Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

اُس زخمِ جاں کے نام ، جو اب تک نہیں بھرا

اُس زخمِ جاں کے نام ، جو اب تک نہیں بھرا
اُس زندہ دل کے نام ، جو اب تک نہیں مَرا

اُن اہلِ دل کے نام ، جو راہوں کی دُھول ہیں
اُن حوصلوں کے نام ، جنہیں دُکھ قبول ہیں

اُس زندگی کے نام ، گزارا نہیں جِسے
اُس قرضِ فن کے نام ، اُتارا نہیں جِسے

اُن دوستوں کے نام ، جو گوشہ نشین ہیں
اُن بے حِسوں کے نام ، جو بارِ زمین ہیں

اُن بے دلوں کے نام ، جو ہر دم ملُول ہیں
اُن بے بسوں کے نام ، جو گملوں کے پھول ہیں

اُس شعلہ رُخ کے نام ، روشن ہے جس سے رات
ہے ضُوفشاں اندھیرے میں ، ہر نقطۂِ کتاب

اُس حسنِ باکمال کی رعنائيوں کے نام
اور اپنے ذہن و قلب کی تنہائيوں کے نام

(اعتبار ساجد)

Leave a Comment

کون سے تھے جو تمھارے عہد ٹوٹے نہ تھے

کون سے تھے جو تمھارے عہد ٹوٹے نہ تھے
خیر ان باتوں میں کیا رکھا ہے تم جھوٹے نہ تھے

باغباں کچھ سوچ کہ ہم قید سے چھوٹے نہ تھے
ورنہ کچھ پاؤں نہ تھے بیکار، پر ٹوٹے نہ تھے

خار جب اہلِ جنوں کے پاؤں میں ٹوٹے نہ تھے
دامنِ صحرا پہ یہ رنگین گل بوٹے نہ تھے

رہ گئی محروم آزادی کے نغموں سے بہار
کیا کریں قیدِ زباں بندی سے ہم چھوٹے نہ تھے

اس جوانی سے تو اچھی تھی تمھاری کم سنی
بھول تو جاتے وعدوں کو مگر جھوٹے نہ تھے

اس زمانے سے دعا کی ہے بہاروں کے لئے
جب فقط ذکرِ چمن بندی تھا گل بوٹے نہ تھے

کیا یہ سچ ہے اے مرے صیاد گلشن لٹ گیا
جب تو میرے سامنے دو پھول بھی ٹوٹے نہ تھے

چھوڑ تو دیتے تھے رستے میں ذرا سی بات پر
رہبروں نے منزلوں پر قافلے لوٹے نہ تھے

کس قدر آنسو بہائے تم نے شامِ غم قمر
اتنے تارے تو فلک سے بھی کبھی ٹوٹے نہ تھے

قمر جلالوی

Leave a Comment

اب کیسے رفو پیراہن ہو اس آوارہ دیوانے کا

اب کیسے رفو پیراہن ہو اس آوارہ دیوانے کا
کیا جانے گریباں ہو گا کہاں دامن سے بڑا دیوانے کا

واعظ نہ سنے گا ساقی کی لالچ ہے اسے پیمانے کی
مجھ سے ہوں اگر ایسی باتیں میں نام نہ لوں میخانے کا

کیا جانے کہے گا کیا آ کر ہے دور یہاں پیمانے کا
اللہ کرے واعظ کو کبھی رستہ نہ ملے میخانے کا

تربت سے لگا کر تا محشر سنتے ہیں کہ ملتا کوئی نہیں
منزل ہے بڑی آبادی کی رستہ ہے بڑا ویرانے کا

جنت میں پئے گا تو کیوں کر اے شیخ یہاں گر مشق نہ کی
اب مانے نہ مانے تیری خوشی ہے کام مرا سمجھانے کا

جی چاہا جہاں پر روک دیا پاؤں میں چبھے اور ٹوٹ گئے
خاروں نے بھی دل میں سوچ لیا ہے کون یہاں دیوانے کا

ہیں تنگ تیرے میکش ساقی یہ پڑھ کے نماز آتا ہے یہاں
یا شیخ کی توبہ تڑوا دے یا وقت بدل میخانے کا

ہر صبح کو آہِ سرد سے دل شاداب جراحت رہتا ہے
گر یوں ہی رہے گی بادِ سحر یہ پھول نہیں مرجھانے کا

بہکے ہوئے واعظ سے مل کر کیوں بیٹھے ہوئے ہو مے خوارو
گر توڑ دیا سب جام و سبو کیا کر لو گے دیوانے کا

احباب یہ تم کہتے ہو بجا وہ بزمِ عدو میں بیٹھے ہیں
وہ آئیں نہ آئیں ان کی خوشی چرچا تو کرو مر جانے کا

اس وقت کھلے گا جس کو بھی احساسِ محبت ہے کہ نہیں
جب شمع سرِ محفل رو کر منہ دیکھے گی پروانے کا

بادل کے اندھیرے میں چھپ کر میخانے میں آ بیٹھا ہے
گر چاندنی ہو جائے گی قمر یہ شیخ نہیں پھر جانے کا

قمر جلالوی

Leave a Comment

تم تو جاں تک آ گئے

حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے
ھم نظر تک چاھتے تھے ، تم تو جاں تک آ گئے

نامرادی اپنی قسمت ، گمرھی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ھو ، ھم کارواں تک آ گئے

اُن کی پلکوں پر ستارے اپنے ھونٹوں پر ھنسی
قصہء غم کہتے کہتے , ھم کہاں تک آ گئے

اپنی اپنی جستجو ھے اپنا اپنا شوق ھے
تم ھنسی تک بھی نہ پہنچے , ھم فغاں تک آ گئے

زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آ گئے؟؟

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبِ خاموشیءِ عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آگئے

خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آ جائے گا
تم وھاں تک آ تو جاؤ ، ھم جہاں تک آ گئے

آج قابل میکدے میں ، انقلاب آنے کو ھے
اھلِ دل ، اندیشہء سُود و زیاں تک آگئے

قابل اجمیری

Leave a Comment

اہل دل اور بھی ہیں اہل وفا اور بھی ہیں

اہل دل اور بھی ہیں اہل وفا اور بھی ہیں
ایک ہم ہی نہیں دنیا سے خفا اور بھی ہیں

ہم پہ ہی ختم نہیں مسلک شوریدہ سری
چاک دل اور بھی ہیں چاک قبا اور بھی ہیں

کیا ہوا گر مرے یاروں کی زبانیں چپ ہیں
میرے شاہد مرے یاروں کے سوا اور بھی ہیں

سر سلامت ہے تو کیا سنگ ملامت کی کمی
جان باقی ہے تو پیکان قضا اور بھی ہیں

منصف شہر کی وحدت پہ نہ حرف آ جائے
لوگ کہتے ہیں کہ ارباب جفا اور بھی ہیں.

ساحر لدھیانوی

Leave a Comment

ادیب کب ہوا کوئی خطیب کب ہوا

ادیب کب ہوا کوئی خطیب کب ہوا
دل قتل گاہِ ذات کی تہذیب کب ہوا

ہم زاد پہ الزام کا فقدان کیا ہوا
رہا اگر مقابل تو حبیب کب ہوا

حجاب کیسے راتوں رات ہوگیا آزاد
ذات کا غلام یہ منیب کب ہوا

ناؤ کیسے بچ رہی جنوں کے ہاتھ سے
شجاع سالار خون میں شکیب کب ہوا

بوڑها بهیدی کیسے خالی ہاتھ کر گیا
اپنے ہنر سایہء حق نقیب کب ہوا

چار پل کی جنتیں کیا جنتیں ہوئیں
چار پل کا زائچہ نصیب کب ہوا

کب سے “بیگم آرزو” کی کر لی چاکری
قلمِ رزب عقل کا رقیب کب ہوا

رزبؔــــ تبریز

Leave a Comment

زلف راتوں سی ہے رنگت ہے اجالوں جیسی

زلف راتوں سی ہے رنگت ہے اجالوں جیسی
پر طبیعت ہے وہی بھلانے والوں جیسی

اک زمانے کی رفاقت پہ بھی رام – خوردہ ہے
اس کم آمیز کی خو بو ہے غزالوں جیسی

ڈھونڈتا پھرتا ہوں لوگوں میں شباہت اسکی
کے وہ خوابوں میں بھی لگتی ہے خیالوں جیسی

کس دل آزار مسافت سے میں لوٹا ہوں کے ہے
آنسوؤں میں بھی ٹپک پاؤں کے چھالوں جیسی

اسکی باتیں بھی دل آویز ہیں صورت کی طرح
میری سوچیں بھی پریشان میرے بالوں جیسی

اسکی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز
سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی

احمد فراز

Leave a Comment

پرانے گھر کو گرایا تو باپ رونے لگا

پرانے گھر کو گرایا تو باپ رونے لگا
خوشی نے دِل سا دُکھایا تو باپ رونے لگا

یہ رات کھانستے رہتے ہیں کوفت ہوتی ہے
بہو نے سب میں جتایا تو باپ رونے لگا

جو اَمّی نہ رہیں تو کیا ہُوا کہ ہم سب ہیں
جواب بن نہیں پایا تو باپ رونے لگا

نہ جانے کب سے وُہ نمبر ملا رَہا تھا مرا
کہ جونہی فون اُٹھایا تو باپ رونے لگا

ہزار بار اُسے روکا تھا میں نے سگریٹ سے
جو آج چھین بجھایا تو باپ رونے لگا

بٹھا کے رِکشے میں ، کل شب رَوانہ کرتے ہُوئے
دِیا جو میں نے کرایہ تو باپ رونے لگا

ہمیں بنا دِیئے کمرے خود اُس کو ٹی وی پر
مدینہ جب نظر آیا تو باپ رونے لگا

کل اُس کے دوست کو باہر سے ٹالنے کے بعد
اُسے فقیر بتایا تو باپ رونے لگا

بہن رَوانگی سے پہلے پیار لینے گئی
جو کچھ بھی دے نہیں پایا تو باپ رونے لگا

کیا ہی کیا ہے بھلا آج تک ہمارے لیے
سوال جونہی اُٹھایا تو باپ رونے لگا

اَذان بیٹے کے کانوں میں دے رہا تھا میں
اَذان دیتے جو پایا تو باپ رونے لگا

طبیب کہتا تھا پاگل کو کچھ بھی یاد نہیں
گلے سے میں نے لگایا تو باپ رونے لگا

لَحَد پہ اَبّو کی کل رات ایک مدت بعد
چراغ جونہی جلایا تو باپ رونے لگا

نہ جانے قیسؔ نے کس جذبے سے یہ کیا لکھا
کہ جونہی پڑھ کے سنایا تو باپ رونے لگا

شہزادقیس

Leave a Comment

میں ہوش میں نہیں رہا تھا اور بٙک گیا

میں ہوش میں نہیں رہا تھا اور بٙک گیا
تُجھ کو تو پورا ہوش تھا تُو کیوں بہک گیا
سانسوں میں ساری رات ہی خوشبو بھری رہی
کس کا خیال آیا کہ کمرہ مہک گیا
یہ بھی تو اِک طرح سے ہے توہین عشق کی
اُجڑا تو ایک مرتبہ تُجھ پر بھی شک گیا
اِس شہر میں تو کوئی مجھے جانتا نہیں
یہ پھول کون کیوں مری کھڑکی میں رکھ گیا
وہ کر رہا تھا فون پہ لہجہ بدل کے بات
پھر ایک دم سے ضبط کا دریا چھلک گیا
پچھلی محبتوں پہ بہت دیر تک ہنسا
میں اپنے ساتھ آج بڑی دُور تک گیا
وہ جس کو بھول بھال کے دُنیا کے ہو گئے
دیکھا اُسےتو آج بھی یہ دل دھڑک گیا
تُو نے تو مُڑ کے دفعتاً دیکھا تھا اِک نظر
پھر اُس کے بعد ہر کوئی رستہ بھٹک گیا
بستر سمیٹ لو پری زُلفوں کو باندھ لو
سورج طلوعِ صبح کی کوشش میں تھک گیا
میثم علی آغا

Leave a Comment

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ​

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ​
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ​

اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر​
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ​

سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں​
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ​

کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے​
شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ​

ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا​
سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ​

رزق، ملبوس ، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا​
منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ​

دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن​
آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ

Leave a Comment
%d bloggers like this: