Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے

یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے
جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے

ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا
ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے

یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں
کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے

وفا کی آنچ سخن کا تپاک دو ان کو
دلوں کے چاک رفو سے سلا نہیں کرتے

جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں
سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے

ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی
مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے

جو ہم پہ گزری ہے جاناں وہ تم پہ بھی گزرے
جو دل بھی چاہے تو ایسی دعا نہیں کرتے

ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے
تمام غنچے تو امجدؔ کھلا نہیں کرتے

امجد اسلام امجدؔ

Leave a Comment

میں لفظ چُنوں

میں لفظ چُنوں __ دلکش چُنوں
پھر ان سے “” تیرا “” احساس بُنوں

تجھے لکھوں میں ” دھڑکن” اس دل کی
یا تجھ کو ابر کی __ رم جھم لکھوں

ستاروں کی عجب __ جھلمل کبھی
پلکوں کی تجھے “” شبنم “” لکھوں

کبھی کہہ دوں تجھے میں جاں اپنی
کبھی تجھ کو میں اپنا محرم لکھوں

کبھی لکھ دوں تجھے __ ہر درد اپنا
کبھی تجھ کو زخم کا ” مرہم” لکھوں

تو زیست کی ہے _ امید میری
میں تجھ کو خوشی کی” نوید “لکھوں

لفظوں پہ نگاہ جو ڈالوں __ کبھی
ہر لفظ کو” بیاں “سے عاجز لکھوں!!

میں تجھ کو تکوں _ تکتی جاؤں
میں تجھ کو میری “” تمہید “” لکھوں

تم گفت ہو میرے _ اس دل کی
میں “” تجھ “” کو فقط شنید لکھوں

Leave a Comment

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا
ڈنکے کی چوٹ پر ہے زمانہ بدل گیا

کہہ دو مسافروں سے نہ آئیں وہ لوٹ کر
رستہ یہ ان کے جاتے ہی رستہ بدل گیا

ہم کو شکایتیں نہیں اتنا گلہ ہے بس
وہ چاہ آپ کی وہ بلانا بدل گیا

ابرک ہمیں بدل کے یوں خوش یار لوگ ہیں
جیسے کوئی خراب سا پرزہ بدل گیا

‎اتباف_ابرک

Leave a Comment

وہ خیال تھا کوئی دھنک نما

وہ خیال تھا کوئی دھنک نما
یا کوئی عکس تھا میرے روبرو؟
مجھے ہر طرف سے تو لگا
وہ تو ہی تھا یا کوئی ہو بہو؟
بیان میں تھی وہ چاشنی
کہ مہک رہا تھا حرف حرف
جیسے خوسشبوؤں کی زبان میں
کوئی کر رہا ہو گفتگو
نہیں کچھ خبر کہ کس گھڑی
ترے راستوں کا سرا ملے
تیرے نقشِ پا کی تلاش میں
لگی تو ہے میری جستجو
بس دیکھنا ہے کس طرح
وہ جی رہی ہے میرے بغیر
یوں تو دل میں ہے وہ آج بھی
جسے ڈھونڈتا ہوں میں کو بہ کو
یہ یاد تھا کہ دعا کروں،
پر اٹھے رہے میرے ہاتھ یوں
جیسے خواہشوں کے ہجوم میں
کہیں کھو گئی تیری آرزو

Leave a Comment

بےجا نَوازِشات کا بارِگراں نہیں

بےجا نَوازِشات کا بارِگراں نہیں
میں خُوش ہُوں اِس لِیے، کہ کوئی مہرباں نہیں

آغوشِ حادثات میں پائی ہے پروَرِش
جو برق پُھونک دے، وہ مِرا آشیاں نہیں

کیوں ہنس رہے ہیں راہ کی دُشوارِیوں پہ لوگ
ہُوں بے وَطن ضرُور، مگر بے نِشاں نہیں

گھبرائیے نہ گردشِ ایّام سے ہنوز
ترتیبِ فصل‌ِ گُل ہے یہ، دَورِ خِزاں نہیں

کُچھ برق سَوز تِنکے مجھے چاہئیں، شکیبؔ
جُھک جائیں گُل کے بار سے، وہ ڈالیاں نہیں

شکیبؔ جَلالی

Leave a Comment

ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﺑﻴﺪﻟﯽ ، ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﺑﻴﺪﻟﯽ ، ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﻣﻌﺬﺭﺕ
ﺑﺲ ﺑﮩﺖ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ، ﺯﻧﺪﮔﯽ ! ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺧﻮﺩ ﮐﻼﻣﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺭﻭﭨﮫ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ
ﺍﺏ ﻧﮧ ﺑﻮﻟﻮﮞ ﮔﺎ ﺍﮮ ﺧﺎﻣﺸﯽ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺩﺍﺩ ﺑﮯ ﺩﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺟﯽ ﻧﮩﻴﮟ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ
ﺩﻭﺳﺘﻮ ! ﺷﮑﺮﻳﮧ ، ﺷﺎﻋﺮﯼ ! ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺍﺏ ﻳﮧ ﺁﻧﺴﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻧﮩﻴﮟ ﺁﺋﻴﮟ ﮔﮱ
ﺍﺏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﯽ ﻣﺮﯼ ﻭﺍﭘﺴﯽ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺑﮯ ﺧﻮﺩﯼ ﻣﻴﮟ ﺧﺪﺍﺉ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼ ﮐﻴﺎ
ﺍﮮ ﺧﺪﺍ ﺩﺭﮔﺰﺭ ، ﺍﮮ ﺧﻮﺩﯼ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﯼ ﮨﻮﺉ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﺎﻧﮓ ﻟﯽ
ﺭﺏّ _ ﺍﻣﺮﻭﺯ ﻭ ﻓﺮﺩﺍ ﻭ ﺩﯼ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺩﮬﻮﭖ ﮈﮬﻞ ﺑﮭﯽ ﭼﮑﯽ ، ﺳﺎﮰ ﺍﭨﮫ ﺑﮭﯽ ﭼﮑﮯ
ﺍﺏ ﻣﺮﮮ ﻳﺎﺭ ﮐﺲ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺍﮎ ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﻳﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﻋﺎﺻﻢ ، ﭼﻠﻮ
ﺩﻭﺭ ﮨﯽ ﺳﮯ ﺳﮩﯽ ، ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﻣﻌﺬﺭﺕ

لیاقت علی عاصم

Leave a Comment

پی لی تو کچھ پتہ نہ چلا وہ سرور تھا

پی لی تو کچھ پتہ نہ چلا وہ سرور تھا
وہ اس کا سایہ تھا کہ وہی رشک حور تھا

کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں گیا
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی بہت غم سے چور تھا

رویا تھا کون کون مجھے کچھ خبر نہیں
میں اس گھڑی وطن سے کئی میل دور تھا

شام فراق آئی تو دل ڈوبنے لگا
ہم کو بھی اپنے آپ پہ کتنا غرور تھا

چہرہ تھا یا صدا تھی کسی بھولی یاد کی
آنکھیں تھیں اس کی یارو کہ دریائے نور تھا

نکلا جو چاند آئی مہک تیز سی منیرؔ
میرے سوا بھی باغ میں کوئی ضرور تھا

منیر نیازی

Leave a Comment

بہت دن ھوئے دل کی بے قراری نہیں جاتی

بہت دن ھوئے دل کی بے قراری نہیں جاتی
یہ زندگی اب ھم سے سنواری نہیں جاتی

کیا حشر ھو گا میرا ھجر کے موسم میں
مجھ سے تو ایک شب گزاری نہیں جاتی

نظر کو سمجھنے کا ھنر سیکھ لو جاناں
دل کی ھر بات کاغذ پر اتاری نہیں جاتی

درد ھے کہ رکنے کا نام نہیں لیتا
جان ھے کہ مجھ سے ہاری نہیں جاتی

کچھ تو ھے اس میں جو فدا ھوئے خالد
ورنہ یہ زندگی ھر شخص پہ واری نہیں جاتی

Leave a Comment

دیار غیر میں کیسے تجھے سدا دیتے

دیار غیر میں کیسے تجھے سدا دیتے
تو مل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے

تمہی نے نہ سنایا اپنا دکھ ورنہ
دعا وہ دیتے کہ آسماں ہلا دیتے

وہ تیرا غم تھا کہ تاثیر میرے لہجے کی
کہ جسے حال سناتے اُسے رولا دیتے

ہمیں یہ زعم تھا کہ اب کہ وہ پکاریں گے
انہیں یہ ضد تھی کہ ہر بار ہم صدا دیتے

تمھیں بھلانا اول تو دسترس میں نہیں
گر اختیار میں ہوتا تو کیا بھلا دیتے؟

سماعتوں کو میں تاعمر کوستا رہا وصی
وہ کچھ نہ کہتے مگر لب تو ہلا دیتے

وصی شاہ

Leave a Comment

دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں

دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی
ہرچند کہ ہوں ہوش میں ہشیار نہیں ہوں

اس خانۂ ہستی سے گزر جاؤں گا بے لوث
سایہ ہوں فقط نقش بہ دیوار نہیں ہوں

افسردہ ہوں عبرت سے دوا کی نہیں حاجت
غم کا مجھے یہ ضعف ہے بیمار نہیں ہوں

وہ گل ہوں خزاں نے جسے برباد کیا ہے
الجھوں کسی دامن سے میں وہ خار نہیں ہوں

یا رب مجھے محفوظ رکھ اس بت کے ستم سے
میں اس کی عنایت کا طلب گار نہیں ہوں

گو دعوی تقوی نہیں درگاہ خدا میں
بت جس سے ہوں خوش ایسا گنہ گار نہیں ہوں

افسردگی و ضعف کی کچھ حد نہیں اکبرؔ
کافر کے مقابل میں بھی دیں دار نہیں ہوں

Leave a Comment
%d bloggers like this: