Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

ہم سا بھی ہو گا نہ جہاں میں کوئی ناداں جاناں

ہم سا بھی ہو گا نہ جہاں میں کوئی ناداں جاناں
بے رخی کو بھی جو سمجھے تیرا احساں جاناں

جب بھی کرتی ہے میرے دل کو پریشاں دنیا
یاد آتی ہے تیری زلفِ پریشاں جاناں

میں تیری پہلی نظر کو نہیں بھولا اب تک
آج بھی دل میں ہے پیوست وہ پیکاں جاناں

مجھ سے باندھے تھے بنا کر جو ستاروں کو گواہ
کر دیے تو نے فراموش وہ پیماں جاناں

کبھی آتے ہوئے دیکھوں تجھے اپنے گھر میں
کاش پورا ہو میرے دل کا یہ ارماں جاناں

اک مسافر کو تیرے شہر میں موت آئی ہے
شہر سے دور نہیں گورِ غریباں جاناں

یہ تیرا حسن یہ بے خود سی ادائیں تیری
کون رە سکتا ہے ایسے میں مسلماں جاناں

کیوں تجھے ٹوٹ کے چاہے نہ خدائی ساری
کون ہے تیرے سوا یوسفِؑ دوراں جاناں؟

جاں بلب، خاک بسر، آہ بہ دل، خانہ بدوش
مجھ سا کوئی بھی نہ ہو بے سر و ساماں جاناں

یہ تو پوچھ اس سے جس پر یہ بلا گزری ہے
کیا خبر تجھ کو کہ کیا ہے شبِ ہجراں جاناں

یہ وە نسبت ہے جو ٹوٹی ہے نہ ٹوٹے گی کبھی
میں تیرا خاک نشیں، تو میرا سلطاں جاناں

وە تو اک تمہارا ساتھ تھا کہ آڑے آیا
ورنہ دھر لیتی مجھے گردشِ دوراں جاناں

کیا تماشہ ہو کہ خاموش کھڑی ہو دنیا
میں چلوں حشر میں کہتے ہوئے جاناں جاناں

در پہ حاضر ہے ترے آج نصیرِؔ عاصی
تیرا مجرم تیرا شرمندۂ احساں جاناں

سید نصیر الدین نصیرؔ

Leave a Comment

جہان بھر میں کسی چیز کو دوام ھے کیا ؟

جہان بھر میں کسی چیز کو دوام ھے کیا ؟
اگر نہیں ھے تو سب کچھ خیالِ خام ھے کیا ؟

اُداسیاں چلی آتی ھیں شام ڈھلتے ھی
ھمارا دل کوئی تفریح کا مقام ھے کیا ؟

وھی ھو تُم جو بُلانے پہ بھی نہ آتے تھے
بِنا بُلائے چلے آئے ! کوئی کام ھے کیا ؟

جواباً آئی بڑی تیز سی مہک مُنہ سے
سوال یہ تھا کہ مولانا ! مَے حرام ھے کیا ؟

بتا رھے ھو کہ رسمی دُعا سلام ھے بس
دُعا سلام کا مطلب دُعا سلام ھے کیا ؟

تو کیا وھاں سے بھی اب ھر کوئی گذرتا ھے ؟
وہ راہِ خاص بھی اب شاھراہِ عام ھے کیا ؟

مَیں پُوچھ بیٹھا: تُمہیں یاد ھے ھمارا عشق ؟
جواب آیا کہ تُو کون ؟ تیرا نام ھے کیا ؟

اک ایک کرکے سبھی یار اُٹھتے جاتے ھیں
درُونِ خانہ کوئی اور انتظام ھے کیا ؟

بری کرانا ھے ابلیس کو کسی صُورت
خُدا کے گھر میں کسی سے دُعا سلام ھے کیا ؟

جواب آیا کہ فرفر سُناؤں ؟ یاد ھے سب
سوال یہ تھا کہ یہ آپ کا کلام ھے کیا ؟

تُو بے وفائی کرے اور پھر یہ حُکم بھی دے
کہ بس ترا رھے فارس، ترا غُلام ھے کیا ؟

رحمان فارس

Leave a Comment

میں نعرۂ مستانہ

میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا

میں طائرِ لاہُوتی، میں جوہرِ ملکُوتی
ناسُوتی نے کب مُجھ کو، اس حال میں پہچانا

میں سوزِ محبت ہوں، میں ایک قیامت ہوں
میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ

کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں
خُود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ

میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ

میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں
میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ

میں واصفِؔ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اِک ٹُوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ

واصف علی واصفؔ

Leave a Comment

خواب دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں

خواب دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں
چلیے پہلے نہیں پوچھا تھا تو اب پوچھتے ہیں

کیسے خوش طبع ہیں اس شہر دل آزار کے لوگ
موج خوں سر سے گزر جاتی ہے تب پوچھتے ہیں

اہل دنیا کا تو کیا ذکر کہ دیوانوں کو
صاحبان دل شوریدہ بھی کب پوچھتے ہیں

خاک اڑاتی ہوئی راتیں ہوں کہ بھیگے ہوئے دن
اول صبح کے غم آخر شب پوچھتے ہیں

ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال
جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں

یہی مجبور یہی مہر بہ لب بے آواز
پوچھنے پر کبھی آئیں تو غضب پوچھتے ہیں

کرم مسند و منبر کہ اب ارباب حکم
ظلم کر چکتے ہیں تب مرضیٔ رب پوچھتے ہیں

افتخار عارف

Leave a Comment

ہم نے غزلوں میں تمہیں ایسے پکارا محسن

ہم نے غزلوں میں تمہیں ایسے پکارا محسن
جیسے تم ہو کوئی قسمت کا ستارا محسن
اب تو خود کو بھی نکھارا نہیں جاتا ہم سے
وہ بھی کیا دن تھے کہ تجھ کو بھی سنوارا محسن
اپنے خوابوں کو اندھیروں کے حوالے کر کے
ہم نے صدقہ تیری آنکھوں کا اتارا محسن
ہم کو معلوم ہے اب لوٹ کے آنا تیرا
نہیں ممکن یہ مگر پھر بھی خدارا محسن
ہم تو رخصت کی گھڑی کو بھی نہ سمجھے محسن
سانس دیتی رہی ہجرت کا اشارہ محسن
اس نے جب جب بھی مجھے دل سے پکارا محسن
میں نے تب تب یہ بتایا کے تمہارا محسن
لوگ صدیوں کے خطائوں پہ بھی خوش بستے ہیں
ہم کو لمحوں کی وفاؤں نے اجاڑا محسن
ہو گیا جب یہ یقین اب وہ نہیں آئے گا
آنسو اور غم نے دیا دل کو سہارا محسن
وہ تھا جب پاس تو جینے کو بھی دل کرتا تھا
اب تو پل بھر بھی نہیں ہوتا گزارا محسن
اسکو پانا تو مقدر کی لکیروں میں نہیں
اسکو کھونا بھی کریں کیسے گوارہ محسن

محسن نقوی

Leave a Comment

غموں کی دُھول میں شاید بکھر گیا ہو گا

غموں کی دُھول میں شاید بکھر گیا ہو گا
بچھڑ کے مجھ سے وہ جانے کدھر گیا ہو گا

وہاں وہاں مری خشبو بکھر گئی ہو گی
جہاں جہاں بھی مرا ہم سفر گیا ہو گا

میں اُس کے ہجر میں کتنا اُداس رہتا ہوں
یہ سن کے اُس کا بھی چہرہ اُتر گیا ہو گا

یہ کس نے خواب میں آکر جگا دیا مجھ کو
مجھے یقیں ہے وہ سوتے میں ڈر گیا ہو گا

خوشی کی دھوپ نے سنولا دیا تھا رنگ اُس کا
اُداس ہو کے وہ کتنا نکھر گیا ہو گا

نکل پڑا تھا سرِ شام چاند کی صورت
مری تلاش میں وہ تا سحر گیا ہو گا

جو مرے دل کو قفس میں بدل گیا جرارؔ
وہ اپنے گھر کو بھی ویران کر گیا ہو گا

Leave a Comment

آیاتِ ہجر کی بیاں تفسیر کی نہیں

آیاتِ ہجر کی بیاں تفسیر کی نہیں
دل پر گزرتی جو بھی وہ تحریر کی نہیں

کوئی تو بھید ہو گا خموشی کے آس پاس
جلتی ہوئی نگاہ نے تقریر کی نہیں

دستک ترے جمال نے جب بھی ذہن پہ دی
اٹھ کر گلے لگا لیا تاخیر کی نہیں

تجھ کو رکھا سنبھال کے پتلی کے درمیاں
اوجھل کبھی نگاہ سے تصویر کی نہیں

میں تو تمھاری قید میں جیتا ہوں رات دن
ڈھیلی کبھی خیال نے زنجیر کی نہیں

دل میں رکھا تجھے جو تو پوجا ہے اپنا آپ
پھر میں نے اپنی ذات کی تحقیر کی نہیں

تیری جفا کی بخشی نشانی سنبھال لی
مٹتے ہوئے وجود کی تعمیر کی نہیں

دیکھا جو پورا خواب ادھورا ہی رہ گیا
میں نے بھی پھر عیاں کبھی تعبیر کی نہیں

واحد وجود تیرے سے روشن ہے میرا دل
تجھ بن کسی کو چاہوں یہ تقصیر کی نہیں

Leave a Comment

دن نکلے تو سوچ الگ ، شام ڈھلے وجدان الگ

دن نکلے تو سوچ الگ ، شام ڈھلے وجدان الگ
امید الگ ، آس الگ ، سکون الگ ، طوفان الگ​

تشبیہ دوں تو کس سے ، کہ تیرے حسن کا ہر رنگ
نیلا الگ ، زمرد الگ ، یاقوت الگ ، مرجان الگ

تیری الفت کے تقاضے بھی عجب انداز کے تھے
اقرار الگ ، تکرار الگ ، تعظیم الگ ، فرمان الگ

گر ساتھ نہیں دے سکتے تو بانٹ دو یکجان لمحے
مسرور الگ ، نڈھال الگ ، پرکیف الگ ، پریشان الگ

وقت رخصت الوداع کا لفظ جب کہنے لگے
آنسو الگ ، مسکان الگ ، بیتابی الگ ، ہیجان الگ

جب چھوڑ گیا ، تب دیکھا اپنی آنکھوں کا رنگ
حیران الگ ، پشیمان الگ ، سنسان الگ ، بیابان الگ

Leave a Comment

ہم لوگ

ہر اک ہزار میں بس پانچ، سات ہیں ہم لوگ
نصابِ عشق پہ واجب زکوۃ ہیں ہم لوگ
دباؤ میں بھی جماعت کبھی نہیں بدلی
شروع دن سے محبت کے ساتھ ہیں ہم لوگ
جو سیکھنی ہو زبانِ سکوت، بسم اللہ
خموشیوں کے مکمل لغات ہیں ہم لوگ
کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے
خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ
یہ انتظار ہمیں دیکھ کر بنایا گیا
ظہورِ ہجر سے پہلے کی بات ہیں ہم لوگ
کسی کو راستہ دے دیں، کسی کو پانی نہ دیں
کہیں پہ نیل کہیں پر فرات ہیں ہم لوگ
ہمیں جلا کے کوئی شب گزار سکتا ہے
سڑک پہ بکھرے ہوئے کاغذات ہیں ہم لوگ

Leave a Comment

چل انشا اپنے گاوں میں

چل انشا اپنے گاوں میں
یہاں الجھے الجھے روپ بہت
پر اصلی کم بہروپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رکنا
جہاں سایا کم ھو دھوپ بہت
چل انشا اپنے گاوں میں
بیٹھیں گے سکھ کی چھاوں میں
کیوں تیری آنکھ سوالی ہے
یہاں ہر اک بات نرالی ہے
اس دیس بسیرا مت کرنا
یہاں مفلس ھونا گالی ہے
چل انشا اپنے گاوں میں
جہاں سچے رشتے یاروں کے
جہاں وعدے پکے پیاروں کے
جہاں گھونگھٹ زیور ناروں کے
جہاں جھومیں کومل سر والے
جہاں ساز بجیں بن تاروں کے
کرے سجدہ وفا بھی پاوں میں
چل انشا اپنے گاوں میں

Leave a Comment
%d bloggers like this: