اُس زخمِ جاں کے نام ، جو اب تک نہیں بھرا
اُس زندہ دل کے نام ، جو اب تک نہیں مَرا
اُن اہلِ دل کے نام ، جو راہوں کی دُھول ہیں
اُن حوصلوں کے نام ، جنہیں دُکھ قبول ہیں
اُس زندگی کے نام ، گزارا نہیں جِسے
اُس قرضِ فن کے نام ، اُتارا نہیں جِسے
اُن دوستوں کے نام ، جو گوشہ نشین ہیں
اُن بے حِسوں کے نام ، جو بارِ زمین ہیں
اُن بے دلوں کے نام ، جو ہر دم ملُول ہیں
اُن بے بسوں کے نام ، جو گملوں کے پھول ہیں
اُس شعلہ رُخ کے نام ، روشن ہے جس سے رات
ہے ضُوفشاں اندھیرے میں ، ہر نقطۂِ کتاب
اُس حسنِ باکمال کی رعنائيوں کے نام
اور اپنے ذہن و قلب کی تنہائيوں کے نام
(اعتبار ساجد)
Leave a Comment