تارِیکیوں کو آگ لگے اور دِیا جلے
یہ رات بَین کرتی رہے اور دِیا جلے
اُس کی زباں میں اِتنا اثر ہے، کہ نصفِ شب
وہ روشنی کی بات کرے، اور دِیا جلے
تم چاہتے ہو تم سے بچھڑ کے بھی خوش رہُوں
یعنی ہَوا بھی چلتی رہے اور دِیا جلے
کیا مجھ سے بھی عزیز ہے تم کو دیے کی لو
پھر تو مِرا مزار بنے اور دِیا جلے
سورج تو میری آنکھ سے آگے کی چیز ہے
میں چاہتا ہُوں، شام ڈھلے اور دِیا جلے
تم لوٹنے میں دیر نہ کرنا، کہ یہ نہ ہو !
دِل تِیرَگی میں ڈوب چُکے اور دِیا جلے
تہذیب حافی
Leave a Comment