Skip to content

رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے

رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے
اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے
آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ
ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہو گئے
میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے
بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑیے
جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے
لفظوں کے ہیر پھیر کا دھندہ بھی خوب ہے
جاہل ہمارے شہر میں استاد ہو گئے.
راحت اندوری

Published inGazals

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: