Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

وہ اتنے نازک ہیں

وہ اتنے نازک ہیں

رُکو تو تم کو بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی اَکیلے اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

کہا طبیب نے ، گر رَنگ گورا رَکھنا ہے
تو چاندنی سے بچائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ نیند کے لیے شبنم کی قرص بھی صاحب
کلی سے پوچھ کے کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

بدن کو دیکھ لیں بادَل تو غسل ہو جائے
دَھنک سے خشک کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

ہَوائی بوسہ دِیا پھول نے ، بنا ڈِمپل
اُجالے ، جسم دَبائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جلا کے ’’شمع‘‘ وُہ جب ’’غُسلِ آفتاب‘‘ کریں
کریم رُخ پہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ دو قدم چلیں پانی پہ ، دیکھ کر چھالے
گھٹائیں گود اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ بادَلوں پہ کمر ’’سیدھی‘‘ رَکھنے کو سوئیں
کرن کا تکیہ بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو ایک دانے پہ چاوَل کے لکھتے ہیں ناوَل
سنگھار اُن سے کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

سیاہی شب کی ہے چشمِ غزال کو سُرمہ
حیا کا غازہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

لگائیں خوشبو تو ہو جاتا ہے وَزَن دُگنا
قدم گھسیٹ نہ پائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

سنا ہے پنکھڑی سے رات کان میں پوچھا
یہ جلد کیسے بچائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

گلے میں شبنمی مالا ، کلائی پر تتلی
ہنسی لبوں پہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو اُن کے سائے کے پاؤں پہ پاؤں آ جائے
تو ڈاکٹر کو دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

متاعِ ناز کے ناخن تراشنے ہوں اَگر
کلوروفام سنگھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو پوچھا دُنیا کی نازُک ترین شے کیا ہے
تو ہنس کے سر کو جھکائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

لباس پنکھڑی کی اِک پَرَت سے بن جائے
کلی سے جوتے بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

شمیض کی جگہ عرقِ گلاب پہنا ہے
پھر اُس پہ دُھند لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

قمیض کے لیے شبنم میں پنکھڑی دُھو کر
بدن پہ رَکھ کے دَبائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

لباس اُتاریں جو کلیوں کا وُہ بنے فیشن
گلاب دام چکائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

پراندہ ، چُوڑیاں ، جھمکے ، اَنگوٹھی ، ہار ، گھڑی
اِنہیں تو بھول ہی جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ زیورات کی تصویر ساتھ رَکھتے ہیں
یا گھر بلا کے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

کلی سا جسم وُہ تنہا سنبھالتے ہیں مگر
کنیزیں زُلفیں اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ خوشبو اَوڑھ کے نکلے ہیں اور ضد یہ ہے
لباس سب کو دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

حجاب نظروں کا ہوتا ہے سو وُہ ساحل پر
سیاہ چشمہ چڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو جھوٹ بولنے میں اَوّل آیا اُس نے کہا
وُہ تین روٹیاں کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ تین شبنمی بوندیں ، گُلاب میں دَھر کر
کرن پہ کھانا پکائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ گول گپا بھی کچھ فاصلے سے دیکھتے ہیں
کہ اِس میں گر ہی نہ جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

اُتار دیتے ہیں بالائی ، سادہ پانی کی
پھر اُس میں پانی ملائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

گلاس پانی کا پورا اُنہیں پلانا ہو
نمی ہَوا میں بڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

کنیز توڑ کے بادام لائی تو بولے
گِری بھی پیس کے لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ آم چوسنا بھنورے سے گھر پہ سیکھتے ہیں
گُل اُن کو رَقص پڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو غنچہ سونگھ لیں خوشبو سے پیٹ اِتنا بھرے
کہ کھانا سونگھ نہ پائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ اَپنی روٹی گلابوں میں بانٹ دیتے ہیں
کلی کو دُودھ پلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

شراب پینا کجا ، نام جام کا سن لیں
تو جھوم جھوم سے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

کباب پنکھڑی کے اُن کی من پسند غذا
ملائی چھیل کے کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو نبضِ ناز کی جنبش کو کر گیا محسوس
طبیب اُس کو بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو ’’نیم ٹھوس‘‘ غذا کھانے کو حکیم کہے
ہَوا بہار کی کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

زُکام ہو گیا دیکھی جو برف کی تصویر
اَب اُن کو یخنی دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

دَوا پلا کے قریب اُن کے بھیجے دو مچھر
کہ اُن کو ٹیکہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

بہت تلاش کی مچھر نے سُوئی گھونپنے کی
رَہا یا دائیں یا بائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

شفا کو اُن کی قریب اُن کے لیٹ کر ٹیکہ
طبیب خود کو لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

’’خیالی کھچڑی‘‘ کو نسخے میں لکھ کے بولا طبیب
اَنار خواب میں کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

دَوا کو کھانا نہیں تین بار سوچنا ہے
طبیب پھر سے بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

اَبھی تو ٹیک لگائے بغیر بیٹھے تھے
وَزیر قسمیں اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ سانس لیتے ہیں تو اُس سے سانس چڑھتا ہے
سو رَقص کیسے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

نزاکت ایسی کہ جگنو سے ہاتھ جل جائے
جلے پہ اَبر لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ تین روٹیوں کا آٹا گوندھ لیں جس دِن
تو گھر میں جشن منائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ دَھڑکنوں کی دَھمک سے لرزنے لگتے ہیں
گلے سے کیسے لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ بول لیتے ہیں یہ بھی خدا کی قدرت ہے
حُروف جشن منائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ گنگنائیں تو ہونٹوں پہ نیل پڑ جائیں
سُخن پہ پہرے بٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو ننھا جملہ کوئی تھک کے چھوڑ دینے لگیں
دِلاسہ گونگے دِلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

گلے میں لفظ اَٹک جائیں اُردُو بولیں تو
غرارے ’’چپ‘‘ کے کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو گاڑھی اُردُو سے نازُک مزاج ہو ناساز
فِر اُن کو ہندی سنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو اُن کا نام کوئی پوچھے تو اِشارے سے
ہَوا میں ’’ل‘‘ بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو پہلی بار ملے اُلٹا اُس سے کہتے ہیں
ہمارا نام بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

کلی جو چٹکے تو نازُک ترین ہاتھوں سے
وُہ دونوں کان چھپائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

سریلی فاختہ کُوکے جو تین مُلک پرے
شِکایت اُس کی لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

غلام چٹکی نہ سننے پہ مرتے مرتے کہیں
خدارا تالی بجائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

پسینہ آئے تو دو تتلیاں قریب آ کر
پروں کو سُر میں ہِلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ سُرخ پھول اَنگیٹھی میں بھر کے بیٹھ گئے
چلیں جو سرد ہَوائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

کھلونے عید پہ جگنو کو لے کے دیتے ہیں
تو تتلیوں کو قبائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو تتلی تھک کے کوئی پاس آ کے لیٹے ہے
کمر پہ چڑھ کے دَبائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

گواہی دینے وُہ جاتے تو ہیں پر اُن کی جگہ
قسم بھی لوگ اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

کبوتروں سے کراتے تھے بادشاہ جو کام
وُہ تتلیوں سے کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ پانچ خط لکھیں تو ’’شکریہ‘‘ کا لفظ بنے
ذِرا حساب لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

چیونٹیوں کی لڑائی میں بول پڑتے ہیں
جلی کٹی بھی سنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

بس اِس دَلیل پہ کرتے نہیں وُہ سالگرہ
کہ شمع کیسے بجھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

کسی کی سالگرہ پر بھی جا نہیں سکتے
کہ تالی کیسے بجائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

غبارہ پھُولتا ہے خود سکڑنے لگتے ہیں
غبارہ کیسے پھلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

چھری سے کیک کو قربان ہوتا دیکھیں اَگر
مہینوں اَشک بہائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

گماں کی دیگ میں خوشبو کی قاش کا حلوہ
بنا کے ختم دِلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

خیال میں بھی جو دعوت کریں عزیزوں کی
تو سال چھٹی منائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ گھُپ اَندھیرے میں خیرہ نگاہ بیٹھے ہیں
اَب اور ہم کیا بجھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

گھروندے ریت سے ساحل پہ سب بناتے ہیں
وُہ بادَلوں پہ بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

شکار کرنے کو جانا ہے ، کہتے جاتے ہیں
پکڑنے تتلی جو جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

شکارِیوں میں اُنہیں بھی جو دیکھیں زَخمی شیر
تو مر تو شرم سے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

اُٹھا کے لاتے جو تتلی تو موچ آ جاتی
گھسیٹتے ہُوئے لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

نکاح خوان کو بس ’’ایک‘‘ بار وَقتِ قَبول
جھکا کے پلکیں دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

ہر ایک کام کو ’’مختارِ خاص‘‘ رَکھتے ہیں
سو عشق خود نہ لڑائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

حنا لگائیں تو ہاتھ اُن کے بھاری ہو جائیں
سو پاؤں پر نہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

غزل یہ اُن کو پڑھائی ہے نو مہینوں میں
کتاب کیسے پڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

چبھے جو پنکھڑی گلشن کی سیر کرتے ہُوئے
دَھنک کی پالکی لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

کتاب میں پھنسے اُنگلی وَرَق پلٹتے ہُوئے
تو جلد ساز بُلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو جاں پہ کھیلنا مقصود ہو تو جگنو کو
وُہ سُرخ کپڑا دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

اُٹھائیں تتلیاں تخت اُن کا کچھ بلندی تک
پھر اُس کے بعد گھٹائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

نزاکت ایسی کہ آئینے اُن کو دیکھنے کو
نظر کا عدسہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ خود کو آئینے میں جلد ڈُھونڈ لیتے ہیں
پھر اُس پہ تالی بجائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو دِل بھی توڑنا ہو تو کِرائے کے قاتل
سے ایسا کام کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

چلے جو آندھی تو دو پھول تھام لیتے ہیں
کہ آپ اُڑ ہی نہ جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

کلاس ساری تو اَلجبرا پڑھتی ہے اُن کو
اَلاختیار پڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

زِیادہ پڑھ نہ سکے اور مسئلہ یہ تھا
کہ ڈِگری کیسے اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو کالی چیونٹی کبھی رَستہ کاٹ دے اُن کا
پلٹ کے گھر چلے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

بلب جلانے سے اِک دَھکا روشنی کا لگے
سو ایک دَم نہ جلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

کھلونے آپ سے جی بھر کے کھیلنے کے بعد
پلنگ پہ ساتھ سلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

غضب ہے چھٹی کے دِن گڑیا ، گڈا مل جل کر
اُنہی کی شادی کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ پہلوانوں کو گڑیا کی بانہوں کی مچھلی
اُکھاڑے جا کے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو گرمی لگتی ہے تو پھول پھونک ماریں اُنہیں
مہک سی جائیں ، فضائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو آئینے میں وُہ خود سے لڑائیں آنکھیں کبھی
تو ایک پل میں جھکائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

کلی اُکھاڑنے کو پاؤں رَکھ کے ٹہنی پر
شدید زور لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ صرف باتیں نہیں کرتے کارٹونوں سے
ڈِنر پہ گھر بھی بلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ ہنس راجوں کے ہمراہ جھیل کے اُس پار
کنول پہ بیٹھ کے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

سیاہ شیشہ جو آنکھوں پہ رَکھ کے دیکھیں ہِلال
تو بَدر کیسے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

قدم اُٹھاتے ہُوئے دیر تک وُہ سوچتے ہیں
قدم یہ کیسے اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

کلی ، گلاب ، بہن بھائی اُن کے لگتے ہیں
جو اُن میں عکس بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

چیونٹیوں سے وُہ لے لیتے ہیں قُلی کا کام
پھر اُن کو چینی کھِلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ تتلیوں کی طرح قَدرے اُڑنے لگتے ہیں
جو آنچل اَپنا ہِلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو دُھند چھائے تو وُہ اُس میں غوطے کھاتے ہیں
گھر اَپنے تیر کے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

بدن پہ روشنی سے بھی دَباؤ بڑھتا ہے
کھلونا دیپ جلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

فریج میں آرزُو رَکھتے ہیں تا کہ تازہ رہے
قسم بھی دُھو کے ہی کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

سنا ہے وَہم کو اُن کے وُجود پر شک ہے
گمان قسمیں اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

جو کھیل کھیل میں اُلجھیں خیال سے اَپنے
تو زَخم دونوں کو آئیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

بنا لیں ایک بڑی سوچ ، چھوٹی سوچوں سے
پھر اُس پہ کپڑا چڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

کلی کو گلستاں کہتے ہیں ، پھول کو باغات
چمن کو دُنیا بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ سیر ، صبح کی کرتے ہیں خواب میں چل کر
وَزَن کو سو کے گھٹائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وَزَن گھٹانے کا نسخہ بتائیں کانٹوں کو
پھر اُن کو چل کے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ تِل کے بوجھ سے بے ہوش ہو گئے اِک دِن
سہارا دے کے چلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

کل اَپنے سائے سے وُہ اِلتماس کرتے تھے
یہاں پہ رَش نہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

وُہ تھک کے چُور سے ہو جاتے ہیں خدارا اُنہیں
خیال میں بھی نہ لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

پری نے ہاتھ سے اَنگڑائی روک دی اُن کی
کہ آپ ٹوٹ نہ جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

غزل وُہ پڑھتے ہی یہ کہہ کے قیس رُوٹھ گئے
کہ نازُکی تو بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں

Leave a Comment

کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات

کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات
کہنہ ہے بزمِ کائنات ، تازہ ہیں میرے واردات

کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات

ذکرِ عرب کے سوز میں ، فکر عجم کے ساز میں
نے عربی مشاہدات ، نے عجمی تخیلات

قافلہءِ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂِ تصورات

صدقِ خلیل بھی ہے عشق ، صبرِ حسین بھی ہے عشق
معرکہءِ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

Leave a Comment

اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو

آبتاؤں تجھ کو رمزِ آیہء ،ان الملوک
سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادوگری

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

جادوئے محمود کی تاثیر سے چشمِ ایاز
دیکھتی ہے حلقہء گردن میں ساز دلبری

خون اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسی طلسمِ سامری

سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی، باقی بتانِ آزری

از غلامی فطرت آزاد را رسوا مکن
تا تراشی خواجہ ے از برہمن کافر تری

ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طبِ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری

گرمئِ گفتار اعضائے مجالس، الاماں!
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری

اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

Leave a Comment

ان سے نین ملا کے دیکھو

ان سے نین ملا کے دیکھو
یہ دھوکا بھی کھا کے دیکھو

دوری میں کیا بھید چھپا ہے
اس کا کھوج لگا کے دیکھو

کسی اکیلی شام کی چپ میں
گیت پرانے گا کے دیکھو

آج کی رات بہت کالی ہے
سوچ کے دیپ جلا کے دیکھو

دل کا گھر سنسان پڑا ہے
دکھ کی دھوم مچا کے دیکھو

جاگ جاگ کر عمر کٹی ہے
نیند کے دوارے جا کے دیکھو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منیر نیازی

Leave a Comment

کوئی مشکل پڑے تعویذ بنا سکتے ہو

کوئی مشکل پڑے تعویذ بنا سکتے ہو
تم مرے نام پہ ہر داو لگا سکتے ہو

جب جہاں چاہو مجھے چھوڑ کے جا سکتے ہو
اُس گھڑی تک مجھے کیا اپنا بنا سکتے ہو !

کب تقاضا ہے نبھانے کا مگر جاتے ہوئے
میرے اندر سے بھی کیا خود کو مٹا سکتے ہو

تم کو معلوم ہے یہ آخری نیندیں ہیں مری
وسعتِ خواب ذرا اور بڑھا سکتے ہو

آسماں تھام کے رکھا ہے جو تم نے سر پے
تھک گئے ہو تو اسے مجھ پہ گرا سکتے ہو

جب کبھی شہر سے گزرو مرے، ملنا لازم
اک تمہی ہو جو مجھے مجھ سے ملا سکتے ہو

مجھ سے ملنے میں بھلا اب ہے تردد کیسا
اس سے بڑھ کر تو نہیں مجھ کو گنوا سکتے ہو

یاد کرنے کا سلیقہ ہے مری نس نس کو
تم مجھے کیسے بھلاتے ہیں، سکھا سکتے ہو !

میں تو مارا ہوں مروت کا، کہاں بولوں گا
تم مجھے آئینہ جب چاہے دکھا سکتے ہو

بات سیدھی ہے مگر دل بھلا سمجھا ہے کبھی
تم گیا وقت ہو ، کب لوٹ کے آ سکتے ہو

یونہی بے کار گئے شعر تمہارے ابرک
تم تو کہتے تھے کہ پتھر بھی رُلا سکتے ہو

اتباف ابرک

Leave a Comment

ٹوٹ جائیں گے بچا لے کوئی

ٹوٹ جائیں گے بچا لے کوئی
خواب نیندوں سے چرا لے کوئی

ابھی روشن ہیں ان آنکھوں کے دیے
اپنی راہوں میں جلا لے کوئی

وقت نے چھوڑ دیا ہے پیچھے
قافلہ ساتھ ملا لے کوئی

ہم ہیں سامان سمیٹے بیٹھے
دے کے آواز بلا لے کوئی

کورے کاغذ کی طرح آئیں گے
جو بھی من چاہے لکھا لے کوئی

مہ کشی کفر سمجھتا ہوں میں
اور چاہے جو پلا لے کوئی

میرے اپنے تو نہیں مانیں گے
چلو اب غیر منا لے کوئی

مجھ کو تعمیر نہیں کر سکتا
میرا ملبہ ہی اٹھا لے کوئی

اپنی نیندوں سے تو ڈر لگتا ہے
اپنی نیندوں میں سلا لے کوئی

یونہی بے کار بکے جاتا ہوں
آج اپنی ہی سنا لے کوئی

پھر اسی ڈر سے کسی کا نہ ہوا
مجھے پھر سے نہ گنوا لے کوئی

گھپ اندھیروں میں نباہوں ابرک
اپنا سایہ جو بنا لے کوئی

اتباف ابرک

Leave a Comment

کٹ ہی گئی جدائی بھی یہ کب ہوا کہ مر گئے

کٹ ہی گئی جدائی بھی یہ کب ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے

تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے

وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہو گیا
دل میں تیرے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے

ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
صحرا امڈ امڈ پڑے دریا بپھر بپھر گئے

وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے

کوئی کنارِ آب جو بیٹھا ہوا ہے سر نگوں
کشتی کدھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے

آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا
ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے

بارشِ وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے

آبِ محیطِ عشق کا بحر عجیب بحر ہے
تَیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے

اتنے قریب ہو گئے اپنے رقیب ہو گئے
وہ بھی عدؔیم ڈر گیا ہم بھی عدؔیم ڈر گئے

اس کے سلوک پر عدؔیم اپنی حیات و موت ہے
وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ جو ملا تو مرگے

Leave a Comment

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے
جو ربِ دوعالم کا محبوب یگانہ ہے

کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے
زہرہ کا وہ بابا ہے ، سبطین کا نانا ہے

اس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں
جو حسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے

عزت سے نہ مر جائیں کیوں نام محمد پر
ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے

آؤ درِ زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن
ہے نسل کریموں کی، لجپال گھرانا ہے

ہوں شاہِ مدینہ کی میں پشت پناہی میں
کیا اس کی مجھے پروا دشمن جو زمانہ ہے

یہ کہہ کر درِ حق سے لی موت میں کچھ مُہلت
میلاد کی آمد ہے، محفل کو سجانا ہے

قربان اُس آقا پر کل حشر کے دن جس نے
اِس امت آسی کو کملی میں چھپانا ہے

سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو کیا حیرت
بخشش کی روایت میں توبہ تو بہانہ ہے

پُر نور سی راہیں بھی گنبد پہ نگاہیں بھی
جلوے بھی انوکھے ہیں منظر بھی سہانا ہے

ہم کیوں نہ کہیں اُن سے رودادِ الم اپنی
جب اُن کا کہا خود بھی اللہ نے مانا ہے

محرومِ کرم اس کو رکھئے نہ سرِ محشر
جیسا ہے “نصیر” آخر سائل تو پرانا ہے

Leave a Comment

”مرشد”

”مرشد”
پہلا حصہ
مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجئے
مرشد میں آج آپ کو دکھڑے سناؤں گا
مرشد ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا
مرشد ہمارے دیس میں اک جنگ چھڑ گئی
مرشد سبھی شریف شرافت سے مر گئے
مرشد ہمارے زہن گرفتار ہو گئے
مرشد ہماری سوچ بھی بازاری ہو گئی
مرشد ہماری فوج کیا لڑتی حریف سے
مرشد اسے تو ہم سے ہی فرصت نہیں ملی
مرشد بہت سے مار کے ہم خود بھی مر گئے
مرشد ہمیں زرہ نہیں تلوار دی گئی
مرشد ہماری ذات پہ بہتان چڑھ گئے
مرشد ہماری ذات پلندوں میں دب گئی
مرشد ہمارے واسطے بس ایک شخص تھا
مرشد وہ ایک شخص بھی تقدیر لے اڑی
مرشد خدا کی ذات پہ اندھا یقین تھا
افسوس اب یقین بھی اندھا نہیں رہا
مرشد محبتوں کے نتائج کہاں گئے
مرشد مری تو زندگی برباد ہو گئی
مرشد ہمارے گاؤں کے بچوں نے بھی کہا
مرشد کوں آکھیں آ کے ساڈا حال ڈیکھ ونج
مرشد ہمارا کوئی نہیں ، ایک آپ ہیں
یہ میں بھی جانتا ہوں کہ اچھا نہیں ہوا
مرشد ! میں جل رہا ہوں ، ہوائیں نہ دیجیے
مرشد ! ازالہ کیجے ، دعائیں نہ دیجیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا حصہ
مرشد میں رونا روتے ہوئے اندھا ہو گیا
اور آپ ہیں کہ آپ کو احساس تک نہیں
ھہہ ، صبر کیجے صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے
مرشد میں بھونکدا ہاں جو کئی شئے وی نئیں بچی
مرشد وہاں یزیدیت آگے نکل گئی
اور پارسا نماز کے پیچھے پڑے رہے
مرشد کسی کے ہاتھ میں سب کچھ تو ہے ، مگر
مرشد کسی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا
مرشد میں لڑ نہیں سکا ، پر چیختا رہا
خاموش رہ کے ظلم کا حامی نہیں بنا
مرشد ! جو میرے یار ۔۔ بَھلا چھوڑیں، رہنے دیں
اچھے تھے جیسے بھی تھے خدا مغفرت کرے
مرشد ! ہماری رونقیں دوری نگل گئی
مرشد ! ہماری دوستی شبہات کھا گئے
مرشد ! اے فوٹو پچھلے مہینے چھکایا ہم
ہنڑ میکوں ڈیکھ ! لگدئے جو اے فوٹو میڈا ھ ؟
یہ کس نے کھیل کھیل میں سب کچھ الٹ دیا
مرشد یہ کیا کہ مر کے ہمیں زندگی ملے
مرشد ! ہمارے ورثے میں کچھ بھی نہیں ، سو ہم
بے موسمی وفات کا دکھ چھوڑ جائینگے
مرشد کسی کی ذات سے کوئی گلہ نہیں
اپنا نصیب اپنی خرابی سے مر گیا
مرشد وہ جس کے ہاتھ میں ہر ایک چیز ہے
شاید ہمارے ساتھ وہی ہاتھ کر گیا
———————
تیسرا حصہ
مرشد ! دعائیں چھوڑ ، ترا پول کھل گیا
تو بھی مری طرح ہے ، ترے بس میں کچھ نہیں
انسان میرا درد سمجھ سکتے ہی نہیں
میں اپنے سارے زخم خدا کو دکھاؤں گا
اے ربِ کائنات ! ادھر دیکھ ، میں فقیر
جو تیری سر پرستی میں برباد ہو گیا
پروردگار ! بول ، کہاں جائیں تیرے لوگ
تجھ تک پہنچنے کو بھی وسیلہ ضروری ہے
پروردگار ! کچھ بھی صحیح نہیں رہا
یہ کس کو تیرے دین کے ٹھیکے دیے گئے
پروردگار ! ظلم پہ پرچم نِگوں کیا
ہر سانحے پہ صرف ترانے لکھے گئے
ہر شخص اپنے باپ کے فرقے میں بند ہے
پروردگار ! تیرے صحیفے نہیں کھلے
کچھ اور بھیج ! تیرے گزشتہ صحیفوں سے
مقصد ہی حل ہوئے ہیں ، مسائل نہیں ہوئے
جو ہو گیا سو ہو گیا ، اب مختیاری چھین
پرودگار ! اپنے خلیفے کو رسی ڈال
جو تیرے پاس وقت سے پہلے پہنچ گئے
پروردگار ! انکے مسائل کا حل نکال
پروردگار ! صرف بنا دینا کافی نئیں
تخلیق کر کے بھیج تو پھر دیکھ بھال کر
ہم لوگ تیری کن کا بھرم رکھنے آئے ہیں
پروردگار ! یار ، ہمارا خیال کر
افکارعلوی

Leave a Comment

ازل سے ایک ہجر کا اسیر ھے،اخیر ھے

ازل سے ایک ہجر کا اسیر ھے،اخیر ھے
یہ دل بھی کیا لکیر کا فقیر ھے،اخیر ھے

ہمارے ساتھ حادثہ بھی دفعتا” نہیں ہوا
جو ہاتھ میں نصیب کی لکیر ھے،اخیر ھے

ہمارے قتل پر ہمیں ہی دوش دے رہے ہیں آپ
جناب من جو آپ کا ضمیر ھے،اخیر ھے

اسی طرف بھڑک رہی ھے آگ زور شور سے
اسی طرف ہی روشنی کثیر ھے، اخیر ھے

اسی لیے اسیر ہوں میں سر زمینِ جھنگ کا
سنا ھے میں نے جھنگ کی جو ہیر ھے،اخیر ھے

ہرا رھے گا عمر بھر جو زخم آپ سے ملا
جناب کی کمان میں جو تیر ھے،اخیر ھے

بہار نے کیا بھی تو خزاؤں کا بھلا کیا
یہ زندگی بھی موت کی سفیر ھے،اخیر ھے

Leave a Comment
%d bloggers like this: