Skip to content

Month: November 2020

یہ معجزہ بھی محبّت کبھی دِکھائے مجھے

یہ معجزہ بھی محبّت کبھی دِکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گِرے اور زخم آئے مجھے

میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہُوں سائے کو
بدن مِرا ہی سہی، دوپہر نہ بھائے مجھے

بَرنگِ عَود مِلے گی اُسے مِری خوشبُو
وہ جب بھی چاہے، بڑے شوق سے جَلائے مجھے

میں گھر سے، تیری تمنّا پہن کے جب نِکلوں
برہنہ شہر میں ‌کوئی نظر نہ آئے مجھے

وہی تو سب سے زیادہ ہے نُکتہ چِیں میرا
جو مُسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے

میں اپنے دِل سے نِکالوں خیال کِس کِس کا
جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے

زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا
گُزار کر تِری زُلفوں کے سائے سائے مجھے

وہ میرا دوست ہے، سارے جہاں‌ کو ہے معلوُم
دَغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے

وہ مہْرباں ہے، تو اِقرار کیوں نہیں کرتا
وہ بدگُماں ہے، تو سو بار آزمائے مجھے

میں اپنی ذات میں نِیلام ہو رہا ہُوں، قتِیل
غمِ حیات سے کہہ دو خرِید لائے مجھے

قتِیل شِفائی

Leave a Comment

عِشق کی داستان ھے ، پیارے

عِشق کی داستان ھے ، پیارے
اپنی اپنی زبان ھے ، پیارے

کل تک اے درد یہ تپاک نہ تھا
آج کیوں مہربان ھے ، پیارے

اُس کا کیا کیجیے جو لب نہ کھلیں ؟؟
یوں تو منہ میں زبان ھے ، پیارے

یہ تغافل بھی ھے نگاہ آمیز
اِس میں بھی ایک شان ھے ، پیارے

جس نے اے دل دیا ھے اپنا غم
اُس سے تُو بدگمان ھے ، پیارے ؟؟

میرے اَشکوں میں اھتمام نہ دیکھ
عاشقی کی زبان ھے ، پیارے۔

ھم زمانے سے انتقام تو لیں
اِک حسین درمیان ھے ، پیارے

عشق کی ایک ایک نادانی
علم و حکمت کی جان ھے ، پیارے۔

تُو نہیں ، میں ھُوں ، میں نہیں ، تُو ھے
اب کچھ ایسا گمان ھے ، پیارے

کہنے سننے میں جو نہیں آتی
وہ بھی اِک داستان ھے ، پیارے

رکھ قدم پُھونک پُھونک کر ناداں
ذرے ذرے میں جان ھے ، پیارے

تیری برھم خرامیوں کی قسم
دل بہت سخت جان ھے ، پیارے

ھاں , تیرے عہد میں ، جِگر کے سِوا
ھر کوئی شادمان ھے ، پیارے

”جگر مُراد آبادی“

Leave a Comment

جاِنِ بہار , حُسن تیرا بے مثال ھے

جاِنِ بہار , حُسن تیرا بے مثال ھے
واللہ کمال ھے، ارے واللہ کمال ھے

آئی ھے میرے پاس تُو، اِس آن بان سے
اُتری ھو جیسے کوئی پری آسمان سے
میں کیا کہوں خُوشی سے عجب میرا حال ھے

ھائے یہ تیری مست اَدائیں ، یہ بانکپن
کِرنوں کو بھی میں چُھونے نہ دوں گا تیرا بدن
تجھ سے نظر ملائے، یہ کس کی مجال ھے

میں خوش نصیب ھُوں ، کہ تُجھے میں نے پا لیا
تُونے کرم کیا، مجھے اپنا بنا لیا
ایسے مِلے ھیں ھم ، کہ بچھڑنا مُحال ھے

جاِنِ بہار حُسن تیرا بے مثال ھے
واللہ کمال ھے، ارے واللہ کمال ھے

“شکیل بدایونی”

Leave a Comment

زنجیریں جب ٹوٹیں گی جھنکا ر تو ہوگی

زنجیریں جب ٹوٹیں گی جھنکا ر تو ہوگی
صدیوں کی سوئی دُنیا بیدار تو ہوگی
پھیلے ہوئے اس دھرتی پر ہیں لوگ جہاں تک
پہنچے گی زنجیروں کی جھنکار وہاں تک

دُنیا جاگی تو کوئی محکوم نہ ہوگا
کوئی وطن آزادی سے محروم نہ ہوگا
چکنا چور غلامی کی دیوار تو ہوگی
صدیوں کی سوئی دُنیا بیدار تو ہوگی

دُنیا بھر کے انسانوں کا یہی ہے کہنا
سب کا حق ہے امن اور چین سے زندہ رہنا
پاس نہ آنے دو نفرت کے طوفانوں کو
پیار کی آج ضرورت ہے سب انسانوں کو

پیار کی مٹی سے پیدا مہکار تو ہوگی
صدیوں کی سوئی دُنیا بیدار تو ہوگی
امن کے بادل اک دن ہر سو چھائے ملیں گے
دھوپ کے بدلے ٹھنڈے ٹھنڈے سائے ملیں گے

پورب پچھم ہوگی آزادی کی رِم جھم
روکے گی جو قوم اسے کہلائے گی مجرم
پت جھڑ میں بھی یہ دھرتی گلزار تو ہوگی
صدیوں کی سوئی دُنیا بیدار تو ہوگی

Leave a Comment

بہت دنوں سے دکھائی نہیں دیا وہ شخص​

بہت دنوں سے دکھائی نہیں دیا وہ شخص​
یہ تجھ سے پوچھتے ہوں گے تری گلی والے​

بس ایک حرفِ متانت سے جل کے راکھ ہوئے​
وہ میرے یار مِرے قہقہوں کے متوالے​

اگر وہ جان کے درپے ہیں اب تو کیا شکوہ​
وہ لوگ تھے بھی بہت میرے چاہنے والے​

مقدروں کی لکیروں سے مات کھا ہی گئے​
ہم ایک دوسرے کا ہاتھ چومنے والے​

اُسی مقام پہ کل مجھ کو دیکھ کر تنہا​
بہت اُداس ہوئے پھول بیچنے والے​

جمالؔ احسانی

Leave a Comment

‏اس زلف کا اعجاز کسی کام نہ آیا

‏اس زلف کا اعجاز کسی کام نہ آیا
میں رندِ بلا نوش تہِ دام نہ آیا
کل رات معمّہِ خمِ کاکلِ خوباں
جب تک نہ ہوا حل مجھے آرام نہ آیا
اس بند قبا کا جع ہوا مسئلہ درپیش
مے خوار کا کوئی بھی ہنر کام نہ آیا
مے خانے کا ہنگام نمونہ تھا ابد کا
گزرا بھی تو تحت سحر و شام نہ آیا
اس رات ستاروں میں بھی دیکھا گیا ٹھراو
جس رات کو گردش میں مرا جام نہ آیا
اس زلف کو کھینچا نہ گیا تا بہ حد شوق
کچھ ولولہ دل بھی میرے کام نہ آیا
کل رات مجھے اس نے کنایت سے کیا یاد
کی بات کچھ اس طرح مرا نام نہ آیا
کیا فیصلہ۔ عشق ہو نقد دل و جاں پر
اس کا بھی مزا بے درم و دام نہ آیا
وہ بخل شکر بختئی لب میں تھا کہ مجھ کو
اس نسخہء صدری سے بھی آرام نہ آیا
بت خانہ تع تھا ہی مرا گرویدہء اخلاص
میں حجلہء حوراں سے بھی ناکام نہ آیا
ساغر کی اماں میں تھا مرا کوکب اقبال
زیر اثر گردش ایام نہ آیا
خود ٹوٹ گیا بند قبا بے خبری میں
صد شکر مرے ہاتھ پہ الزام نہ آیا
لمحہ جو ترے ساتھ گزارا تو ابد تھا
تعریف میں ماضی کی یہ ہنگام نہ آیا
کل رات وہ نقش ازلی جام کی تہہ سے
ابھرا تو سہی تا بہ لب جام نہ آیا
عالم ہے یہ اب بے خبری کا کسی نے
پوچھا تو مجھے یاد ترا نام نہ آیا
تا گوشہء زنداں کی طرح عالم اسباب
تا عمر مری روح کو آرام نہ آیا
چھلکا کے سبو ہم نے خزاں کا بھی دیا ساتھ
لب پہ گلہء گردش ایام نہ آیا
کھولا تھا کبھی پیرہن دخت کنشتاں
پھرا راس مجھے جامہء احرام نہ آیا
وہ راز جنوں جو میرے سینے میں تھا محفوظ
وحشت کے بھی عالم میں سر عام نہ آیا
کل شب مجھے جبریل کی آمد کا تھا احساس
دیکھا تو نظر کچھ بھی سر جام نہ آیا
ہم جال بجھاتے ہی رہے زہد و ورع کے
وہ آہوئے اسرار تہہ دام نہ آیا
آئینہ جو دل کا ہوا عکاس بدی بھی
کچھ صیقل آئینہ پہ الزام نہ آیا
میں رند تھا میخانے نے بجشا مجھے اعزاز
شاہوں سے مجھے خلعت و انعام نہ آیا
بہکا بھی جو میں حرف گزارش نہ ہوا خبط
کچھ گفتگوئے شوق میں ابہام نہ آیا
جو میری غزل سے ہوا مسحور پھر اس کو
لطف قصص دارا و بھرام نہ آیا
تھا صاحب اسرار و کرامت تو ظفر بھی
لیکن یہ قدح خوار سر عام نہ آیا

Leave a Comment

اِک پشیماں سی حسرت سے سوچتا ہے مجھے

اِک پشیماں سی حسرت سے سوچتا ہے مجھے
اب وہی شـــہرِ مــحبت سے سوچتا ہے مجھے

میں تو محدود سے لمحوں میں ملی تھی اُس سے
پھر بھی وہ کتنی وضــاحت سے سوچتا ہے مجھے

جــــس نے ســـوچــا ہی نہ تھا ہجر کا مُــمکن ہونا
دُکھ میں ڈوبی ہوئی حیرت سے سوچتا ہے مجھے

میں تو مر جاؤں اگر سوچنے لگ جاؤں اُسے
اور وہ کتنی سُـہولت سے سوچتا ہے مجھے

گــرچــہ اب تـرکِ مــراسـم کو بــہت دیــر ہوئی
اب بھی وہ میری اجازت سے سوچتا ہے مجھے

کتنا خوش فہم ہے وہ شخص کہ ہر موسم میں
اِک نئے رُخ، نئی صــورت سے سوچتا ہے مجھے

Leave a Comment

عشق تاثیر کرے اور وہ تسخیر بھی ہو

عشق تاثیر کرے اور وہ تسخیر بھی ہو
یہ تو سب کچھ ہو مگر خواہشِ تقدیر بھی ہو

کاش تجھ سے ہی مقابل تری تصویر بھی ہو
دعویِٰ ناز بھی ہو شوخیِ تحریر بھی ہو

جعل سازوں نے بنایا ہے شکایت نامہ
کیوں خفا آپ ہوئے یہ مری تحریر بھی ہو

طمعِ زر ہی سے انسان کی مٹی ہے خراب
خاک میں ہم تو ملا دیں اگر اکسیر بھی ہو

جب مقابل ہی نہ ہوں کس کو بتاؤں اچھا
سامنے آپ بھی ہوں آپ کی تصویر بھی ہو

پہلے یہ شرط مصور سے وہ کر لیتے ہیں
بانکی صورت بھی کھنچے ہاتھ میں شمشیر بھی ہو

کوئی نادان ہوں یاروں کے کہے میں آؤں ؟
جس کو تدبیر بتاتے ہیں وہ تدبیر بھی ہو

کاش وہ محفل ِاغیار میں اے جذبۂ دل
میری تعظیم بھی دے ، مجھ سے بغل گیر بھی ہو

لڑ پڑے غیر سے کیا خیر ہے کیسا ہے مزاج
تم جو چُپ چُپ بھی ہو ، مضطر بھی ہو، دلگیر بھی ہو

گو ہے شوخی وہ اثر دیدۂ نرگس میں کہاں
اُس کی آنکھوں کی طرح سرمۂ تسخیر بھی ہو

تم نمک خوار ہوئے شاہِ دکن کے اے داغؔ
اب خدا چاہے تو منصب بھی ہو ، جاگیر بھی ہو

Leave a Comment

مسلسل خوف کی، ڈر کی فراوانی نہیں جاتی

مسلسل خوف کی، ڈر کی فراوانی نہیں جاتی
وہ میرا ھے تو کیوں میری پریشانی نہیں جاتی ؟

مجھے وہ کس طرح ڈھونڈ ے گا لوگوں کے سمندر میں
مری صورت تو اب مجھ سے بھی پہچانی نہیں جاتی

بظاہر بھول کر اُس کو میں ہنستا کھیلتا تو ہوں
مگر سچ تو ھے یہ، اندر کی ویرانی نہیں جاتی

مجھے و ہ مارنے والوں میں شامل ہو گیا کیسے
مری آنکھوں سے مر کر بھی یہ حیرانی نہیں جاتی

مرے دن رفتہ رفتہ ہو گئے کانٹوں بھرے جنگل
مری راتوں سے لیکن رات کی رانی نہیں جاتی

جدائی چاہتا ھے وہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے
محبت میں بھی ہر اِک بات تو مانی نہیں جاتی

ؔ اُس شخص کی چارہ گری میں شک نہیں لیکن
جو جاں میں بس گئی ھے، اب وہ بے جانی نہیں جاتی

Leave a Comment

میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں ا ہوں

میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں ا ہوں
قدیم راتوں کی ٹوٹی قبروں کے میلے کتبے ے
دنوں کی ٹوٹی ہوئی صلیبیں گری پڑی ہیں
شفق کی ٹھنڈی چتاؤں سے راکھ اڑ رہی ہے
جگہ جگہ گرز وقت کے چور ہو گئے ہیں
جگہ جگہ ڈھیر ہو گئی ہیں عظیم صدیاں
میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں مقدس، ہتھیلیوں سے گری ہے مہندی
دیوں کی ٹوٹی ہوئی لویں زنگ کھا گئی ہیں
یہیں پہ ماتھوں کی روشنی جل کے بجھ گئی ہے
سپاٹ چہروں کے خالی پنے کھلے ہوئے ہیں
حروف آنکھوں کے مٹ چکے ہیں
میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں کہیں زندگی کے معنی گرے ہیں اور گر کے کھو گئے ہیں
گلزار

Leave a Comment
%d bloggers like this: