Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

‏اس زلف کا اعجاز کسی کام نہ آیا

‏اس زلف کا اعجاز کسی کام نہ آیا
میں رندِ بلا نوش تہِ دام نہ آیا
کل رات معمّہِ خمِ کاکلِ خوباں
جب تک نہ ہوا حل مجھے آرام نہ آیا
اس بند قبا کا جع ہوا مسئلہ درپیش
مے خوار کا کوئی بھی ہنر کام نہ آیا
مے خانے کا ہنگام نمونہ تھا ابد کا
گزرا بھی تو تحت سحر و شام نہ آیا
اس رات ستاروں میں بھی دیکھا گیا ٹھراو
جس رات کو گردش میں مرا جام نہ آیا
اس زلف کو کھینچا نہ گیا تا بہ حد شوق
کچھ ولولہ دل بھی میرے کام نہ آیا
کل رات مجھے اس نے کنایت سے کیا یاد
کی بات کچھ اس طرح مرا نام نہ آیا
کیا فیصلہ۔ عشق ہو نقد دل و جاں پر
اس کا بھی مزا بے درم و دام نہ آیا
وہ بخل شکر بختئی لب میں تھا کہ مجھ کو
اس نسخہء صدری سے بھی آرام نہ آیا
بت خانہ تع تھا ہی مرا گرویدہء اخلاص
میں حجلہء حوراں سے بھی ناکام نہ آیا
ساغر کی اماں میں تھا مرا کوکب اقبال
زیر اثر گردش ایام نہ آیا
خود ٹوٹ گیا بند قبا بے خبری میں
صد شکر مرے ہاتھ پہ الزام نہ آیا
لمحہ جو ترے ساتھ گزارا تو ابد تھا
تعریف میں ماضی کی یہ ہنگام نہ آیا
کل رات وہ نقش ازلی جام کی تہہ سے
ابھرا تو سہی تا بہ لب جام نہ آیا
عالم ہے یہ اب بے خبری کا کسی نے
پوچھا تو مجھے یاد ترا نام نہ آیا
تا گوشہء زنداں کی طرح عالم اسباب
تا عمر مری روح کو آرام نہ آیا
چھلکا کے سبو ہم نے خزاں کا بھی دیا ساتھ
لب پہ گلہء گردش ایام نہ آیا
کھولا تھا کبھی پیرہن دخت کنشتاں
پھرا راس مجھے جامہء احرام نہ آیا
وہ راز جنوں جو میرے سینے میں تھا محفوظ
وحشت کے بھی عالم میں سر عام نہ آیا
کل شب مجھے جبریل کی آمد کا تھا احساس
دیکھا تو نظر کچھ بھی سر جام نہ آیا
ہم جال بجھاتے ہی رہے زہد و ورع کے
وہ آہوئے اسرار تہہ دام نہ آیا
آئینہ جو دل کا ہوا عکاس بدی بھی
کچھ صیقل آئینہ پہ الزام نہ آیا
میں رند تھا میخانے نے بجشا مجھے اعزاز
شاہوں سے مجھے خلعت و انعام نہ آیا
بہکا بھی جو میں حرف گزارش نہ ہوا خبط
کچھ گفتگوئے شوق میں ابہام نہ آیا
جو میری غزل سے ہوا مسحور پھر اس کو
لطف قصص دارا و بھرام نہ آیا
تھا صاحب اسرار و کرامت تو ظفر بھی
لیکن یہ قدح خوار سر عام نہ آیا

Leave a Comment

اِک پشیماں سی حسرت سے سوچتا ہے مجھے

اِک پشیماں سی حسرت سے سوچتا ہے مجھے
اب وہی شـــہرِ مــحبت سے سوچتا ہے مجھے

میں تو محدود سے لمحوں میں ملی تھی اُس سے
پھر بھی وہ کتنی وضــاحت سے سوچتا ہے مجھے

جــــس نے ســـوچــا ہی نہ تھا ہجر کا مُــمکن ہونا
دُکھ میں ڈوبی ہوئی حیرت سے سوچتا ہے مجھے

میں تو مر جاؤں اگر سوچنے لگ جاؤں اُسے
اور وہ کتنی سُـہولت سے سوچتا ہے مجھے

گــرچــہ اب تـرکِ مــراسـم کو بــہت دیــر ہوئی
اب بھی وہ میری اجازت سے سوچتا ہے مجھے

کتنا خوش فہم ہے وہ شخص کہ ہر موسم میں
اِک نئے رُخ، نئی صــورت سے سوچتا ہے مجھے

Leave a Comment

عشق تاثیر کرے اور وہ تسخیر بھی ہو

عشق تاثیر کرے اور وہ تسخیر بھی ہو
یہ تو سب کچھ ہو مگر خواہشِ تقدیر بھی ہو

کاش تجھ سے ہی مقابل تری تصویر بھی ہو
دعویِٰ ناز بھی ہو شوخیِ تحریر بھی ہو

جعل سازوں نے بنایا ہے شکایت نامہ
کیوں خفا آپ ہوئے یہ مری تحریر بھی ہو

طمعِ زر ہی سے انسان کی مٹی ہے خراب
خاک میں ہم تو ملا دیں اگر اکسیر بھی ہو

جب مقابل ہی نہ ہوں کس کو بتاؤں اچھا
سامنے آپ بھی ہوں آپ کی تصویر بھی ہو

پہلے یہ شرط مصور سے وہ کر لیتے ہیں
بانکی صورت بھی کھنچے ہاتھ میں شمشیر بھی ہو

کوئی نادان ہوں یاروں کے کہے میں آؤں ؟
جس کو تدبیر بتاتے ہیں وہ تدبیر بھی ہو

کاش وہ محفل ِاغیار میں اے جذبۂ دل
میری تعظیم بھی دے ، مجھ سے بغل گیر بھی ہو

لڑ پڑے غیر سے کیا خیر ہے کیسا ہے مزاج
تم جو چُپ چُپ بھی ہو ، مضطر بھی ہو، دلگیر بھی ہو

گو ہے شوخی وہ اثر دیدۂ نرگس میں کہاں
اُس کی آنکھوں کی طرح سرمۂ تسخیر بھی ہو

تم نمک خوار ہوئے شاہِ دکن کے اے داغؔ
اب خدا چاہے تو منصب بھی ہو ، جاگیر بھی ہو

Leave a Comment

مسلسل خوف کی، ڈر کی فراوانی نہیں جاتی

مسلسل خوف کی، ڈر کی فراوانی نہیں جاتی
وہ میرا ھے تو کیوں میری پریشانی نہیں جاتی ؟

مجھے وہ کس طرح ڈھونڈ ے گا لوگوں کے سمندر میں
مری صورت تو اب مجھ سے بھی پہچانی نہیں جاتی

بظاہر بھول کر اُس کو میں ہنستا کھیلتا تو ہوں
مگر سچ تو ھے یہ، اندر کی ویرانی نہیں جاتی

مجھے و ہ مارنے والوں میں شامل ہو گیا کیسے
مری آنکھوں سے مر کر بھی یہ حیرانی نہیں جاتی

مرے دن رفتہ رفتہ ہو گئے کانٹوں بھرے جنگل
مری راتوں سے لیکن رات کی رانی نہیں جاتی

جدائی چاہتا ھے وہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے
محبت میں بھی ہر اِک بات تو مانی نہیں جاتی

ؔ اُس شخص کی چارہ گری میں شک نہیں لیکن
جو جاں میں بس گئی ھے، اب وہ بے جانی نہیں جاتی

Leave a Comment

چشمِ ساقی نے یہ کیا کھیل رَچا رکھا ہے

چشمِ ساقی نے یہ کیا کھیل رَچا رکھا ہے
کوئی زاہد تو کوئی مے خوار بنا رکھا ہے

جو پھنسا پھر نہ کبھی اس نے رہائی مانگی
تیری زُلفوں نے عجب جال بِچھا رکھا ہے

حُسن ہو ، یا عشق ہو دونوں کا اثر یکساں ہے
چیز ہے ایک ، مگر نام جُدا رکھا ہے

رُخ پہ لہراتی ہیں کبھی شانوں سے اُلجھ پڑتی ہیں
تُو نے زُلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے

تیری مخمور نگاہوں سے ہے رونق ساری
ورنہ ساقی تیرے مے خانے میں کیا رکھا ہے

میری نظروں میں کوئی کیسے جچے اے ساجدؔ
نسبتِ یار نے مغرور بنا رکھا ہے

Leave a Comment

منظُور ہے گُزارشِ احوالِ واقعی

منظُور ہے گُزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیانِ حُسنِ طبیعت نہیں مجھے

سَو پُشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے

آزاده رَو ہوں اور مِرا مسلک ہے صلحِ کُل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاه و منصب و ثروت نہیں مجھے

اُستادِ شہ سے ہو مجھے پَرخاش کا خیال؟
یہ تاب، یہ مجال، یہ طاقت نہیں مجھے

جامِ جہاں نُما ہے شہنشاه کا ضمیر
سَوگند اور گواه کی حاجت نہیں مجھے

میں کون، اور ریختہ، ہاں اِس سے مدعا
جُز انبساطِ خاطرِ حضرت نہیں مجھے

سِہرا لکھا گیا زرهِ امتثالِ اَمر
دیکھا کہ چاره غیر اطاعت نہیں مجھے

مقطع میں آ پڑی ہے سُخن گُسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے

رُوئے سُخن کسی کی طرف ہو تو رُوسیاه
سودا نہیں، جُنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے

قسمت بُری سہی پَہ طبیعت بُری نہیں
ہے شُکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے

صادق ہوں اپنے قول میں غالبؔ، خدا گواه
کہتا ہوں سچ کہ جُھوٹ کی عادت نہیں مجھے

Leave a Comment

لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں

لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں

کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں

کانٹوں کو مت نکال چمن سے او باغباں
یہ بھی گلوں کے ساتھ پلے ہیں بہار میں

بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں

کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

بہادر شاہ ظفر

Leave a Comment

چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال

چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال
اک تو ہی دھنوان ہے گوری باقی سب کنگال

ہر آنگن میں آئے تیرے اجلے روپ کی دھوپ
چھیل چھبیلی رانی تھوڑا گھونگھٹ اور نکال

بھر بھر نظریں دیکھیں تجھ کو آتے جاتے لوگ
دیکھ تجھے بدنام نہ کر دے یہ ہرنی سی چال

کتنی سندر نار ہو کوئی میں آواز نہ دوں
تجھ سا جس کا نام نہیں ہے وہ جی کا جنجال

سامنے تو آئے تو دھڑکیں مل کر لاکھوں دل
اب جانا دھرتی پر کیسے آتے ہیں بھونچال

بیچ میں رنگ محل ہے تیرا کھائی چاروں اور
ہم سے ملنے کی اب گوری تو ہی راہ نکال

کر سکتے ہیں چاہ تری اب سرمدؔ یا منصورؔ
ملے کسی کو دار یہاں اور کھنچے کسی کی کھال

یہ دنیا ہے خود غرضوں کی لیکن یار قتیلؔ
تو نے ہمارا ساتھ دیا تو جیے ہزاروں سال

Leave a Comment

تمام شہر کو جام و سبو کا مسئلہ ہے

تمام شہر کو جام و سبو کا مسئلہ ہے
میں برگ خشک ہوں مجھ کو نمو کا مسئلہ ہے
ادھڑتی خواہشوں کو سی لیا ہے لیکن اب
پرانے زخم سے رستے لہو کا مسئلہ ہے
بہت سے بد نظر آنکھیں نہیں ہٹاتے ہیں
مرا نہیں یہ ہر اک خوبرو کا مسئلہ ہے
تمہاری بزم میں ہر رنگ کے مسائل ہیں
کہیں پہ چپ ، تو کہیں گفتگو کا مسئلہ ہے
ہمیں تو اور بھی کارِ جہاں میسر ہیں
ہر ایک شخص سے نفرت عدو کا مسئلہ ہے
یہ کھیل دیکھنا ناکام ہونے والا ہے
تماشہ گاہ میں جو ہاؤ ہو کا مسئلہ ہے
ذرا سا نیند کی چادر میں چھید دیکھا ہے
سو اہلِ خواب کو تب سے رفو کا مسئلہ ہے
کومل جوئیہ

Leave a Comment

یہ مری ضد ہے کہ ملتان نہیں چھوڑوں گی

یہ مری ضد ہے کہ ملتان نہیں چھوڑوں گی
مر تو جاؤں گی تری جان نہیں چھوڑوں گی
عشق لایا تھا مجھے گھیر کے اپنی جانب
اس منافق کا گریبان نہیں چھوڑوں گی
یہ تو ترکہ ہے جو پرکھوں سے ملا ہے صاحب
دشت کو بے سرو سامان نہین چھوڑوں گی
یہ نہ ہو سین بدلتے ہی بچھڑ جائے تو
ہاتھ میں خواب کے دوران نہیں چھوڑوں گی
اب نہ کمزور ہوں میں اور نہ ڈرنے والی
دشمنا ! ہار کے میدان نہیں چھوڑوں گی
اے خوشی ! پھر تو صدا دے کے کہیں چھپ گئی ہے
ہاتھ تو لگ ، میں ترے کان نہیں چھوڑوں گی
صرف اس بار اگر وصل عطا ہو جائے
پھر کبھی ہجر کا امکان نہیں چھوڑوں گی
کومل جوئیہ

Leave a Comment
%d bloggers like this: