھی
بہتر ہے جی لیں اس کو جو اب پاس ہے مرے
ملتا یہاں پہ کس کو مکمل جہاں کبھی
ابرک تھا آفتاب کبھی ، یاد کیجئے
جس کو بجھا گیا تھا کوئی مہرباں کبھی
فلک سے ٹوٹے ستارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
خود اپنی ذات سے ہارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
شجر لگانے پہ دریا نے ایک بات کہی
تمھی تو ہو جو کنارے کا دکھ سمجھتے ہو
تمہیں حساب پہ ہے کتنی دسترس لیکن
محبتوں میں خسارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
ہمارے ہنسنے پہ تم رو دیے ، تو ظاہر ہے
دلوں کو چیرتے آرے کا دکھ سمجھتے ہو
ہمارا اس سے بچھڑنے کا دکھ سمجھ لو گے؟
سحر سے ڈرتے ستارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
پھنسی ہوئی ہے ٹریفک کی بھیڑ میں وہ جہاں
وہاں کے سرخ اشارے کا دکھ سمجھتے ہو؟