Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

بھـــــــــر کے لایا تھا جو دامن میں ستارے صاحب

بھـــــــــر کے لایا تھا جو دامن میں ستارے صاحب
لے گیا لوٹ کے سب خواب ہمـــــــــــــارے صاحب

آپ آسودہ ہیں اس حلقـــــــــــہ ء یاراں میں تو پھر
یاد آئیں گے کہــــــــــــاں درد کے مــــــارے صاحب

ہجـــر میں سانس بھی رک رک کے چلا کرتی ھے
مجھ کو دے جائیں نا کچھ سانس اُدھا رے صاحب

کچھ خطاؤں کی ســـــــــزا عشق کی صورت پائی
ہم نے دنیا میں ہی کچھ قــــــــــرض اتا رے صاحب

ہم جو نکلے کبھی بازار میں کاســــــــــــــہ لے کر
بھیک میں بھی تو ملے درد کے دھــــــا رے صاحب

اب بھی جلتے ہیں تری یاد میں اشکوں کے چــراغ
شب کو معلوم ہیں سب زخم ہمـــــــا رے صاحب

میـــــــــرا رشتوں کی تجارت پہ تو ایماں ہی نہ تھا
بک گۓ خـــــــــــــاک کی قیمت یہ ستارے صاحب

یاد کے دشت میں ہم پھــــــــــرتے ہیں یوں آبلہ پا
آ کے دیکھو تو کبھی پاؤں ہمــــــــــــــــــارے صاحب

بارہا اســـکو بچھـــــــــــــــڑتے ھوئے کہنا چـــــاہا ،،
روٹھ کر بھی نہیں ہوتے ہیں گـــــــــــزار ے صاحب

لا کے قدموں میں سبھی چــــاند ستارے رکھ دیں
لوٹ کر آنا کبھی شہــــــــر ہمــــــــــــا رے صاحب

آنـــکھ سے دل کی زبــــاں صـــــــاف ســـنائ دیتی
تم ہی سمجھے نـــــہ محبت کے اشـــارے صاحب

Leave a Comment

یہ سمندر ہے، کنارے ہی کنارے جاؤ

یہ سمندر ہے، کنارے ہی کنارے جاؤ
عِشق ہر شخص کے بس کا نہیں پیارے، جاؤ

یُوں تو مقتل میں تماشائی بہت آتے ہیں
آؤ اُس وقت ،کہ جِس وقت پُکارے جاؤ

دِل کی بازی لگے، پھر جان کی بازی لگ جائے
عِشق میں ہار کے بیٹھو نہیں ، ہارے جاؤ

کام بن جائے، اگر زُلفِ جنُوں بن جائے!
اِس لیے ،اِس کو سنوارو کہ سنوارے جاؤ

کوئی رستہ کوئی منزِل اُسے دشوار نہیں
جِس جگہ جاؤ محبّت کے سہارے جاؤ

ہم تو مٹّی سے اُگائیں گے محبّت کے گُلاب
تم اگر توڑنے جاتے ہو سِتارے ،جاؤ

ڈُوبنا ہو گا ، اگر ڈُوبنا تقدیر میں ہے
چاہے کشتی پہ رہو، چاہے کنارے جاؤ

تم ہی سوچو، بَھلا یہ شوق کوئی شوق ہُوا!
آج اُونچائی پہ بیٹھو، کل اُتارے جاؤ

موت سے کھیل کے ،کرتے ہو محبّت، عاجزؔ
مُجھ کو ڈر ہے، کہیں بے موت نہ مارے جاؤ

کلیم عاجز

Leave a Comment

رقصِ وحشت شعار ہے میرا

رقصِ وحشت شعار ہے میرا
گردِ صحرا غبار ہے میرا

کوئی زنجیرِ پا نہیں لیکن
قیدیوں میں شمار ہے میرا

جل رہے ہیں ضرورتوں کے چراغ
گھر نہیں ہے مزار ہے میرا

زخم اپنے کرید سکتا ہوں
جبر پر اختیار ہے میرا

جس طرف چاہوں گھوم لیتا ہوں
میری ایڑی مدار ہے میرا

ہے سبک دوش کوئی مجھ ایسا؟
میرے شانوں پہ بار ہے میرا

کُھل کے اک سانس بھی نہ لی میں نے
زندگی پر ادھار ہے میرا

بھاگتا ہوں پرے حقیقت سے
شعر گوئی فرار ہے میرا

پیرہن ہے دُھلا ہوا گویا
تن بہت داغ دار ہے میرا

ورنہ میں کب کا مر چکا ہوتا
دل پہ کب انحصار ہے میرا

آئینے میں بھی مَیں نہیں موجود
اور تجھے انتظار ہے میرا

سوچتا ہوں، دوبارہ سوچتا ہوں
کوئی پروردگار ہے میرا؟

میں ہوں مزدورِ کارِ رشتہ و ربط
ہر کوئی ٹھیکہ دار ہے میرا

شعر کہتا ہوں جی جلاتا ہوں
اب یہی روزگار ہے میرا

رائیگانی خرید کرتا ہوں
منفرد کاروبار ہے میرا

عارف امام

Leave a Comment

ہم سے تو دیکھا نہیں جاتا

ہو بیش کہ کم، ہم سے تو دیکھا نہیں جاتا
انسان کا غم، ہم سے تو دیکھا نہیں جاتا
ہمراہ ترے کیوں نہ خدا آپ ہی خود ہو
یہ قہر، صنم! ہم سے تو دیکھا نہیں جاتا
یاروں کی خوشی دیکھ کے ہو جاتے ہیں زندہ
یاروں کا الم ہم سے تو دیکھا نہیں جاتا
ہم ہی نظر آئیں تمھیں الطاف کے قابل
ارباب کرم ہم سے تو دیکھا نہیں جاتا
اٹھتا ہی نہیں شام و سحر کوئے مغاں سے
یہ حال عدمؔ ہم سے تو دیکھا نہیں جاتا
عدم

Leave a Comment

وە گماں ! گماں سا قیاس سا

وە گماں ! گماں سا قیاس سا
کبھی دور سا کبھی پاس سا

کبھی چاندنی میں چھپا ہوا
کبھی خوشبووں میں بسا ہوا

کبھی صرف اسکی شباہتیں
کبھی صرف اسکی حکایتیں

کبھی صرف ملنے کے سلسلے
کبھی صرف اس سے ہیں فاصلے

کبھی دور چلتی ہواوُں میں
کبھی مینہ برستی گھٹاوں میں

کبھی بدگماں کبھی مہرباں
کبھی دھوپ ہے کبھی سائیباں

کبھی بند دل کی کتاب میں
کبھی لب کشاں وە خواب میں

کبھی یوں کہ جیسے سوال ہو
کبھی یوں کہ جیسے جواب ہو

کبھی دیکھنے کے ہیں سلسلے
کبھی سوچنے کے ہیں مرحلے

کبھی صرف رنگِ بہار سا
کبھی صرف اک گلبہار سا

وە جو اکھڑا اکھڑا سا شخص ہے
وە جو بکھرا بکھرا سا شخص ہے

Leave a Comment

آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا

آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا
کیا کہوں ، اور کہنے کو کیا رہ گیا

ان کی آنکھوں سے کیسے چھلکنے لگا
میرے ہونٹوں پہ جو ماجرا رہ گیا

ایسے بچھڑے سبھی رات کے موڑ پر
آخری ہمسفر — راستہ رہ گیا

سوچ کر آؤ ، کوئے تمنا گلی
جان من ! جو یہاں، رہ گیا ۔۔۔رہ گیا

وسیم بریلوی

Leave a Comment

عجیب خواب تھا اس کے بدن میں کائی تھی

عجیب خواب تھا اس کے بدن میں کائی تھی
وہ اک پری جو مجھے سبز کرنے آئی تھی

وہ اک چراغ کدہ جس میں کچھ نہیں تھا مرا
جو جل رہی تھی وہ قندیل بھی پرائی تھی

نہ جانے کتنے پرندوں نے اس میں شرکت کی
کل ایک پیڑ کی تقریب رو نمائی تھی

ہواؤ آؤ مرے گاؤں کی طرف دیکھو
جہاں یہ ریت ہے پہلے یہاں ترائی تھی

کسی سپاہ نے خیمے لگا دیے ہیں وہاں
جہاں پہ میں نے نشانی تری دبائی تھی

گلے ملا تھا کبھی دکھ بھرے دسمبر سے
مرے وجود کے اندر بھی دھند چھائی تھی

تہذیب حافی

Leave a Comment

‏خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم

‏خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم
پانی چھلنی میں لے چلے ہیں ہم

چھاچھ پھونکیں کہ اپنے بچپن میں
دودھ سے کس طرح جلے ہیں ہم

خود ہیں آپنے سفر کی دشواری
آپنے پیروں کے آبلے ہیں ہم

تو تو مت کہہ ہمیں برا دنیا
تو نے ڈھالا ہے اور ڈھلے ہیں ہم

Leave a Comment

پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا

پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا
میں بھیگ جاؤں گا چھتری نہیں بناؤں گا

اگر خدا نے بنانے کا اختیار دیا
علم بناؤں گا برچھی نہیں بناؤں گا

فریب دے کے ترا جسم جیت لوں لیکن
میں پیڑ کاٹ کے کشتی نہیں بناؤں گا

گلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوں
نئے مکان میں کھڑکی نہیں بناؤں گا

میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی جاؤں
تو ان کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا

تمہیں پتا تو چلے بے زبان چیز کا دکھ
میں اب چراغ کی لو ہی نہیں بناؤں گا

میں ایک فلم بناؤں گا اپنے ثروتؔ پر
اور اس میں ریل کی پٹری نہیں بناؤں گا

Leave a Comment

تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا

تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا

یوں نہیں ہے کہ فقط میں ہی اسے چاہتا ہوں
جو بھی اس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا

اتنا میٹھا تھا وہ غصے بھرا لہجہ مت پوچھ
اس نے جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا

اپنا لڑنا بھی محبت ہے تمہیں علم نہیں
چیختی تم رہی اور میرا گلا بیٹھ گیا

اس کی مرضی وہ جسے پاس بٹھا لے اپنے
اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا

بات دریاؤں کی سورج کی نہ تیری ہے یہاں
دو قدم جو بھی مرے ساتھ چلا بیٹھ گیا

بزم جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص
جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا

Leave a Comment
%d bloggers like this: