Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

دل کو خیالِ یار نے مسحُور کر دیا

دل کو خیالِ یار نے مسحُور کر دیا
ساغر کو رنگِ بادہ نے پُرنُور کر دیا

مانوس ہو چلا تھا تسلّی سے حالِ دل
پھر تُو نے یاد آ کے ‘بدستور’ کر دیا

بیتابیوں سے چُھپ نہ سکا ماجرائے دِل
آخر، حضورِ یار بھی مذکور کر دیا

اہلِ نظر کو بھی، نظر آیا نہ رُوئے یار
یاں تک حجابِ یار نے مستور کر دیا

حسرتؔ بہت ہے مرتبۂ عاشقی بلند
تجھ کو تو مفت لوگوں نے مشہور کر دیا

حسرتؔ موہانی

Leave a Comment

ﮐﮩﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﮐﮩﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
ﻣﯿﮟ ﮐﻢ ﺷﻨﺎﺱ ﻣﺮﻭﺕ ﻣﻴﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺴﯽ ﻓﺴﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﻣﺮﯼ ﭼﮭﭩﯽ ﺣﺲ ﻧﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﮩﺪِ ﺧﻼﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻣﺮﺍ ﯾﮧ ﺧﻮﻥ ﻣﺮﮮ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺮ ﮨﻮﮔﺎ
ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺮﺍﺳﺖ ﻣﻴﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﯾﮩﺎﮞ ﮐﻤﺎﻥ ﺍﭨﮭﺎﻧﺎ ﻣﺮﯼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ
ﻭﮔﺮﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﺍﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻣﯿﮟ ﭼﭗ ﺭﮨﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﺭ ﺩﮮ ﮔﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﺿﻤﯿﺮ
ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯼ ﺗﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻓﺮﺍﻍ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﻓﺮﺍﻏﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﺴﯽ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﻟﯿﺎ
ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

Leave a Comment

مَیں آرزُوئے جاں لِکھُوں، یا جانِ آرزُو​

مَیں آرزُوئے جاں لِکھُوں، یا جانِ آرزُو​
تُو ہی بتا دے، ناز سے، ایمانِ آرزُو​

آنسو نِکل رہے ہیں تصوّرمیں بَن کے پھُول​
شاداب ہو رہا ہے گُلستانِ آرزُو​

ایمان و جاں نِثار تِری اِک نِگاہ پر​
تُو جانِ آرزو ہے، تُو ایمانِ آرزو ​

مصرِفِراق کب تلک؟ اے یُوسفِ اُمید!​
روتا ہے تیرے ہجْر میں کِنعانِ آرزُو ​

ہونے کو ہے طُلوع، صبَاحِ شبِ وصال!​
بُجھنے کو ہے چراغِ شبِسْتانِ آرزُو​

اِک وہ، کہ آرزؤں پہ، جیتے ہیں عُمْر بھر!​
اِک ہم، کہ ہیں ابھی سے پشیمانِ آرزُو​

آنکھوں سے جُوئے خُوں ہے روَاں، دل ہے داغ داغ​
دیکھے کوئی، بہارِ گُلِستانِ آرزُو​

دل میں نِشاطِ رفتہ کی دُھنْدلی سی یاد ہے!​
یا شمْعِ وصْل ہے، تہِ دامانِ آرزُو​

اختر کو زندگی کا بھروسا نہیں رہا​
جب سے، لُٹا چُکے سَروسامانِ آرزُو​

اختر شیرانی

Leave a Comment

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

نئی رُتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کہ کہیں دن سنورنے والے تھے

ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
پر اُس کے طور طریقے مُکرنے والے تھے

تمھیں تو فخر تھا شیرازہ بندیء جاں پر
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اُتر ہی گئے جو اُترنے والے تھے

اُس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھیری نہیں
وہاں بھی چند مُسافر اُترنے والے تھے

Leave a Comment

کھیل میں کچھ تو گڑ بڑ تھی جو آدھے ہو کر ہارے لوگ

کھیل میں کچھ تو گڑ بڑ تھی جو آدھے ہو کر ہارے لوگ
آدھے لوگ نِری مٹی تھے ، آدھے چاند ستارے لوگ

اُس ترتیب میں کوئی جانی بوُجھی بے ترتیبی تھی
آدھے ایک کنارے پر تھے ، آدھے ایک کنارے لوگ

اُس کے نظم و ضبط سے باہر ہونا کیسے ممکن تھا
آدھے اس نے ساتھ ملائے ، آدھے اس نے مارے لوگ

آج ہماری ہار سمجھ میں آنے والی بات نہیں
اُس کے پورے لشکر میں تھے آدھے آج ہمارے لوگ

کس کے ساتھ ہماری یک جانی کا منظر بن پاتا
آدھے جان کے دشمن تھے اور آدھے جان سے پیارے لوگ

ان پر خواب ہوا اور پانی کی تبدیلی لازم ہے
آدھے پھیکے بے رس ہو گئے ، آدھے زہر تمہارے لوگ

آدھی رات ہوئی تو غم نے چپکے سے در کھول دیے
آدھوں نے تو آنکھ نہ کھولی آدھے آج گزارے لوگ

آدھوں آدھ کٹی یک جائی ، پھر دوجوں نے بیچوں بیچ
آدھے پاؤں کے نیچے رکھے ، آدھے سر سے وارے لوگ

ایسا بندو بست ہمارے حق میں کیسا رہنا تھا
ہلکے ہلکے چن کر اس نے آدھے پار اُتارے لوگ

کچھ لوگوں پر شیشے کے اُس جانب ہونا واجب تھا
دھار پہ چلتے چلتے ہو گئے آدھے آدھے سارے لوگ

Leave a Comment

اُس کی تمام عمر کا ترکہ خرید لے

اُس کی تمام عمر کا ترکہ خرید لے
بڑھیا کا دل تھا کوئی تو چرخہ خرید لے

بچوں کا رزق دے مجھے قیمت کے طور پر
تُو تو میرا خدا ہے نا ، سجدہ خرید لے

اک بوڑھا اسپتال میں دیتا تھا یہ صدا
ہے کوئی جو غریب کا گُردہ خرید لے ؟

مزدور کی حیات اِسی کوشش میں کٹ گئی
اک بار اُس کا بیٹا بھی بستہ خرید لے

ہم سر کٹا کے بیٹھے ہیں مقتل کی خاک پہ
دشمن سے کوئی کہہ دے کہ نیزہ خرید لے

تُو نے خریدے ہوں گے مؤذن عناد میں
گر بس میں ہے تو آ ! میرا لہجہ خرید لے

پیاسے کے اطمینان سے لگتا تھا دشت میں
چاہے تو مشک بیچ کے، دریا خرید لے

جب اُس سے گھر بنانے کے پیسے نہ بن سکے
وہ ڈھونڈتا رہا ، کوئی نقشہ خرید لے

بیٹی کی شادی سر پہ تھی اور دل تھا باپ کا
زیور کے ساتھ، چھوٹی سی گڑیا خرید لے

تُو بادشاہ ہے، فقر کے طعنے نہ دے مجھے
بس میں نہیں تیرے میرا کاسہ خرید لے

حیؔدر وہ صدیاں بیچ کے آیا تھا میرے پاس
ممکن نہیں ہوا، میرا لمحہ خرید لے

Leave a Comment

مقربین میں رمز آشنا کہاں نکلے

مقربین میں رمز آشنا کہاں نکلے
جو اجنبی تھے وہی ان کے رازداں نکلے

حرم سے بھاگ کے پہنچے جو دَیرِ راہب میں
تو اہلِ دَیر ہمارے مزاج داں نکلے

بہت قریب سے دیکھا جو فوجِ اعداء کو
تو ہر قطار میں یارانِ مہرباں نکلے

سکوتِ شب نے سکھایا ہمیں سلیقۂ نطق
جو ذاکرانِ سحر تھے وہ بے زباں نکلے

میانِ راہ کھڑے ہیں اس انتظار میں ہم
کہ گردِ راہ ہٹے، اور کارواں نکلے

گماں یہ تھا کہ پسِ کوہ بستیاں ہوں گی
وہاں گئے تو مزاراتِ بے نشاں نکلے

افق سے پہلے تو دھندلا سا اک غبار اٹھا
پھر اس کے بعد ستاروں کے کارواں نکلے

کمالِ شوق سے چھیڑا تھا جن کو مطرب نے
وہ راگ ساز کے سینے سے نوحہ خواں نکلے

رئؔیس حجرۂ تاریک جاں کو کھول تو دوں
جو کوئی آفتِ قتالۂ جہاں نکلے​

Leave a Comment

سلسلہ ٹوٹے نہ ساقی ہوش اڑ جانے کے بعد

سلسلہ ٹوٹے نہ ساقی ہوش اڑ جانے کے بعد
مجھ کو ملتا ہی رہےپیمانہ پیمانے کے بعد

کھو دیا دنیامیں جو کچھ تھا,تجھےپانےکےبعد
جان سےجانا پڑا ھم کو,ترے آنے کے بعد

تو ہی تھا وہ شمع جس کی روشنی تھی ہرطرف
رنگ محفل میں کہاں اب تیرے اٹھ جانے کے بعد

جاؤ بیٹھو چین سے میں کیا کہوں ,تم کیا سنو
اب پشیمانی سےکیاحاصل,ستم ڈھانےکےبعد

اس کا کیا کہنا ہے! زاہد کے ٹھکانے ھیں بہت
یہ کسی مسجد میں جا بیٹھے گا , میخانے کے بعد

شمع محفل روۓیا ہنس کر گزارے صبح تک
کون اب جلنے یہاں آئے گا پروانے کے بعد

حسن رخ کی اک جھلک نے کر دیئے اوسان گم
ہوش آیا تو مگر ان کے چلے جانے کے بعد

سچ ھے کوئی بھی شریک درد و غم ہوتا نہیں
ہو گئے احباب رخصت مجھ کو سمجھانےکےبعد

اب تو کہتے ہو کہ جا میری نظر سےدور ہو
تم منانے آؤ گے مجھ کو,مرے جانے کے بعد

وحشت دل کی بدولت ہم چلے آئے یہاں
دیکھیےاب کونسی منزل ہے ویرانے کےبعد

کون روتا ہے کسی کی خستہ حالی پر نصیر
زیر لب ہنستی ھےدنیا,میرے لٹ جانے کے بعد

Leave a Comment

اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل

اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
زنہار اگر تمھیں ہوسِ نائے و نوش ہے

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے

ساقی بہ جلوہ دشمنِ ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ رہزنِ تمکین و ہوش ہے

یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط
دامانِ باغبان و کفِ گل فروش ہے

لطفِ خرامِ ساقی و ذوقِ صدائے چنگ
یہ جنتِ نگاہ وہ فردوسِ گوش ہے

یا صبح دم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں
نے وہ سرور و سوز نہ جوش و خروش ہے

داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے

Leave a Comment

تیرے ابرووں‌کی حسیں‌کماں ، نظر آ رہی ہے فلک نشاں

تیرے ابرووں‌کی حسیں‌کماں ، نظر آ رہی ہے فلک نشاں
نہ کرشمہ قوسِ قزح سے کم ، نہ کشش ہلال کے خم سے کم

نہ ستا مجھے ، نہ رلا مجھے ، نہیں اور تابِ جفا مجھے
کہ مری متاعِ شکیب ہے ، تری کائناتِ ستم سے کم

یہ کرم ہے کم سرِ انجمن کہ پلائی اس نے مئے سخن
مجھے پاس اپنے بلا لیا ، رہی بات میری تو کم سے کم

نہیں‌ جس میں تیری تجلیاں ، اسی جانچتی ہے نظر کہاں
تیرے نور کا نہ ظہور ہو تو وجود بھی ہے عدم سے کم

کبھی انعکاسِ جمال ہے ، کبھی عینِ شے کی مثال ہے
نہیں میرے دل کا معاملہ ، کسی آئینے کے بھرم سے کم

مہ و آفتاب و نجوم سب ، ہیں ضیا فگن ، نہیں اس میں شک
ہے مسلم ان کی چمک دمک ، مگر اُن کے نقشِ قدم سے کم

یہی آرزو ، یہی مدعا ، کبھی وقت ہو تو سنیں ذرا
مری داستانِ حیاتِ غم جو لکھی گئی ہے قلم سے کم

یہ نصیر دفترِ راز ہے ، یہ غبار راہِ نیاز ہے
کریں‌اس پہ اہل جہاں یقیں ، نہیں اِس کا قول ، قسم سے کم

Leave a Comment
%d bloggers like this: