Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

نالہ ہے بُلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی

نالہ ہے بُلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
پُختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی
شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زُنّاریِ بُت خانۂ ایّام ابھی
عُذرِ پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
ہے ترے دل میں وہی کاوشِ انجام ابھی
سعیِ پیہم ہے ترازُوئے کم و کیفِ حیات
تیری میزاں ہے شمارِ سحَر و شام ابھی
ابرِ نیساں! یہ تنک بخشیِ شبنم کب تک
مرے کُہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی
بادہ گردانِ عجَم وہ، عَربی میری شراب
مرے ساغر سے جھجکتے ہیں مے آشام ابھی
خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم
نَو گرفتار پھڑکتا ہے تہِ دام ابھی

Leave a Comment

عجیب دکھ ھے

خطاب آنسو، خطیب دکھ ھے عجیب دکھ ھے
ہو کربلا یا صلیب دکھ ھے، عجیب دکھ ھے

ترے توسط سے جو ملا ھے خوشی ہوئی ھے
پر اس خوشی میں، رقیب دکھ ھے، عجیب دکھ ھے

یہ پڑھنے والے بھی فرق تھوڑا سا جان جائیں
ادب خوشی ھے ادیب دکھ ھے، عجیب دکھ ھے

یہ تیرے جتنا قریب تیرے عزیز ہیں
ہمارے اتنا قریب دکھ ھے، عجیب دکھ ھے

تمہارا دکھ ھے کہ آج تم سے ملا نہیں وہ
اِدھر ہمارا نصیب دکھ ھے، عجیب دکھ ھے

یہ دکھ محبت کا دکھ ھے اس میں علاج کیسا
دوائی دکھ ھے، طبیب دکھ ھے،عجیب دکھ ھے

مرے علاوہ فقط خدا کو پتہ ھے اِس کا
جو میرے دل میں حبیب دکھ ھے، عجیب دکھ ھے

Leave a Comment

نالہ ہے بُلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی

نالہ ہے بُلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
پُختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی
شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زُنّاریِ بُت خانۂ ایّام ابھی
عُذرِ پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
ہے ترے دل میں وہی کاوشِ انجام ابھی
سعیِ پیہم ہے ترازُوئے کم و کیفِ حیات
تیری میزاں ہے شمارِ سحَر و شام ابھی
ابرِ نیساں! یہ تنک بخشیِ شبنم کب تک
مرے کُہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی
بادہ گردانِ عجَم وہ، عَربی میری شراب
مرے ساغر سے جھجکتے ہیں مے آشام ابھی
خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم
نَو گرفتار پھڑکتا ہے تہِ دام ابھی

Leave a Comment

عالمِ عشق سے اِس ہجر میں لایا ہُوا ہُوں

عالمِ عشق سے اِس ہجر میں لایا ہُوا ہُوں
آخری اَشک ہوں اور آنکھ میں آیا ہُوا ہُوں

میرے اصراف سے پرہیز کیا جاۓ کہ میں
عہدِ افلاس میں مُشکل سے کمایا ہُوا ہُوں

روح سے روح کا رشتہ بھی بجا ہے لیکن
میں ابھی جسم کی تقریب میں آیا ہُوا ہُوں

جو بھی آتا ہے وہ پیاسا ہی چلا جاتا ہے
میں وہ دریا ہوں جو نظروں سے گرایا ہوا ہوں

کم سے کم تُو تو مِری زات پہ اُنگلی نہ اُٹھا
لاکھ سورج ہوں مگر تجھ پہ تو سایہ ہوا ہوں

مجھ کو تقدیر سے شکوہ ہے نہ قسمت سے گلہ
میں وہ بدبخت جو دانستہ گنوایا ہوا ہوں

ہو چُکے مسخ خدوخال مِرے چہرے کے
میں وہ لاش ہوں جو گلیوں میں پھرایا ہوا ہوں

Leave a Comment

تمہارے نام، تمہارے نشاں سے بےسروکار

تمہارے نام، تمہارے نشاں سے بےسروکار
تمہاری یاد کے موسم گُزرتے جاتے ہیں
بس ایک منظرِ بےہجر و وصل ہے، جس میں
ہم اپنے آپ ہی کچھ رنگ بھرتے جاتے ہیں

نہ وہ نشاطِ تصوّر کہ لو تم آ ہی گئے
نہ زخمِ دل کی ہے سوزش کوئی، جو سہنی ہو
نہ کوئی وعدہ و پیماں کی شام ہے، نہ سحر
نہ شوق کی ہے کوئی داستاں، جو کہنی ہو

نہیں جو محمل لیلائے آرزو سرِ راہ
تو اب فضا میں فضا کے سِوا کچھ اور نہیں
نہیں جو موجِ صبا میں کوئی شمیمِ پیام
تو اب صبا میں صبا کے سِوا کچھ اور نہیں

اُتار دے جو کنارے پہ ہم کو کَشتیٔ‌‌ وہم
تو گَرد و پَیش کو گرداب ہی سمجھتے ہیں
تمہارے رنگ مہکتے ہیں خواب میں جب بھی
تو خواب میں بھی انہیں خواب ہی سمجھتے ہیں

نہ کوئی زخم، نہ مرہم کہ زندگی اپنی
گُزر رہی ہے ہر احساس کو گنوانے میں
مگر یہ زخم، یہ مرہم بھی کم نہیں شاید
کہ ہم ہیں ایک زمیں پر اور اِک زمانے میں

۔جون ایلیاء

Leave a Comment

نشے کی آگ میں دیکھا گلاب یعنی تو

نشے کی آگ میں دیکھا گلاب یعنی تو
بدن کے جام میں دیسی شراب یعنی تو

ہمارے لمس نے سب تار کس دئے اس کے
وہ جھنجھنانے کو بیکل رباب یعنی تو

ہر ایک چہرہ نظر سے چکھا ہوا دیکھا
ہر اک نظر سے اچھوتا شباب یعنی تو

سفید قلمیں ہوئیں تو سیہ زلف ملی
اب ایسی عمر میں یہ انقلاب یعنی تو

مے خود ہی اپنی نگاہوں کہ داد دیتا ہوں
حذر چہروں میں اک انتخاب یعنی تو

ملے ملے نہ ملے نیکیوں کا پھل مجھ کو
خدا نے دے دیا مجھ کو ثواب یعنی تو

گداز جسم کمل ہونٹ مرمری باہیں
مری طبیعت پہ لکھی کتاب یعنی تو

میں تیرے عشق سے پہلے گناہ کرتا تھا
مجھے دیا گیا دل کش عذاب یعنی تو

Leave a Comment

ﺗﺮﺳﺘﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ , ﺍﺩﺍﺱ ﭼﮩﺮﮦ

, ﺗﺮﺳﺘﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ , ﺍﺩﺍﺱ ﭼﮩﺮﮦ
ﻧﺤﯿﻒ ﻟﮩﺠﮧ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ
, ﺑﮑﮭﺮﯼ ﺯﻟﻔﯿﮟ , ﻟﺒﺎﺱ ﺍﺟﮍﺍ
ﻭﺟﻮﺩ ﺧﺴﺘﮧ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

ﻋﻤﯿﻖ ﺟﻨﮕﻞ, ﮔﮭﭗ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ, ﮈﻭﺑﯽ
ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ,ﺿﻌﯿﻒ ﺩﮬﮍﮐﻦ
, ﺑﺮﮨﻨﮧ ﭘﺎﺅﮞ , ﺑﮯ ﻧﺎﻡ ﻣﻨﺰﻝ
ﻧﺸﺎﮞ ﻧﮧ ﺭﺳﺘﮧ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺑﻠﺒﻞ , ﺳﺮﺩ ﭘﺖ ﺟﮭﮍ, ﺑﮯ
ﺭﻧﮓ ﻣﻮﺳﻢ,ﻭﯾﺮﺍﻥ ﮔﻠﺸﻦ
ﻧﮧ ﭘﮭﻮﻝ ﺧﻮﺷﺒﻮ , ﮨﻮﺍ ﻧﮧ ﺑﺎﺩﻝ ﻧﮧ
ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻐﻤﮧ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

ﺍﻣﯿﺪ ﻣﺪﮬﻢ ,ﻣﺰﺍﺝ ﺑﺮﮬﻢ, ﻣﺎﯾﻮﺱ
ﺟﯿﻮﻥ , ﺑﮯ ﺁﺱ ﮨﺮ ﺩﻡ
ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ
ﺣﺴﺮﺕ, ﻧﮧ ﮨﮯ ﺗﻤﻨﺎ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

ﮐﺎﻟﯽ ﺻﺒﺤﯿﮟ , ﺳﺮﺥ ﺭﺍﺗﯿﮟ , ﻭﻗﺖ
ﺳﺎﮐﻦ , ﺍﺩﺍﺱ ﺷﺎﻣﯿﮟ
ﮨﺰﺍﺭ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ , ﮨﺮ
ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮧ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

, ﺗﻌﻮﯾﺰ ﺍﻟﭩﮯ , ﺍﺩﮬﻮﺭﯼ ﻣﻨﺖ
ﻭﻇﯿﻔﮯ , ﺟﺎﺩﻭ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﺳﺎﺭﮮ
ﻧﮧ ﺍﺳﺘﺨﺎﺭﮦ ﮨﯽ ﮐﺎﻡ ﺁﯾﺎ , ﻧﮧ
ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮬﺎﮔﮧ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

, ﻋﺠﯿﺐ ﻗﺴﻤﺖ , ﻧﺼﯿﺐ ﺍﻟﺠﮭﺎ
ﻏﻠﻂ ﻟﮑﯿﺮﯾﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﻘﺪﺭ
ﮨﺎﮞ ﮔﺮﺩﺷﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺘﺎﺭﮦ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

, ﮨﺠﺮ ﮐﺎﻣﻞ , ﻓﺮﺍﻕ ﺣﺎﻭﯼ
ﺟﺪﺍﺋﯽ ﯾﮑﺴﺮ , ﻃﻮﯾﻞ ﺩﻭﺭﯼ
, ﺧﻮﺍﺏ ﻗﺮﺑﺖ , ﻭﺻﺎﻝ ﺣﺴﺮﺕ
ﺭﺿﺎ ﮨﮯ ﺗﻨﮩﺎ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

Leave a Comment

شانوں پہ کس کے اشک بہایا کریں گی آپ ؟

شانوں پہ کس کے اشک بہایا کریں گی آپ ؟
رُوٹھے گا کون ، کس کو منایا کریں گی آپ ؟

وہ جا رھا ھے صُبحِ مُحبت کا کارواں
اب شام کو کہیں بھی نہ جایا کریں گی آپ

اب کون “خود پرست” ستائے گا آپکو ؟؟
کِس بے وفا کے ناز اُٹھایا کریں گی آپ ؟

پہروں شبِ فراق میں تاروں کو دیکھ کر
شکلیں مِٹا مِٹا کے بنایا کریں گی آپ

گمنام الجھنوں میں گُزاریں گی رات دن
بیکار اپنے جی کو جلایا کریں گی آپ

اب لذتِ سماعتِ رھرو کے واسطے
اُونچے سُروں میں گیت نہ گایا کریں گی آپ

ھمجولیوں کو اپنی بسوزِ تصورات
ماضی کے واقعات سُنایا کریں گی آپ

اب وہ شرارتوں کے زمانے گزر گئے
چونکے گا کون ، کِس کو ڈرایا کریں گی آپ ؟

فرقت میں دورِ گوشہ نشینی بھی آئیگا
مِلنے سہیلیوں سے نہ جایا کریں گی آپ

غصے میں نوکروں سے بھی الجھیں گی بار بار
معمولی بات کو بھی بڑھایا کریں گی آپ

پھر اسکے بعد ایک وہ منزل بھی آئیگی
دِل سے مرا خیال ھٹایا کریں گی آپ

حالاتِ نو بہ نو کے مسلسل ھجوم میں
کوشش سے اپنے جی کو لگایا کریں گی آپ

آئے گا پھر وہ دِن بھی تغیر کے دور میں
دل میں کوئی خلش ھی نہ پایا کریں گی آپ

“نقشِ کُہن” کو دل سے مِٹانا ھی چاھئیے
گزرے ھُوئے دِنوں کو بھُلانا ھی چاھئیے

Leave a Comment

ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﺗﯿﻮﺭ نہیں ﺑﮭﻼ ﭘﺎﺅ ﮔﮯ

ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﺗﯿﻮﺭ نہیں ﺑﮭﻼ ﭘﺎﺅ ﮔﮯ
ﺍﻥ ﮐﮩﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﮨﻢ ﻧﮯ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﮐﮫ ﺑﮭﯽ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ
ﺻﻔﺤﺌﮧ ﺯﯾﺴﺖ ﮐﻮ ﭘﻠﭩﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺱ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺑﮑﮭﺮ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ
ﮐﺴﯽ ﻣﻌﺬﻭﺭ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺳﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﺧﻂ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻮ ﻟﮑﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﮯ ﮔﯽ ﮔﻼﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ
ﺗﻢ ﺍﮔﺮﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺑﻮﻟﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺳﺮﺩ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﮩﮑﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻨﺎﭨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﻮ ﭼﻮﻣﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺁﺝ ﺗﻮ ﻣﺤﻔﻞ ﯾﺎﺭﺍﮞ ﭘﮧ ﮨﻮ ﻣﻐﺮﻭﺭ ﺑﮩﺖ
ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﭨﻮﭦ ﮐﮯ ﺑﮑﮭﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺏ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﺷﮏ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﺮﺍ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﻮﻧﭽﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺷﺎﻝ ﭘﮩﻨﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﺑﺎﺭﺷﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯿﮕﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺣﺎﺩﺛﮯ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﯿﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﻢ ﮨﻮ ﮐﮯ ﻧﮉﮬﺎﻝ
ﮐﺴﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﻮ ﺗﮭﺎﻣﻮ ﮔﮯ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺨﺖ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﺑﮭﯽ
ﺗﻢ ﺳﯿﺎﮦ ﺭﻧﮓ ﺟﻮ ﭘﮩﻨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

وصی شاہ

Leave a Comment

پاؤں کا دھیان تو ہے راہ کا ڈر کوئی نہیں

پاؤں کا دھیان تو ہے راہ کا ڈر کوئی نہیں
مجھ کو لگتا ہے مرا زادِ سفر کوئی نہیں

بعض اوقات تو میں خود پہ بہت چیختا ہوں
چیختا ہوں کہ اُدھر جاؤ جدھر کوئی نہیں

سر پہ دیوار کا سایا بھی اُداسی ہے مجھے
ظاہراً ایسی اداسی کا اثر کوئی نہیں

آخری بار مجھے کھینچ کے سینے سے لگا
اور پھر دیکھ مجھے موت کا ڈر کوئی نہیں

خودکشی کرتے سمے پوچھتا ہوں میرا عزیز؟
اور آواز سی آتی ہے تُو مَر ! کوئی نہیں

بھری دنیا ہے سسکنے میں جھجک ہو گی تمہیں
یہ مرا دل ہے ادھر رو لو ادھر کوئی نہیں

ایک دن لوگ مجھے تخت نشیں دیکھیں گے
یا یہ دیکھیں گے مرا جسم ہے سَر کوئی نہیں

اُس کی ہجرت بڑا اعصاب شکن سانحہ تھی
شہر تو شہر ہے جنگل میں شجر کوئی نہیں

صبح سے رات کی مایوسی بھگانے کا سبب
کوئی تو ہوتا مرے دوست مگر کوئی نہیں

بے خیالی سی مجھے گود میں بھر لیتی ہے
در پہ دستک ہو تو کہہ دیتا ہوں گھر کوئی نہیں

Leave a Comment
%d bloggers like this: